بلوچستان کی سیاست

محمد سعید آرائیں  پير 15 نومبر 2021
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

وفاق میں جس طرح کوئی وزیر اعظم اپنی 5سالہ مدت پوری نہیں کرسکا ، اس طرح بلوچستان کا بھی کوئی وزیر اعلیٰ 5 سال عہدے پر برقرار نہیں رہا۔ غیر جمہوری حکمرانوں نے اپنے ہی وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی تھی اور جمہوری کہلانے والا کوئی بھی وزیر اعظم پانچ سال مکمل نہیں کر سکا کیونکہ اسے یہ مدت پوری کرنے نہیں دی گئی۔

اکثر بالاتروں کے اور دو عدلیہ کے حکم پر اقتدار سے ہٹائے گئے تھے۔ بلوچستان میں جام خاندان واحد خاندان ہے ، جس میں مستعفی ہونے والے وزیر اعلیٰ جام کمال، ان کے والد جام یوسف اور دادا جام غلام قادر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے۔

صوبے کے دیگر بلوچ سیاسی خاندانوں میں بھی باپ کے بعد اس کا بیٹا بھی گورنر یا وزیر اعلیٰ رہا۔ ایسے ہی بلوچستان کے ایک وزیر اعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل صوبے کے بھٹو دور میں پہلے منتخب وزیر اعلیٰ تھے ، جن کا بیٹا اختر مینگل بھی وزیر اعلیٰ بلوچستان رہے جن کا شمار اصول پرست سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے جو عمران خان کی حکومت میں دو سال حلیف رہے مگر ان کی پارٹی نے موجودہ حکومت میں کوئی عہدہ قبول نہیں کیا تھا اور وفاقی حکومت نے ان سے کیے ہوئے وعدے پورے نہیں کیے تھے جس پر وہ موجودہ حکومت کی حمایت سے دستبردار ہوگئے تھے اور اب پی ڈی ایم میں شامل ہیں۔

قیام پاکستان میں بلوچستان کے اہم سیاسی رہنماؤں خان آف قلات، قاضی عیسیٰ ، جعفر خان جمالی و دیگر کا اہم کردار رہا جن کا تعلق قائد اعظم اور مسلم لیگ سے رہا اور وہ ہمیشہ اپنے اصولوں پر قائم رہے اور انھوں نے اپنے سیاسی و مالی مفادات کے لیے کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ میر جعفر خان جمالی نے ایوب خان کے بجائے صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔ بلوچستان سے صرف منتخب وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی مشرف دور میں رہے اور ایک سابق جج کو بھی سپریم کورٹ نے نگراں وزیر اعظم مقرر کیا تھا جب کہ صدر مملکت کا عہدہ اب تک بلوچستان کے حصے میں نہیں آیا جب کہ باقی تین صوبوں کے افراد ملک میں صدر مملکت رہے۔

بلوچستان کے اہم قبائل کے بااثر افراد بلوچستان میں گورنر ، وزیر اعلیٰ اور وفاقی وزیر بنتے رہے مگر اکثر نے اپنے صوبے کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا، صرف مال بنایا اور مفادات حاصل کیے اور وہ آمروں کا ساتھ دیتے رہے اور بالاتروں سے اندرون خانہ ملے رہے اور فائدے اٹھاتے رہے۔ 2018 میں ایک ایسے شخص کو چیئرمین سینیٹ بنایا گیا تھا جن کا کبھی نام بھی نہیں سنا گیا تھا انھیں دو سال قبل اقلیت میں ہونے کے باوجود تحریک عدم اعتماد سے بچایا گیا اور اکثریت کی حمایت کے بغیر بھی انھیں دوبارہ چیئرمین منتخب کرایا گیا تھا جو پی ٹی آئی کے اتحادی ہیں۔

بلوچستان کی سیاست میں قبائل اور سرداروں کا اثر و رسوخ زیادہ رہا ہے جن کی سیاست اصولوں کے بجائے صرف اور صرف مفادات کے گرد گھومتی ہے اور بہت کم ایسے لوگ ہیں جو اپنے اصولوں پر قائم ہیں۔ اکثر سیاستدانوں کے اصول وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں اور وہ مفادات کے لیے پارٹیاں بھی بدلتے رہتے ہیں اور ان کے نزدیک اصولوں کی کوئی اہمیت نہیں رہی انھیں صرف مفادات عزیز ہیں۔

ساڑھے تین سال قبل ثنا اللہ زہری بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعلیٰ تھے جنھیں ہٹانے کے لیے راتوں رات ایک نئی سیاسی پارٹی باپ بنائی گئی تھی۔ جام کمال مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں وزیر مملکت تھے۔

حقیقت سامنے آنی چاہیے مگر کہا جا رہا ہے کہ ارکان اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کرکے بلوچستان عوامی پارٹی بنائی گئی جس کا صدر جام کمال کو بنایا گیا تھا اور اب اسی جام کمال کے خلاف ان کی پارٹی میں بغاوت ہوئی اور انھیں مستعفی ہونا پڑا۔ سابق وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری کو 2018 میں پیپلز پارٹی نے بالاتروں سے مل کر مستعفی ہونے پر مجبور کیا تھا پھر وہی ثنا اللہ زہری پیپلز پارٹی میں شامل کرائے گئے۔

جام کمال کے مستعفی ہونے کے موقع پر بلوچستان کی سیاست کی غیر اصولیاں مزید سامنے آئیں اور بقول جام کمال میں نے اس لیے استعفیٰ دیا کہ اقتدار کے بھوکے سیاستدان اپنا شوق پورا کرلیں۔ سیاست میں نئے دورکا آغاز ہونے سے لوگوں کے چہرے اور سیاسی اصول آشکار ہوئے۔ بہت سے ہیرے اپنی ساکھ کے ساتھ کھڑے رہے۔

بلوچستان میں بہتری آئی مگر بعض لوگ حالات بہتر ہوتے نہیں دیکھ سکتے اور انھوں نے صوبے میں عدم استحکام پیدا کیا۔ صوبے میں اقتدار کی ہوس رکھنے والوں کی وجہ سے میرے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی۔ عبدالقدوس بزنجو وزیر اعلیٰ بن گئے جنھوں نے (ن) لیگ چھوڑ کر پہلے وزارت اعلیٰ حاصل کی تھی۔

سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل کا موجودہ صوبائی تبدیلی پر کہنا ہے کہ 25 سال تک پارٹیاں بدلنے والے بتائیں کہ انھیں اصولوں کی بھوک تھی یا اقتدار کی ہوس؟ جام کمال سے انھوں نے پوچھا کہ انھوں نے 25 سال جو پارٹیاں بدلیں وہ کن مقاصد کے حصول کے لیے تھیں۔ بلوچستان کی سیاست کی یہ صرف ایک تصویر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔