اورحان پاموک کا سوات

فاروق عادل  پير 15 نومبر 2021
farooq.adilbhuta@gmail.com

[email protected]

پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار اپنے دفتر سے عجب شان سے نکلے۔ ان کے کوٹ کے اوپر سواتی پٹی والا اوور کوٹ تھا، وہی بسکٹی رنگ پر کرمزی کڑھائی اور لمبے بازوؤں والا کوٹ جسے پہننے سے زیادہ اوڑھا جاتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ بازو دائیں بائیں لٹکتے رہتے ہیں اور اوڑھنے والا کوٹ کے اندر سے بازو باہر نکال کر کاروبار زندگی میں مصروف رہتا ہے۔

کڑاکے دار سردی میں جسم و جاں کولحاف کی مثال گود میں لے لینے والا یہ کوٹ ہمارے سوات و چترال سے لے کر گلگت و بلتستان تک پایا جاتا ہے۔ استنبول یونیورسٹی میں اس روز پاکستانی ثقافتی میلے کی تقریب تھی اور ہمارے ڈاکٹر صاحب سوات چترال کے بزرگ بنے اس میں گھوم رہے تھے اور میلے کا انتظام کرنے والے بچے بچیوں نیز دیکھنے والوں کے کاندھے تھپک رہے تھے یا ان کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔

اس ثقافتی میلے کی تفصیل کچھ کم دلچسپ نہیں جس میں مہندی کے رنگ ہی نہیں رچے بلکہ نصرت فتح علی خان کی تانوں نے سننے والوں کو ایسے مبہوت کیا کہ ڈاکٹر جلال سوئیدان جیسے ماہر اقبالیات و غالبیات کے ہاتھ پاؤں گانے والے سے ہم آہنگ دکھائی۔ خود ترک موسیقی کچھ کم گہری نہیں ہے لیکن وہ دن نصرت فتح علی خان کا تھا۔

اس میلے کی تفصیلات بڑی دلچسپ ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب کے کوٹ نے میری توجہ بھٹکائی اور میں سوات کے راستے میں ایک شخص قا کا ہم سفر بن گیا۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب سوات والی کالی سیاہ چمکتی ہوئی کارپیٹڈ ایکسپریس وے نہیں بنی تھی۔ اس زمانے میں سوات چترال کا سفر آسان نہ تھا، جوئے شیر لانے کا محاورہ سمجھانے کے لیے اساتذہ اس سفر کی مثال دیا کرتے تھے۔

سردیوں میں یہ سفر اور بھی مشکل ہو جاتا، انسان ہو یا مشین، برف زار میں دونوں جم کر رہ جاتے ہیں اور قا ایک ایسے ہی راستے کا مسافر تھا۔قا کی منزل اور میرے سوات میں ایک قدر مشترک تھی۔ ایک زمانہ تھا، موسم کی شدت اور پرانی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی وجہ سے یہ تھوڑی سی مسافت بھی جان جوکھوں کا سفر بن جاتی۔ یہ بالکل اسی زمانے کی بات ہے کچھ قدرت ستم ظریفی اور کچھ حکمرانوں کی بے تدبیری سے حوصلہ پا کر اوّل صوفی محمد اور پھر ملا ریڈیو کے نام سے شہرت پانے والے ملا فضل اللہ نے جتھے جمع کیے اور اس خوب صورت وادی کے پہاڑوں، غاروں اور برف زاروں پر قابض ہو گئے، اس کے بعد کیا ہوا، اس کی تفصیل کے بیان کے لیے بڑا دل گردہ درکار ہے۔

دو تین دہائیوں پر پھیلا ہوا یہ ماجرا طلسم ہوش ربا جیسی حیران کن داستان سے بھی زیادہ ہوش اڑا دینے والا ہے۔ طلسم ہوش ربا ایک ایسی داستان ہے جس نے اپنے محیر العقول واقعات سے سننے پڑھنے والوں کو حیران کیا لیکن ششدر کر دینے والی اس داستان میں بھی ریاست کے اندر ریاست بنا دینے والی کہانی کا کوئی تصورنہیں پایا جاتا لیکن سوات کی یہ کہانی ہی ریاست یا داستان کی زبان میں کہہ لیجیے کہ بادشاہت کے اندر بادشاہت کے قیام و فروغ کی کہانی ہے جس میں کوئی بندۂ گستاخ تھا یا نہیں، زن بچہ کولہو میں پسوا دینے والے بہت تھے۔

سزا کا تصور بادشاہتوں کے زمانے میں بھی تھا اور اب بھی برقرار ہے لیکن یہ کھڑاگ دراصل خوف کو برقرار رکھ کر امن قائم رکھنے کی ایک تدبیرہے لیکن میں جس زمانے کے سوات کی بات کر رہا ہوں، اس میں یہ تدبیر بازیچۂ اطفال بن گئی۔

کتنے ہی خاندان موت کے گھاٹ اتار دیے گئے اور ان کے کاروبار و جائیدادیں تباہ کر دی گئیں۔ ظلم کا یہ سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ فیض صاحب یاد آگئے جنھوں نے سوال اٹھایا تھا کہ خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد؟ ہمارے سوات کا دکھ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ ظلم کی اس آندھی میں کوئی مرتا ہے تو مرے، کچھ تباہ ہوتا ہے تواس کی بلا سے۔ ہم نے دہشت کے یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اس خوف کا شکار ہوئے کہ کوئی وقت جاتا ہے کہ خوف کا یہ طوفان اپنی تمام تر تباہ کاریوں سمیت ہمارے دارالحکومت کی طرف بڑھے گا، اس کے بعد جانے کیا ہو؟

کاروبار سلطنت میں ایک خرابی یہ بھی ہوتی ہے کہ حکمران تھوڑے سست ہو جائیں، خلق خدا محرومیوں کی عادی ہو جائے، انصاف کی ارزانی کے نعرے خوب لگیں لیکن اس کا حصول ممکن نہ رہے تو معاشرے میں ضرور کوئی نہ کوئی ملا ریڈیو پیدا ہو جاتا ہے اور اتنی طاقت حاصل کر لیتا ہے کہ نائب اللہ فی الارض کا کردار ادا کرنے والی ریاست کو بھی بلیک میل کرسکتا ہے اور اسے آگے لگا کر پورے نظام کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ سوات کی یہ کہانی بس اتنی ہی ہے۔

کسی خطے میں ایسے واقعات رونما کیوں ہوتے ہیں اور کیسے کچھ قوتیں ریاست کو پچھاڑ کر اس کی طاقت اور وسائل پر قابض ہو جاتی ہیں اور معاشرہ خون کے دریا میں ڈوب کر شکست و ریخت کا شکار ہو جاتا ہے؟ ایسے پیچیدہ مسائل کو سمجھنے کے دو طریقے ہیں۔

اوّل خارجی اور دوم، داخلی۔ خارجی طریقہ انتظامی طریقہ کار کی نمایندگی کرتا ہے جس میں ارباب ریاست و حکومت اپنے طور طریقوں سے اس مرض کو سمجھنے اور اس کے علاج کی کوشش کرتے ہیں، داخلی کوشش ہمیشہ انسان کی داخلی کیفیات پر نگاہ رکھنے والا ادیب کرتا ہے، خواہ یہ کوشش انفرادی المیے کی صورت میں ہو خواہ اجتماعی مسئلے کی صورت میں سامنے آئے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا ادب یا یوں کہہ لیجیے کہ ادیب اگر مصلحتوں کا شکار نہ ہو تو سوات جیسے المیوں کے نتیجے میں بہت بڑا ادب تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان گزشتہ تین دہائیوں سے جن مسائل سے گزرا ہے، ان کے نتیجے میں اگر’ آگ کا دریا ‘اور’ اداس نسلیں‘ جیسے کئی بڑے ناول تخلیق ہو جاتے تو کوئی حیرت نہ ہوتی لیکن چند کوششوں کے سوا ہمارے ہاں ابھی تک ایسا کوئی بڑا ادبی واقعہ رونما نہیں ہو سکا۔

ہماری طرح ترک معاشرہ بھی گونا گوں قسم کے مسائل کا شکار رہا ہے۔ مجھے احساس ہے کہ ان میں کچھ مسائل ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں ترک رائے عامہ بہت حساس ہے۔ اورحان پاموک کو جن موضوعات پر قلم اٹھانے کی وجہ سے نوبیل پرائز ملا ہے۔

اس پر بھی بڑی حساسیت پائی جاتی ہے اور محب وطن ترک ادیب و دانش ور اس پربڑے بھرپور سوالات اٹھاتے ہیں لیکن اس کے باوجود میرا احساس یہ ہے کہ انورحان کا ناول جہاں برف رہتی ہے (انگریزی میں جو Snow کے نام سے معروف ہے)،ایک بڑا ناول ہے جو ہمارے سوات جیسے المیوں کا ایسا داخلی تجزیہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں بہت سے سیاسی، مذہبی اور دیگر معاشرتی مسائل کو غیر روایتی انداز میں سمجھ کر ان کے حل کی تدبیر کی جا سکتی ہے۔

صرف یہی نہیں ہے کہ اس ناول کا ماحول اور واقعات سوات اور ہمارے سابق قبائلی علاقوں کے موسم اور حالات سے مناسبت رکھتے ہیں بلکہ اس کے کرداروں میں بھی گہری مشابہت پائی جاتی ہے، ہمارے ہاں ملا ریڈیو جیسے کردار ظہور میں آئے،اسی طرح اس ناول میں بھی زمرد جیسے سفاک اور کمزور عقیدہ رکھنے والے جنونی سامنے آتے ہیں۔

ریاست کی کمزوری کی صورت میں ہمارے ہاں اگر مختلف قوتوں نے سر اٹھا کر طاقت کے زور پر اپنا وجود منوانے کی کوشش کی تو اس ناول میں بھی سونے زائم جیسے اداکار دکھائی دیتے ہیں جو یونیفارم پہن کر کمال اتا ترک بننا چاہتے ہیں۔ ترک معاشرے اور اس کے مخصوص حالات کے تال میل سے وجود میں آنے والا یہ ناول یقینا اپنے مخصوص حالات کی عکاسی بھی کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اورحان پاموک اس ناول میں ہماری تین خون آلود دہائیوں کا  دکھ اس خوبی سے بیان کرتا ہے کہ ناول کاقارص نامی شہر دراصل سوات محسوس ہوتا ہے۔

مجھے بہت خوشی ہے کہ جمہوری پبلیکیشنزکے ہمارے دوست فرخ سہیل گویندی نے اردو میں اشاعت کے لیے اس معنی خیز ناول کا انتخاب کیا اور ہماانور نے اس کارواں دواں اوربامحاورہ ترجمہ کر کے اس کو بالکل مقامی بنا دیا ۔ ممکن ہے کہ ہمارا کوئی ادیب اس ناول سے مہمیز پا کر کوئی بڑا شہ پارہ تخلیق کر ڈالے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔