پت جھڑ کا موسم

ڈاکٹر منصور نورانی  پير 15 نومبر 2021
mnoorani08@hotmail.com

[email protected]

ہر دور کی طرح اس وقت بھی سیاسی پت جھڑ موسم شروع ہو چکا ہے ، جیسے جیسے انتخابات قریب آتے جائیں گے یہ پت جھڑکا موسم شدت اختیارکرتا جائے گا۔ پی ٹی آئی کی حکومت اس لحاظ سے بہت خوش قسمت تھی کہ دوسری حکومتوں کی نسبت اُسے بہت ہی سازگار حالات ملے۔

اُسے پچھلی حکومتوں کی طرح نادیدہ قوتوں کی طرف سے کوئی پریشر یا دباؤ نہیں ملا بلکہ اُسے اپنی تمام تر ناکامیوں اور نا اہلیوں کے باوجود زبردست سپورٹ اور آشیر واد حاصل رہی۔ یہی وجہ ہے کہ خود حکومت کے رفقاء سر عام یہ کہتے رہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں ایک پیج پر ہیں لیکن یہ مثبت سلسلہ بالآخر کب تک جاری رہ سکتا تھا ۔ میڈیا والوں کی اپنی کریڈیبلٹی کا بھی سوال تھا، جو چینل تین سال تک حکومت کو مکمل سپورٹ کرتے رہے اُس کے ہر اچھے اور غلط کام کا دفاع کرتے رہے وہ بھی اب دھیمے سروں میں حکومت پر تنقید کرنے لگے۔

بات جب حد سے گذر جائے اور عوام کا جینا بھی دوبھر ہو جائے تو پھر بھلا کون حکومت کے ساتھ کھڑا رہ سکتا ہے۔ عوام کی بدلتی رائے کو وقت پر بھانپنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے اتحادی بھی اب اُسے آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔ قاف لیگ ، ایم کیو ایم اور پی ڈی ایف کب تک آنکھیں بند کرکے حکومت کا ساتھ دے سکتی تھیں۔ انھیں بھی اپنے ووٹروں کو جواب دینا ہوتا ہے۔

ویسے بھی جب الیکشن کے دن قریب آتے جاتے ہیں، ہر حکومت کا پت جھڑ موسم شروع ہو جاتا ہے اور جس حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت بھی نہ ہو اور وہ دوسروں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہو اُس کے لیے تو اور بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ پورے پانچ سال تک خود کو اس پت جھڑ کے موسم سے بچا کر رکھے۔

یہ تو اُس امپائر کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے جس کا ذکر خان صاحب اپنے دھرنے میں کیا کرتے تھے کہ حکومت نے اتنے دن بھی نکال لیے ، ورنہ کارکردگی کے لحاظ سے تو وہ ایک سال کے لیے بھی برداشت نہیں کی جاسکتی تھی۔

خان صاحب کی ایک خوبی ضرور ہے جو انھیں باقی سیاستدانوں سے ممتاز کرتی ہے وہ اُن کا اسمارٹنس اور انداز تخاطب ہے ، وہ بے شک بہت عمدہ تقریر کرتے ہیں ۔وہ جب بولتے ہیں توکچھ دنوں کے لیے اثر چھوڑ جاتے ہیں ، جب بولتے ہیں تو اتنے اعتماد اور کانفیڈنس سے بولتے ہیں کہ اُن کی ہر بات درست اور صحیح معلوم ہونے لگتی ہے۔ وہ ہمارے بہت سے لوگوں کو اب بھی بہت پسند ہیں، مگر خوبصورتی اور اسمارٹنس کو کب تک کیش کیاجاسکتا ہے ۔ یہ دونوں خوبیاں لو گوں کا پیٹ تو نہیں بھر سکتی۔

عوام کب تک انھیں بلاوجہ کی داد دے سکتے ہیں۔ تین سال تک قوم نے بہت صبرکیا۔ اچھے دنوں کی آس میں وہ برے اور بدتر حالات سے دوچار ہوچکے ہیں۔ اب تو یہ دن آچکے ہیں کہ جینے کے لیے صرف چوری اور لوٹ مار ہی کی جاسکتی ہے ورنہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ماہانہ کمانے والا ہو یا دیہاڑی پر کام کرنے والا کسی کا بھی موجودہ آمدنی میں گذارا ممکن نہیں ہے ، وہ اگر لوٹ مار شروع نہ کرے تو فاقوں سے مرجائے گا۔  سمجھ نہیں آرہا کہ حکومت کن گناہوں کی سزا دے رہی ہے انھیں۔ وہ بے چارے تو خان صاحب کو مسیحا اور نجات دہندہ سمجھ کر لائے تھے ، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔

چوروں اور لٹیروں کا تو وہ کچھ بگاڑ نہیں سکے اپنے عوام کے منہ سے نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ یہ مہنگائی اگر کچھ دنوں کے لیے ہوتی تو شاید لوگ صبر بھی کرلیتے لیکن یہاں تو ہر نیا دن اشیائے ضرورت کی گرانی کا پیغام لیے طلوع ہوتا ہے۔ خوردنی تیل جو تین سال پہلے تک 155 روپے لیٹر مل رہا تھا آج 400 روپے تک پہنچ چکا ہے اورجس طرح ڈالر بے قابو ہوکر اونچی اُڑان اڑ رہا ہے کوئی بعید نہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ 500 روپے لیٹر مل رہا ہوگا۔

مذکورہ بالا حالات کی موجودگی میں حکومت کے اتحادی اب یہ سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ اب مزید ساتھ چلا نہیں جاسکتا ہے۔ ایسے حالات میں خاموش رہنا بھی ایک جرم ہے۔ حکمران اپنے اتحادیوں کو ساتھ نبھانے کی ترغیب دیتے ہوئے انھیں جہاد جیسے عظیم جذبہ کا احساس دلا رہے تھے۔

اُن کے مطابق حکومت کے کاموں پر مہر تصدیق ثبت کرنا ایک جہاد کی مانند ہے۔10 نومبر کو ایک ظہرانے میں خان صاحب نے اپنے اتحادیوں سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ جہاد کر گزرنے کی استدعا مرحمت فرمائی تھی لیکن کھانا کھاتے ہی سارے اتحادی منحرف ہوگئے اورحکومت کو مجبوراً وہ طے شدہ مشترکہ اجلاس ملتوی بلکہ مؤخر ہی کرنا پڑا۔ نہ اب اجلاس ہوگا اور نہ وہ جہاد عظیم۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جہاد پر جانے سے انکار کرنے والوں پر عذاب یا غیظ وغضب نازل ہوتا لیکن یہاں تو ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ حکومت خود کسی نادیدہ مشکل میں پھنس گئی ہے۔

وہ اتحادیوں کی منت و سماجت کررہی ہے اور وہ اتحادی اپنی قیمت بڑھا رہے ہیں۔ حکومت اب چاہے انھیں کتنی ہی مراعات دیدے لیکن وہ پھر بھی اس جہاد پر جانے کے لیے رضامند نہیں ہونگے۔ انھیں خدشہ ہے کہ یہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین الیکشن میں دھاندلی کے ایسے ایسے کارنامے اور کرشمے دکھائے گی کہ پھر کوئی اُسے چیلنج ہی نہیں کر پائے گا۔ اس مشینی نظام کا کنٹرول ٹاور اور سرور جو چاہے کر پائے گا اُسے کوئی روکنے والا نہیں ہوگا۔ ہیرا پھیری صرف ایک بٹن دبا کے بڑی آسانی سے کی جاسکے گی۔

اتحادیوں کی طرف سے حکومت کو آنکھیں دکھانے کی اور بھی وجوہات ہیں۔ جس طرح قاف لیگ کو اب خیال آیا ہے کہ صوبہ پنجاب میں حکومت کسی بھی فیصلے میں اُس سے مشورہ نہیں کرتی اس طرح کے بہت سے ایشوز اب آئے دن سامنے آنا شروع ہونگے۔ یہ سارے اتحادی پہلے بھی کسی غیبی قوت کے اشاروں پر حکومت کا ساتھ دے رہے تھے اور اب آنکھیں دکھا رہے ہیں۔

یہ بات خان صاحب بھی اچھی طرح جانتے ہیں ۔ ایک پیج پر ہونے والی بات میں اب شاید دم خم نہیں رہا۔ حکومت چاہے کتنے ہی دعوے کرتی رہے کہ سارے ادارے ایک پیج پر ہیں لیکن زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ حکمرانوں کے لیے خزاں کا موسم اب شروع ہوچکا ہے اور اس کے اتحادی ہی نہیں بلکہ پارٹی کے اندر سے بھی بہت سے قابل اعتبار لوگ اس پت جھڑ کے موسم کا شکار ہوسکتے ہیں۔ حکومت نے اگر کوئی کارکردگی دکھائی ہوتی اور عوام کو ریلیف فراہم کیا ہوتا تو اُسے شاید آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔