کیا کورونا وائرس قدرتی ہے

سعد اللہ جان برق  پير 15 نومبر 2021
barq@email.com

[email protected]

اس وقت دنیا میں شایدہی کوئی ایسا فرد ہو جو ’’کورونا‘‘سے واقف نہ ہواس وائرس نے تباہی بھی مچا دی،اس کی ویکسین بھی نکل آئی،علاج اوراحتیاط بھی سامنے آئے، تقریباً ہرگھر پر اس نے دستک بھی دی ہے اورسارے عوام اورحکومتوں کے ساتھ جوکرناتھا وہ بھی کر لیالیکن یہ سوال ہمیشہ رہے گا کہ کیایہ آفت قدرتی ہے یا انسان کی لائی ہوئی ہے۔

امریکا اوربھارت وغیرہ تو چین پر انگلی اٹھا رہے ہیں لیکن کوئی ٹھوس ثبوت کسی کے پاس بھی نہیں ہے،عام طورپر جب کوئی واردات  خاص طورپر قتل کی واردات ہوتی ہے تو تفتیشی ادارے سب سے پہلے ’’موٹیو‘‘تلاش کرتے ہیں کہ اس قتل سے کس کوفائدہ ہوا ہے پھر اس پرشک کی سوئی ٹھہرا دی جاتی ہے، اس کیس میں بھی ہم اگر وہی طریقہ اختیار کریں یعنی انسانیت کے اس ’’قتل عام‘‘ سے زیادہ فائدہ کس کوپہنچا توشک کی سوئی عالمی مالی مافیا پرٹھہرجاتی ہے جس میں دواسازکمپنیاں سرفہرست ہیں اورساتھ ہی کچھ اورتجارتی کمپنیاں بھی جوسب کی سب عالمی مالی مافیا کا حصہ ہیں۔

چنانچہ اس کیس پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو دواساز کمپنیوں اوردوسری متعلقہ کمپنیوں کوبے پناہ منافع ہواہے، فوری طورپر ادویات کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں، ساتھ صابن کمپنیوں ،سینی ٹائزرٹائپ کی مصنوعات اوردیگر حفاظتی سازوسامان کی مارکیٹ بھی تیز ہوگئی۔

مجموعی طورپر نقصان صرف عوام کا ہوا ہے اور فائدہ عالمی مالی مافیاکو ہوا ہے اور وہ بھی بے پناہ ،بے حساب اوربے تحاشا تو اس سے کیا سمجھ میں آتا ہے،اس سلسلے میں حکومتوں کوجو نقصان ہوا ہے وہ بھی عوام ہی کا نقصان ہے، کیوں کہ حکومتیں اپنے گھر سے یا پلے سے توخرچ نہیں کرتیں ،آگے بات چلتی چلتی ان بدنصیب پچاسی فی صد عوام کی گردن پر آئے گی ،وہ جو کماتے ہیں، پیدا کرتے ہیں، بناتے ہیں اورکھلاتے ہیں، باقی پندرہ فی صد اشرافیہ یاحکمرانیہ تو’’نکٹھو‘‘ہوتے ہیں،آرام سے جھتے میں بیٹھے رہتے ہیں اورکارکن مکھیوں کی کمائی لوٹ کوٹ کرکھاتے ہیں اوربہت زیادہ کھاتے ہیں ۔

میں نے اپنی کتاب ’’دیواستبداد یا نیلم پری‘‘ میں تفصیل سے بتایا ہے کہ اس وقت دنیا ایک ’’پتلی تماشا‘‘ہے اورساری کٹھ پتلیوں کے تاراس ماسٹرکے ہاتھ میں ہیں جسے ’’عالمی مالی مافیا‘‘کہتے ہیں اورجس میں اٹھاون فی صد یہودی سرمایہ دارشامل ہیں جنھیں گینگسٹرکی طرزپر ’’بنکسٹر‘‘ کہا جانا چاہیے،اس وقت ’’میڈیا‘‘کا چورانوے فیصد حصہ یہودیوں کے ہاتھ میں ہے، دنیا کے بڑے بڑے اخبار،اشاعتی ادارے، فلم پروموشن کمپنیوں کے مالک اورسربراہ یہودی ہی ہیں اورساتھ ہی اسلحہ ساز اور دواساز صنعت کے بھی ۔

اگر صحیح معنی میں کھوجاجائے تودنیا کاسپرپاورنہ امریکا ہے نہ کوئی اوربلکہ یہی یہودی عالمی مافیاہے، حکومتیں بھی امریکا سمیت اس کے ہاتھ کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ٹرمپ جب منظرعام پر آیا تو وہ ’’مسلمانوں‘‘ کا سخت مخالف تھا لیکن اس نے پہلادورہ سعودی عرب کا کیا،اوروہاں جاکر کھلے منہ کے ساتھ کہا کہ امن کی ابتداء اس سرزمین سے ہوئی اورپھر کھربوں ڈالر کا ’’اسلحہ‘‘بیچ ڈالا۔ کیوں؟

اس لیے کہ صدارت کے منصب پر فائزہوتے ہی ’’اصل آقاؤں‘‘نے اسے سمجھا دیاکہ تم اگر مسلمانوں  کے پیچھے پڑے رہے تو ہم اپنی کمپنیوں میں تیار ہونے والا اسلحہ کہاں بیچیں گے۔دراصل امریکا کا بظاہر خود مختار، طاقتورترین اورآزاد صدر بھی اصل نہیں ان کا غلام بلکہ جنرل منیجر ہوتا ہے۔

ظاہرہے کہ جس طرح اسلحہ کے لیے مارکیٹ بنانا ان کے مفاد میں ہے اسی طرح دواؤں کی مارکیٹ کو وسیع کرنا بھی ان کے لیے ضروری ہے،اسی مالی مافیا کے لیے یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ کون مرتا ہے، کتنے مرتے ہیں یا تباہ ہوتے ہیں ان کو اپنا مال نکالنا ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے ۔اب اگر وہ وسیع پیمانے پر جنگیں برپاکرسکتے ہیں تو ایسا وائرس بھی تیارکرسکتے ہیں جو دواؤں اوردیگر متعلقہ سامان کی مارکیٹ کو وسیع کرے ۔اوراس خیال کو تقویت اس سے ملتی ہے ،کورونا کے ساتھ ہی ہرقسم کی دواؤں کی قیمتیں ایک دم بڑھا دی گئیں بلکہ ہرہرسطح پر مہنگائی کا طوفان بھی آگیا ہے۔

جہاں تک ’’حکومتوں‘‘ کا تعلق ہے تووہ کٹھ پتلیوں کی طرح دھاگے کی اسیر ہیں۔یوں کہیے کہ ان کی حیثیت ان جانوروں کی طرح ہے جن کو ’’کیل‘‘ گاڑکراورگردن میں رسہ ڈال کر ’’کھیت ‘‘ میں باندھا گیا ہو وہ صرف اتنا ’’چر‘‘سکتی ہیں جتنا ’’کیل‘‘ اور’’رسہ‘‘ اجازت دیتے ہیں، باقی کھیت کوایک انچ بھی نہیں چرسکتے ،اپنے دائرے میں چر کر وہ گھاس اورچارے کی جڑیں تک کھود سکتے ہیں۔اوراب اسی وبا کے بعد وہ مجبورہیں کہ سودی قرضوں پرگزارہ کریں۔

قرضوں کے بارے میں بھی آپ کو بتادیں کہ دنیاکا سوکال سپرپاور امریکا بھی اس ’’مالی مافیا‘‘ جسے عالمی یہودی مافیا کہنا زیادہ درست ہے کا اتنا قرض دار ہے جتنے کسی امریکی کے سرپر بال ہوتے ہیں ،یوں کہیے کہ اس وقت دنیا کا اصل حکمران یہی عالمی یہودی مالی مافیا عرف بنکسٹرز ہے،اب تو بہ تحقیق ثابت ہوچکاہے، دوعظیم عالمی جنگیں بھی اسی مافیا کی کارستانی تھی۔ایسے میں اس سے کچھ بھی بعید نہیں کہ اپنے فائدے کے لیے دوسرے ہتھیاروں کے ساتھ جراثیم اوروائرس کے ہتھیار بھی تیار اور استعمال کرے ۔

یہ تو طے ہے کہ اس کے پاس بہت بڑا تھنک ٹینک بھی ہے ہمہ گیر میڈیا بھی اوردنیا کے اکثرگروپوں کے تاربھی ہیں،این جی اوز بھی ہیں۔حتمی طورپر اس کا ثبوت تو موجود نہیں شاید اگلے وقتوں میں مل بھی جائے لیکن ’’موٹیو‘‘ موجود ہے کہ کوروناوائرس کافائدہ اسی کو ہوا  ہے اورنقصان صرف عوام کا ہوا ہے ،جانی بھی اورمالی بھی،ویسے بھی جراثیمی اورکیمیائی ہتھیاروں کاذکر اورخیال ایک عرصے سے ہوتا رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔