پاکستان میں بائیوگیس منصوبے کو پزیرائی نہ مل سکی، 80 فیصدپلانٹ بند

آصف محمود  پير 15 نومبر 2021
توانائی کے اس متبادل ذریعے کو کامیاب بنانے کے لئے آگاہی اورتشہیرکی ضرورت ہے فوٹو: فائل

توانائی کے اس متبادل ذریعے کو کامیاب بنانے کے لئے آگاہی اورتشہیرکی ضرورت ہے فوٹو: فائل

 لاہور: بائیو گیس نامیاتی مرکبات سے آکسیجن کی غیر موجودگی میں پیدا ہونے والی گیس ہے جو استعمال میں معدنی گیس کی خصوصیات رکھتی ہے۔ بائیو گیس نیا آئیڈیا نہیں اور کئی دہائیوں سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں زیرِ استعمال ہے۔ وقت کے ساتھ باقی دنیا میں بائیو گیس کی پیداوار کو فوقیت ملی ہے اور اس کے طریقوں میں بھی جدت آئی ہے لیکن پاکستان میں محض اس کے راویتی طریقۂ پیداوار پر ہی توجہ دی گئی ہے، حکام کے مطابق پاکستان میں بائیوگیس کے لگائے گئے 80 فیصدپلانٹ بندہوچکے ہیں۔

لاہور کے سرحدی علاقے نواں پنڈ کے زمیندار رانا محمد داؤد نے چند برس قبل اپنے ڈیرے کے ساتھ 25 کیوبک میٹر کا بائیو گیس پلانٹ لگایا تھا جس سے حاصل ہونے والی گیس سے ان کے 3،4 گھروں کا گزارہ ہورہا تھا تاہم چند ماہ بعد ہی انہیں یہ پلانٹ بند کرناپڑا تھا۔ ان کے پاس 30 کے قریب مویشی ہیں جن کا اچھا خاصا گوبر جمع ہوتا ہے لیکن گھرمیں کوئی بندہ مستقل طور پر یہ ذمہ داری لینے کوتیارنہیں تھا کہ روزانہ گوبر پلانٹ میں ڈال سکے۔ اس مشقت کی بجائے ہم لوگ بازارسے گیس سلنڈر خرید لاتے تھے اور اب بھی وہی استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان کونسل آف ری نیو ایبل انرجی ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر اور لاہور ریجن کے انچارج ڈاکٹر طاہر محمود نے بتایا کہ ان کے محکمے نے ملک بھر میں 4100 بائیو گیس پلانٹ تقسیم کئے ہیں، ابتدا میں 100 فیصد سبسڈی کے ساتھ یہ پلانٹ تقیسم کئے گئے جبکہ بعدازاں 50 فیصد سبسڈی دی گئی تھی۔ 5 کیوبک میٹر سے لے کر 200 کیوبک میٹر تک کے پلانٹ تیار کئے گئے تھے تاہم سب سے زیادہ 5 کیوبک میٹر کے پلانٹ تھے جو 5 سے 6 افراد پر مشتمل ایک فیملی کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر طاہر محمود کہتے ہیں کہ 5 کیوبک میٹر بائیو گیس پلانٹ سے 24 گھنٹے کے دوران کم از کم 3 کلوگرام گیس پیدا ہوتی ہے۔ اس پلانٹ کو روزانہ چار سے پانچ بھینسوں /گائیں کا گوبر درکار ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے متبادل انرجی کایہ منصوبہ پاکستان میں فروغ نہیں پاسکا ہے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں تاہم سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کوئی اس پلانٹ کو روزانہ گوبر ڈالنے اوردیکھ بھال کی ذمہ داری نہیں لیتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں لگائے گئے 80 فیصد بائیو گیس پلانٹ بند ہوچکے ہیں۔

پنجاب لائیو اسٹاک نے کچھ عرصہ قبل لاہور کی گوالہ کالونی میں بائیو گیس پلانٹ لگانے سے متعلق تجاویز طلب کی تھیں تاہم اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی تھی جبکہ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے بھی لاہور میں اپنی سب سے بڑی ڈمپنگ سائیٹ پر بائیو گیس پلانٹ کے لئے کنسٹرکشن کی تھی جس سے ایک قریبی گاؤں کو گیس فراہم کی جانی تھی لیکن کنسٹرشن میں غلطی کی وجہ سے یہ کام رک گیا اوربعدازاں کمپنی نے یہ منصوبہ ہی ترک کردیا تھا۔

بائیو گیس پلانٹ کو بہت زیادہ پزیرائی نہ ملنے کے باوجود کئی نجی کمپنیاں بائیو گیس پلانٹ تیارکررہی ہیں ۔ ماہرین کے مطابق تین حصوں پر مشتمل یہ پلانٹ پاکستان میں زیرِاستعمال پانی گرم کرنے والے گیزر کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ دو تہی ڈرم کے وسطی حصے میں ایک ہی دفعہ تھوڑی سے مقدار میں گوبر ڈال کر بیکٹریا کی نشوونما شروع کر دی جاتی ہے جس کے بعد اس پلانٹ میں گھر کا کچرا اور کسی بھی قسم کا نامیاتی فضلہ ڈالنا پڑتا ہے تاکہ گیس کی ترسیل جاری رہے۔ ڈرم کے بیرونی حصے میں گیس ذخیرہ ہوتی ہے جسے گھر میں گیس کی ترسیل کے عمومی نظام سے جوڑ دیا گیا ہے۔ منی بائیو گیس پلانٹ کا تیسرا حصہ ایک سولر پینل ہے جو شمسی توانائی کے ذریعے پلانٹ کو مطلوبہ درجۂ حرارت فراہم کرتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے اس پلانٹ کو تیار کرنے میں پچیس سے تیس ہزار روپے اخراجات آتے ہیں۔ دو کلو گرام کچرے سے دو میٹر کیوبک گیس پیدا ہوتی ہے جس سے پانچ لوگوں کا کھانا با آسانی تیار کیا جا سکتا ہے۔ پانچ کیوبک میٹر گیس کی صلاحیت والے منی بائیو گیس پلانٹ کے ساتھ جنریٹر کی مدد سے چار کلو واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔

پاکستان کونسل فار ری نیو ایبل انرجی ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طاہر محمود کہتے ہیں توانائی کے اس متبادل ذریعے کو کامیاب بنانے کے لئے آگاہی اورتشہیرکی ضرورت ہے۔ بائیو گیس پلانٹ کئی حوالوں سے فائدہ مند ہے۔ ایک تو یہ کہ اس سے ہم گیس حاصل کرسکتے ہیں، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ہمارا گوبر جو ہم ضائع کردیتے ہیں وہ ہمارے کام آتا ہے، تیسرا فائدہ یہ کہ بائیو گیس پلانٹ میں استعمال ہونے والا گوبر سے جو مواد نکلتا ہے وہ ایک بھرپور قدرتی کھاد ہے جسے کھیتوں میں استعمال کرکے فصلوں کی پیداوار بڑھائی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ گوبر کواگراستعمال نہ کیاجائے اس سے مضر گیسیں خارج ہوتی ہیں جوماحول کے لئے نقصان دہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔