وبائی امراض کا پھیلاؤ اور صحت عامہ کے مسائل

ایڈیٹوریل  پير 15 نومبر 2021
پاکستان میں تواتر سے وبائی امراض کا پھیلاؤ جاری ہے، جس کی وجہ سے ملک میں صحت عامہ کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ فوٹو:فائل

پاکستان میں تواتر سے وبائی امراض کا پھیلاؤ جاری ہے، جس کی وجہ سے ملک میں صحت عامہ کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ فوٹو:فائل

پاکستان میں آج کل ڈنگی وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں سیکڑوں مریض روزانہ کی بنیاد پر سامنے آ رہے ہیں، دوسرے صوبوں کی صورت حال بھی اس سے قطعی مختلف نہیں۔

مریضوں میں پلیٹ لیٹس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے استعمال ہونے والی کٹس ایک طرح سے نایاب ہو گئی ہیں، اگر اپنے ذرایع سے کوئی مریض یہ کٹ لینا چاہے تو اس کی قیمت 30 ہزار روپے ہے۔

ڈنگی بخار کے سر اٹھاتے ہی لاہور میں پیناڈول کی گولی نایاب ہے۔ دوسری جانب اسموگ نے پاکستان کے مختلف شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس میں لاہور متاثرہ شہروں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر آ پہنچا ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں کووڈ 19، ڈنگی، ٹائیفائیڈ اور ملیریا سب ایک ہی وقت میں پھیل رہے ہیں۔

کورونا، ڈنگی اور اسموگ کے باعث نفسیاتی اور صحت کے مسائل بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں، اس سے بوڑھے، بچے اور نظام تنفس کے مسائل کے شکار افراد بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اسموگ ناصرف انسانوں پر اثرانداز ہوتی ہے بلکہ پودوں کی افزائش اور جنگلات بھی اس سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔

پاکستان میں تواتر سے وبائی امراض کا پھیلاؤ جاری ہے، جس کی وجہ سے ملک میں صحت عامہ کے مسائل پیدا ہورہے ہیں، شعبہ صحت کو ہر حکومت نے نظرانداز کیا ہے، لہٰذا عوام کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔

ڈنگی وائرس ان دس بڑے امراض میں شامل ہے جو بچوں میں بیماری اور اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ ڈنگی وائرس مادہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے جو ڈنگی وائرس سے متاثرہ شخص کو کاٹ کر کسی دوسرے صحت مند آدمی کو کاٹنے پر ایک سے دوسرے میں منتقل کرتی ہے۔ اس طرح ڈنگی وائرس کا پھیلاؤ ایک مچھر سے شروع ہوتا ہے اور متاثرہ مریض پر جا کر ختم ہوتا ہے، متاثرہ مریض اس وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ بن جاتا ہے کیونکہ یہ وائرس مریض کے اندر تیزی سے پھیلتا ہے۔یہ وائرس متاثرہ مریض کے جسم میں دو سے سات دن تک گردش کرتا ہے۔

اس دوران اس مریض کو کاٹنے والے مچھر اس وائرس سے متاثر ہوتے ہیں اور پھر دوسرے لوگوں کو کاٹ کر اس بیماری کے پھیلاو کی بڑی وجہ بنتے ہیں۔اس طرح یہ ایک بہت خطرناک عمل شروع ہو جاتا ہے جس کو روکنا بہت ضروری ہے تاکہ ڈنگی وائرس کو وبائی شکل اختیار کرنے سے روکا جا سکے۔

ڈنگی کی علامات میں تیز بخار،جوڑوں اور پٹھوں میں درد، مسوڑھوں اور ناک سے خون آنا، متلی اور قے وغیرہ شامل ہیں جب کہ ڈنگی سے بچاؤ میں مچھروں کی افزائش کی روک تھام اور ان سے بچنا اہم ترین اقدام ہیں۔ ڈنگی وائرس پر قابو پانے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا ہے جن میں وائرس کی تشخیص، طبی تحقیق اور علاج معالجہ کا پیچیدہ عمل شامل ہے، بالخصوص ملیریا، ٹائیفائیڈ اور ہیپاٹائٹس جیسے انفیکشن کی موجودگی میں ڈنگی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ملک میں بہت سی بیماریاں اور قدرتی آفات پانی سے پیدا ہوتی ہیں، جن میں ڈنگی اب سب سے نمایاں اور اہم مرض بن چکا ہے۔

طبی ماہرین نے ڈنگی وائرس کو پاکستان کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دیاہے۔ مچھروں کی افزائش روکنے کے لیے کوڑے کچرے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگا کر اور پانی کا محفوظ استعمال کرکے اور گھروں میں رہتے ہوئے مچھر کو بھگانے کا اہتمام کرکے ڈنگی سے بچاؤ میں مدد مل سکتی ہے کیونکہ ڈنگی وائرس کی ویکسین اور علاج کے لیے مناسب ادویات دستیاب نہیں ہیں،اس لیے ڈنگی وائرس سے بچاؤ ہی بہترین عمل ہے۔

دوسری طرف ملک میں اسموگ کی مختلف وجوہات ہیں جن میں صنعتی آلودگی، فصلوں کو جلانا،گاڑیوں کا دھواں وغیرہ قابلِ ذکر ہیں،اسموگ سے شہریوں کے نہ صرف حالاتِ زندگی متاثر ہو رہے ہیں بلکہ مختلف قسم کی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔پاکستان میں گزشتہ سال اسموگ کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک میں کمی ہوئی بلکہ کئی پروازیں بھی منسوخ ہوئیں، رواں سال ایئر کوالٹی اور آلودگی کے لحاظ سے پاکستان کے شہر لاہور اور کراچی دنیا کے 25 آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں۔

وطن عزیز میں فوٹو کیمیکل اسموگ پائی جاتی ہے،اس میں وولیٹائل کے باریک ذرات شامل ہوتے ہیں، یہ ذرات مختلف قسم کی گیسوں،مٹی اور پانی کے بخارات سے مل کر بنتے ہیں۔سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ جو کہ صنعتوں گاڑیوں اور کوڑا کرکٹ جلانے سے ہوا میں شامل ہو جاتی ہیں، جب سورج کی کرنیں ان ذرات پر پڑتی ہیں تو اسموگ کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ سردیوں میں جب ہواکی رفتار کم ہونی شروع ہوتی ہے تو ہوا میں شامل یہ دھواں اور دھند جمنے لگتا ہے اور نتیجہ اسموگ کی صورت میں نکلتا ہے۔

اسموگ میں زمینی اوزون سلفر ڈائی آکسائیڈ،نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اورپارٹیکیولیٹ جیسے عناصر شامل ہوتے ہیں،یہ خوردبینی ذرات ٹھوس بھی ہو سکتے ہیں اور ما یع شکل میں بھی موجود ہوتے ہیں جو آکسیجن پر اثرانداز ہو کر سانس لینے کے عمل میں دشواری پیدا کرتے ہیں۔یونیورسٹی آف شکاگو کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق اسموگ کے باعث ہر پاکستانی شہری کی اوسط عمر میں 2.7 سال کی کمی آ رہی ہے، جب کہ لاہور کے ہر شہری کی عمر میں 5.3 سال، فیصل آباد کے شہری میں 4.8 سال اور گوجرانوالہ کے ہر شہری کی عمر میں 4.7 سال کی کمی آ رہی ہے۔

کسی شہر یا قصبے کو اسموگ گھیر لے تو اس کے اثرات فوری طور پر محسوس ہوتے ہیں۔ اسموگ کے زیراثر افراد میں سانس لینے میں دشواری یعنی دمہ،گلے میں خارش، آنکھوں میں جلن، بخار،کھانسی، فلو اور پھیپھڑوں میں انفیکشن جیسی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں۔ اسموگ کی معمولی مقدار میں گھومنا بھی دمہ کے مریضوں کے لیے دورے کا خطرہ بڑھانے کے لیے کافی ثابت ہوتی ہے۔

ملک میں ہرسال فصلوں کی 19 ملین ٹن باقیات کو نذر آتش کیا جاتاہے، گوکہ صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر پنجاب میں اِس پر پابندی عائدکی جا چکی ہے۔ محکمہ زراعت فصلوں کی باقیات کو تلف کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ دھان کے ڈنٹھل کا ٹکرا زمین میں ملا دیا جائے، مڈھوں کی تلفی کے لیے گہرا ہل چلایا جائے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اے کیو آئی حساس طبیعت والے افراد کے لیے غیرصحتمندانہ ہے۔ 580 اے کیو آئی کی شرح ہر فرد کے لیے انتہائی خطرناک ہوتی ہے۔

اسموگ دل اور پھیپھڑوں کے ساتھ ساتھ دماغی صلاحیت کے لیے بھی تباہ کن ہے۔ آلودگی میں معمولی اضافہ سے بھی ڈیمنشیا کا خطرہ بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ماہرین صحت کی جانب سے اسموگ کو دماغی صحت کے لیے تباہ کن قرار دیا جاتاہے۔ ماہرین کے مطابق فضا میں آلودہ ذرات کا ایک مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر اضافہ ڈیمینشیا کا خطرہ 16 فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔ ملک میں اسموگ کے سیزن کا آغاز اکتوبر کے کسی بھی دن سے ہو کر جنوری تک جاری رہتا ہے۔اس میں شدت اس عرصہ کے دوران 10 دن سے لے کر 25 دن تک ہو سکتی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ پاکستان میں شعبہ صحت پہلے ہی کمزوربنیادوں پر کھڑا ہے اور اس میں کسی بھی وبائی مرض پھوٹنے کی صورت میں مریضوں کا بوجھ اٹھانے کی سکت باقی نہیں ہے، یہ صورتحال موجودہ حکومت کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔

عوام کی صحت تندرستی کو یقینی بنانا حکومت اور محکمہ صحت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، جب کہ علاج معالجہ کی بہترین سہولیات کی دستیابی حکومت کی بنیادی ذمے داری بنتی ہے۔سادہ اور معصومانہ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت شعبہ صحت کے حوالے سے اقدامات اٹھارہی ہے ، جواب نفی میں ہے ، لہٰذا ان سطور کے ذریعے حکومت سے صرف مودبانہ گزارش کی جاسکتی ہے کہ وہ ملک میں عوام کی صحت کے حوالے سے مسائل کو حل کرنے پر اپنی بروقت ، مناسب اور جنگی بنیادوں پر حکمت عملی ترتیب دے تاکہ عوام کو وبائی امراض کے پھیلاؤ ، شدت اور نقصان سے بچایا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔