ایک سال میں 2100نئے چراغ

تنویر قیصر شاہد  پير 15 نومبر 2021
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

پنجاب کے گورنر جناب محمد سرور چوہدری نے خدمتِ خلق کی سیکڑوں مثالیں قائم کرنے اور سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں بے بس اور بیکس افراد کو بینائی کا تحفہ تقسیم کرنے کی بِنا پر اس ادارے کو ایک شاندار ایوارڈ سے نوازا ہے ۔پاکستان کے سیکڑوں غریب اور بے نوا شہری یہ نئے ’’چراغ‘‘ جلانے پر جناب عبدالرزاق ساجد کو ہدیہ تہنیت پیش کرتے ہیں۔

پنجاب کے دارالحکومت، لاہور، کے ایک ہوٹل میں سیکڑوں لوگوں نے آن دی ریکارڈ گزشتہ روز تالیوں کی گونج میں یہ مبارکباد یوں پیش کی کہ اجتماع میں ممتاز وزرا، سیاستدان ، روحانی شخصیات ، دانشور ، صحافی ، طلبا قائدین اور علمائے کرام تشریف فرما تھا۔باعثِ تقریب بننے والے دو میاں بیوی تھے جنھوں نے پاکستان سے باہر بیٹھ کر شب و روز محنت کی اور پاکستان میں ایک بڑے اور معتبر ادارے کی بنیاد رکھی ۔ یہ ادارہ اب کئی لوگوں میں نظر کا نُور تقسیم کررہا ہے ۔ آ ئیے پہلے اس دلنواز داستان کے دو کرداروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔

حکمرانوں کی اپنی مجبوریاں اور اپنے مخصوص مفادات ہوتے ہیں۔ یہ مخصوص مجبوریاں اور مفادات ہی تھے جن کی اساس پر ہماری جامعات اور ہمارے کالجوں میں طلبا تنظیموں پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ آمریتوں اور شخصی حکومتوں کے ادوار میں تعلیمی اداروں میں طلبا تنظیموں پر پابندیاں عائد کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ایک جمہوری دَور میں طلبا و طالبات کو اس حق سے محروم کرنا سمجھ سے قطعی بالا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ طلبا تنظیمیں بڑی حکمت اور دانائی سے طلبا کی سیاسی و سماجی تربیت کا باعث بنتی رہی ہیں۔

اس پلیٹ فارم سے معاشرے اور ملک کو تربیت یافتہ نوجوان قیادت میسر آتی رہی ہے کہ یہ طلبا تنظیمیں دراصل ایک شاندار نرسری کا کام بھی کرتی تھیں۔ آج کی کئی اہم سیاسی شخصیات پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہمیں کئی ایسے سیاستدان نظر آتے ہیں جو قومی اور صوبائی سطح پر ملک وقوم کی خدمت کرتے اور ملک بھر میں قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ان سیاستدانوں نے طلبا تنظیموں کے پلیٹ فارم سے ابتدائی تربیت حاصل کی۔

تقریباً دو عشرے قبل پنجاب یونیورسٹی میں ایک معروف طلبا تنظیم سے وابستہ دو طالب علموں نے اپنی جامعہ ہی کے سائے اور ماحول میں تعلیم کے ساتھ ساتھ قائدانہ تربیت کے مدارج بھی طے کیے۔تعلیم سے فراغت کے بعد دونوں نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو قدرت نے دونوں کو زندگی بھر کا ساتھی بھی بنا دیا۔ دونوں نے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر وطنِ عزیز سے دُور دیارِ فرنگ میں ایک ادارے کی اساس رکھی۔ مقصد یہ تھا کہ انسانیت کی خدمت کی جائے ۔ گرے ہُوؤں کو سہارا دیا جائے۔

خاک نشینوں اور بے دست و پا میں اُمید کے نئے چراغ روشن کیے جائیں ۔ان دونوں شخصیات نے اپنے نئے ادارے کا نام ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ (AMWT)رکھا۔ ادارے کے بانی چیئرمین عبدالرزاق ساجد منتخب ہُوئے اور اُن کی اہلیہ محترمہ نے پسِ پردہ اور پُشت پر رہ کر ادارے کی طاقت اور تقویت بننے کا فیصلہ کیا ۔یہ جو عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کی  پُشت پر ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ AMWT اور عبدالرزاق ساجد صاحب کی کامیابی کو دیکھا جائے تو یہ کہاوت عملی شکل میں سامنے آ کھڑی ہوتی ہے ۔

یوں تو ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ نے دُنیا کے 22ممالک میں خدمتِ خلق اور خدمتِ انسانیت کا قابلِ تحسین نیٹ ورک قائم کررکھا ہے لیکن اس ادارے کے تحت پاکستان کے کئی شہروں میں بھی کئی چراغ روشن کرنے کی سبیل پیدا کی جارہی ہے ۔ٹھیک ایک برس قبل لاہور میں ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے بینر تلے ، مشہور جناح باغ سے متصل ایک عمارت میں،امراضِ چشم کے مفت علاج اور آپریشن کے لیے ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ آئی ہاسپٹل‘‘ کی اساس رکھی گئی۔

سابق طالب علم رہنما اور موجودہ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور محترم ڈاکٹر نُور الحق قادری صاحب اور مشہور علمی، رُوحانی اور بزرگ شخصیت سید ریاض حسین شاہ صاحب نے اس اسپتال کی اساسی اینٹ رکھی ۔ اِنہی بابرکت شخصیات کے کارن صرف ایک سال کی مدت میں اسپتال مذکور نے خدمت و محبت کی نئی مثالیں قائم کی ہیں ۔ گزشتہ روز لاہور کے ایک ہوٹل میں مستحق اور کم وسیلہ افراد کومفت علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنے والے اسپتال مذکور کی پہلی سالگرہ منائی گئی ۔ بہت سے لوگ شریک ہُوئے اور اپنی محبتوں اور دعاؤں میں ادارے کے بانیان اور لاہورکی کئی انسانیت نواز سماجی شخصیات کو خراجِ تحسین و محبت پیش کیا۔

ادارے کے بانی اور چیئرمین عبدالرزاق ساجد نے اپنے خطبے میں سامعین کو یہ خوش کن اور دل افروز خبر سنائی کہ پچھلے ایک سال کے دوران لاہور میں بروئے کار ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ آئی ہاسپٹل ‘‘ میں آنکھوں کے 2100آپریشن کیے گئے ۔ سبھی کامیا ب رہے اور کسی ایک سے بھی ایک ٹکا وصول نہیں کیا گیا ۔ مستحقین مریضوں کی دستگیری یوں کی گئی کہ پرچی سے لے کر آپریشن کرنے اور عینک لگانے تک کے سبھی مراحل ایک چھت تلے انجام دیے گئے اور سب کا علاج مفت کیا گیا۔

مریضوں اور اُن کے ساتھ آئے لواحقین کو تین وقت کھانا بھی مفت دیا گیا ۔ عینکیں اور عدسے بھی فری آف کاسٹ فراہم کیے گئے ۔ خاص بات یہ ہے کہ کروڑوں روپے کی جدید مشینری بھی خریدی گئی اور مریضوں پر کروڑوں روپے بھی خرچ کیے گئے لیکن پاکستان سے کسی سے کوئی عطیہ نہ لیا گیا ۔ سارے فنڈز بطور ڈونیشنز برطانیہ میں مخیر حضرات سے اکٹھے کیے گئے لیکن ان فنڈز کا صرفہ ابنائے وطن پر کیا گیا ۔

لاہور میں گزشتہ ایک سال کے عرصے میں آنکھوں کے جو نئے2100چراغ روشن کیے گئے ہیں ، ان کی لَو مزید تیز کرنے کے لیے وفاقی وزیر مذہبی امور جناب نور الحق قادری بھی تقریب سعید میں موجود تھے اور راولپنڈی سے تشریف لائی معروف دینی اور مذہبی شخصیت سید ریاض حسین شاہ صاحب دعائیں دینے کے لیے بنفسِ نفیس موجود تھے۔

سندھ سے تشریف لانے والی مشہور سیاسی شخصیت محترمہ شہلا رضا صاحبہ نے ایک نئے رنگ سے تقریب کو جِلا بخشی۔ پی ٹی آئی ، نون لیگ، پیپلز پارٹی ، جے یو پی کی بھرپور نمایندگی تھی ۔ سبھی نے اس ادارے کی ترقی اور مزید کامیابیوں کے لیے دعائیں کیں اور یہ بھی کہا کہ وطنِ عزیز کے اندر سے بھی اگر کوئی صاحبِ دل اور صاحبِ ثروت شخصیت یا ادارہ ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ آئی ہاسپٹل‘‘ کی مالی و رُوحانی دستگیری کرنا چاہے تو خوش آمدید کہا جائے گا۔

بعض مقررین نے  ملک پر چھائی مہنگائی کا ذکر بھی اشارتاًاور کنایتاً کیا تو سہی لیکن وزیر نور الحق قادری صاحب نے اپنے خوشگوار لہجے اور مسکراتی شخصیت سے ان اشاروں کی تلخی اور کڑتّن تحلیل کر دی ۔ایک سال کی تھوڑی سی مدت میں ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے پرچم تلے 2100کی تعداد میں آنکھوں کے نئے چراغ روشن کیے جانے پر ہماری طرف سے بھی مبارکباد ۔ ادارہ مذکور کے سربراہ نے اپنے خطبے میں ایک دل افروز بات بڑے انکسار سے یہ بھی کہی کہ ہم نے کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا ہے ، بس برطانیہ سے مخیر حضرات کے عطیات کو احتیاط کے ساتھ مستحقین تک پہنچانے کی ایک سعی کی ہے۔ انھوں نے انکساری میں یہ بات تو کہہ دی لیکن واقعہ یہ ہے کہ کروڑوں روپے کے عطیات اکٹھے کرنا ہر کسی کے بات کی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس خدمت کو قبول فرمائے ۔( آمین۔ )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔