صنعتی پھیلاؤ بے روزگاری کا واحد حل

ایڈیٹوریل  منگل 16 نومبر 2021
حکومت ہر بے روزگار کو صنعتی ادارے، فیکٹری اور کارخانے میں روزگار دلانے کی ملک گیر حکمت عملی وضع کرے۔ فوٹو: فائل

حکومت ہر بے روزگار کو صنعتی ادارے، فیکٹری اور کارخانے میں روزگار دلانے کی ملک گیر حکمت عملی وضع کرے۔ فوٹو: فائل

وزیر اعظم کے مشیر خزانہ شوکت ترین نے شکایت کی ہے کہ ڈالر میں سٹے بازی ہورہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت 166 سے170 روپے ہونی چاہیے، اسٹیٹ بینک سے کہا ہے کہ اسے چیک کرے۔

مشیر خزانہ کے مطابق ڈالرکی قیمت اگر بڑھتی ہے تو کم بھی ہونی چاہیے، یہ نوید بھی سنائی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں جلد خوشخبری ملے گی، معاہدہ چند روز میں ہوجائے گا۔ آئی ایم ایف پروگرام سے بے یقینی ختم ہوگی، سٹے بازوں کے خلاف گھیرا تنگ اور انھیں سخت چَپت پڑے گی۔

ادھر ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے حوالے سے میڈیا نے بہت سی پیشگوئیوں کی پتنگیں اڑائیں، بات چیت کی، اتنے زاویے پیش کیے کہ عوام کو یقین ہوگیا کہ آئی ایم ایف نے ملکی معیشت کے سارے دکھ درد دور کرنے کا تہیہ کرلیا ہے۔

مالیاتی ادارے نے پاکستان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے اور معیشت بہت جلد ٹریک پر آجائے گی، مگر یہ بھی بے یقینی سی بے یقینی تھی کہ مشیر خزانہ کو واشنگٹن سے مذاکرات چھوڑکر وطن واپس آنا پڑا، اور اب پھر آئی ایم ایف سے بہتری کی یقین دہانی کی حوصلہ افزا باتیں ہیں، بہر حال آئی ایم ایف سے پاکستان کے تعلقات کا قصہ ملکی معیشت کی بڑی دلچسپ کہانی ہے۔

پاکستان کے ماہرین معاشیات اور خیر خواہوں کا یہی مشورہ تھا کہ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بننا ہے تو اسے ’’ خود کفالت‘‘ معاشی بریک تھرو کے لیے کاسہ گدائی سے جان چھڑانی پڑے گی اور ملکی وسائل اور قوت بازو پر انحصار کرتے ہوئے اپنی اقتصادیات کو تقویت دینے کا سوچنا چاہیے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو مشاورت کے جو بھی قومی نسخے ملے ، وہ نادان دوستوں نے زیادہ دیے۔

پاکستان نے سابق اقتصادی مشیروں اور ملک کے مشہور وزرائے خزانہ سے رابطے کیے، ان کی ماہرانہ خدمات حاصل کیں لیکن ملکی معیشت کو چونکہ خرابیاں بقول شخصے ورثے میں ملی تھیں، ملک کرپشن کے ناسور سے نمٹنے میں ناکام رہا، میرٹ اور شفافیت سسٹم میں داخل نہیں ہوئی، ہر کام ایڈہاک ازم کے ذریعے چلایا گیا۔ اس لیے ’’ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق کوئی نسخہ شفایابی میں کامیاب نہ ہوسکا۔

اتوارکو نیا ناظم آباد ، کراچی میں ایک اسپتال کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مشیر خزانہ نے کہا سعودی عرب سے 3ارب ڈالر اور مؤخر ادائیگیوں پر 1.2ارب ڈالر مالیت کے تیل کی سہولت چند روز میں مل جائے گی، انھوں نے  مزید کہا کہ پٹرول قیمت میں ہونے والا عالمی اضافہ صارفین کو منتقل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، عالمی منڈی میں اگر تیل مہنگا ہوا تو پاکستان میں بھی مہنگا ہوگا۔ ذخیرہ اندوزی بہت بڑا مسئلہ ہے، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف آپریشن شروع کر رہے ہیں۔

مشیر خزانہ نے ذخیرہ اندوزی اور دیگر اقتصادی مسائل کے جو حقائق سنائے ہیں وہ ہر وزیر و مشیر خزانہ کی پرانی غزل کی طرح ہیں، کوئی نئی بات نہیں، عوام چار عشروں سے مہنگائی، ذخیرہ اندوزوں، اسمگلروں، مڈل مینوں اورگراں فروشوں کی وارداتوں سے نمٹنے کی کچھ ایسی ہی کارروائیوں کا سنتے ہیں اورکچھ روز تک خوش ہوتے ہیں، مگر عوام کو ایک ہمہ گیر مکمل اقتصادی نظام چاہیے، جو ان کے معاشی و سماجی مسائل کا جامع اور منصفانہ حل پیش کرسکے، انھیں ایک ایسے وزیر یا مشیر خزانہ کی ضرورت ہے جو ملک کو جامع صنعتی پالیسی دے سکے۔

جو عہد کرے کہ پاکستان کی زرعی پالیسی اس ملک کے معاشی مسائل کا واحد حل ہے، جو زرعی پالیسی کا نفاذ کر کے امیری و غریبی کے فرق کو کم کرنے کے لیے اقتصادی پیش رفت میں گہری دلچسپی لے اور ملک کو فرسودہ اور استحصالی نظام سے نجات دلائے، جو جدید دور کے اقتصادی تقاضوں کا ادراک رکھتا ہو اور اسے عوام کی پالیسیوں پر عمل کرنے میں فری ہینڈ ملے۔ پاکستان کے معاشی معاملات بد قسمتی سے فری ہینڈ والے اکنامک مسیحاؤں کو نہیں مل سکے، سب نے اس بات کی شکایت کی کہ انھیں آزادانہ طریقے سے ملک کو اقتصادی ترقی کی منزل تک پہنچنے میں بڑی مشکلات پیش آئیں۔

مشیر خزانہ کا کہنا ہے کہ حکومت نے غربت کی سطح سے نیچے رہنے والے 40لاکھ افراد کے لیے 1400ارب روپے کا ریلیف پیکیج تیار کیا ہے جس کے تحت چار سال کے لیے بڑے بینک، ہول سیل چھوٹے مائیکرو فنانس بینک اور این جی اوز ریٹیل کی سطح پر قرضہ دیں گے جب کہ کامیاب نوجوان پروگرام کے قرضے چند روز میں ملنا شروع ہو جائیں گے۔ آٹا، دالیں، چینی، تیل پر احساس روشن پروگرام سے 13 کروڑوں لوگوں کو ریلیف ملے گا۔ مالیاتی خسارہ اور آئی ایم ایف پروگرام کے باوجود عوام کو ریلیف دے رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ معیشت کو پائیدار بنیادوں پر ترقی دینے کے لیے ٹیکس کا جی ڈی پی سے تناسب 6سال میں 20فیصد پر لانا ہوگا، برآمدات اور درآمدات کے فرق کو کم کرتے ہوئے قومی بچتوں کو بڑھانا ہوگا۔ پائیدار بنیادوں پر معاشی استحکام20 سے30 سال میں تسلسل کے ساتھ معاشی نمو سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے معیشت یکجا ہوئی اور معاشی ترقی کی شرح نمو 5 فیصد سے کم ہوکر ڈیڑھ فیصد پر آگئی۔

اسی دوران کورونا کی وبا پھیل گئی، عمران خان نے کورونا کا بہت خوب مقابلہ کیا، تعمیرات، زراعت اور برآمدی صنعتوں پر توجہ دی۔ اس حکمت عملی کی وجہ سے 2020-21 کی شرح نمو 4 فیصد پر آگئی، مگر وہ اس مسئلہ کا ذکرکیے بغیر نہیں رہ سکے کہ سالانہ 15 سے 20 لاکھ نوکریاں درکار ہیں جس کے لیے شرح نمو 5 اور 6 فیصد پر لانا ہوگی۔ حکومت ایسی معاشی ترقی چاہتی ہے جس سے ہر طبقہ کو فائدہ پہنچے۔ اس وقت لگ رہا ہے کہ معیشت 5 فیصد سے زائد نمو کریگی، آیندہ سال 6 فیصد معاشی ترقی کریں گے، معاشی نمو کی وجہ سے طلب بڑھ رہی ہے۔

انھوں نے کہا ٹیکس بیس بڑھانا ہے، ٹیکنالوجی اور ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے ذریعے آیندہ پانچ چھ سال میں ٹیکسوں کی شرح جی ڈی پی کے20 فیصد پر لانے کا ہدف رکھا ہے۔ اس سال محصولات جی ڈی پی کے 11 فیصد آیندہ سال 14 فیصد پر لائیں گے۔

بہر حال انھیں یہ بتانا پڑیگا کہ زراعت کو کن حکمرانوں نے نظر انداز کیا، کیونکہ اسی طرز عمل اور حکمت عمل کی وجہ سے ملک کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑا، ایک زرعی ملک اگر غذائی قلت کا شکار ہوتا ہے تو یہ کوئی کم مجرمانہ پالیسی فیلیور نہیں ہے، جو ملک گندم، چینی، دالیں درآمد کرنے لگے تو دنیا لازم ہے ہماری زرعی پالیسیوں کو زیر بحث لائیگی، جیسے اس سال کپاس کی پیداوار بھرپور رہی، اسی طرح زراعت کے شعبہ میں کافی خوشحالی آرہی ہے، گزشتہ سال زراعت میں 1100 ارب روپیہ گیا، آئی ٹی کی ایکسپورٹ 47 فیصد بڑھی، آیندہ سال یہ شرح 75 فیصد کریں گے۔ آئی ٹی کو آیندہ چھ سال میں 50 ارب ڈالر تک لے جا سکتے ہیں۔ یہ وہ شعبہ ہے جو ہماری درآمدات اور برآمدات کے حجم میں فرق کو پورا کرسکتا ہے۔

انھوں نے کہا پاور سیکٹر کو ٹھیک کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ اگرچہ تقریباً تمام پاور سیکٹر ماہرین کا کہنا یہی ہے کہ ملک میں سب سے زیادہ مسائل پاور سیکٹر کے پیدا کردہ ہیں، ایک غریب شہری کا کہنا ہے کہ عام آدمی کو بجلی، گیس اور اجناس سستی ملیں تو اسے کوئی ہاتھی گھوڑے نہیں چاہئیں، اس کی تمنا بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی اور تعلیم کی سہولت ہے، وزیر خزانہ کو اس ہدف تک جانا ہوگا۔

یہی فرق ہے ایک ایٹمی ملک اور اس کے غربت زدہ ریاست کے بائیس کروڑ عوام میں۔ مشیر خزانہ نے کہا کہ گردشی قرضوں میں پھنسی کمپنیاں شیئر ہولڈرز کو منافع دیں اور وہ پیسہ سرکلر ڈیٹ میں ادا کریں جس سے کمپنیوں کے حصص کی قدر بڑھے گی۔ اسٹاک ایکسچینج کی بڑی کمپنیاں منافع دیں تو ویلیوایشن بڑھے گی اور سرمایہ کاروں کو ترغیب ملے گی۔

برآمدی شعبے میں ابھی مزید پیداواری صلاحیت بڑھانی پڑے گی، ملک کی بے روزگار افرادی طاقت کو ہنر مند بنانے کے لیے صنعتی پھیلاؤ میں اضافہ کرنا ہوگا، ملک میں اکنامک زونز کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے، انڈسٹریل سائٹس کے سروے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، کراچی کے سائٹ کے علاقے میں صنعتی زونز میں چھانٹی، اور بے روزگاری کے امکانات ختم ہونے چاہئیں، بڑے صنعتی یونٹوں میں ٹھیکیداری سسٹم کے تحت جز وقتی محنت کشوں کو روزگار مہیا کرنے کے طریقے ڈھونڈے گئے ہیں۔

حکومت ان صنعتی یونٹوں کو فعال بنائے اور روزگار کے وسیع پھیلاؤ کو یقینی بنانے کے لیے مزدوروں کی کھپت کی پالیسی بنائے۔ حکومت ہر بے روزگار کو صنعتی ادارے، فیکٹری اور کارخانے میں روزگار دلانے کی ملک گیر حکمت عملی وضع کرے، اقتصادیات کو تجربات، جدت اور ندرت کی ضرورت ہے، یہ دنیا آئیڈیاز کی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔