ق لیگ اور چوہدری برادران

مزمل سہروردی  منگل 16 نومبر 2021
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان مسلم لیگ (ق) دن بدن حکومت پردباؤ بڑھا رہی ہے۔ اجلاس پر اجلاس کر رہی ہے، جس میں حکومت کے ساتھ اتحاد کے حوالے سے تحفظات اور گلے شکوے بیان کیے جا رہے ہیں۔ ان اجلاسوں کے اعلامیہ بھی جاری کیے جا رہے ہیں۔ آخری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اب حکومت کے ساتھ چلنا مشکل ہو تا جا رہا ہے۔

میں نے اس فقرہ پر کافی غور کیاہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ مشکل ہوتاجا رہا ہے یہ نہیں کہا گیا کہ مشکل ہو گیا ہے۔ دونوں باتوں میں بہت فرق ہے۔ اس لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے میں ابھی گنجائش کا عنصر موجود ہے، تا ہم اگر کہا جاتا کہ مشکل ہوگیا ہے تو گنجائش کا عنصر ختم نظر آتا۔اس لیے تمام تر اجلاسوں اور اعلامیہ کے بعد بھی ابھی مجھے حکومت اور ق لیگ کے اکٹھے چلنے کی راہ نظر آتی ہے۔

لیکن یہ راہ حکومت کو نکالنی ہوگی، اگر اس بار بھی وزیر اعظم عمران خان نے سیاسی نخرہ دکھایا تو بات بگڑ سکتی ہے۔ اس بار جھکنے کی باری عمران خان کی ہے۔ لیکن اگر انھوں نے اس بار بھی معاملات کو نچلے درجے سے ہینڈل کرنے کی کوشش کی تو معاملات خراب ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کے ماضی کے رویوں نے پہلے ہی ق لیگ میں بہت تلخیاں پیدا کی ہوئی ہیں۔ اس لیے اگر اس بار بھی رویہ تبدیل نہ کیا گیا تو مسائل حل ہونے کے بجائے مزید خراب ہو جائیں گے۔

عمران خان نے شروع سے ہی ق لیگ اور بالخصوص چوہدری پرویز الٰہی سے اپنے تعلقات کو مس ہینڈل کیا ہے۔ عمران خان نے جان بوجھ کر ایک فاصلہ رکھا ہے۔ جس کا وہ آج نقصان اٹھا رہے ہیں۔ حالانکہ اس فاصلے کی نہ تو کوئی اخلاقی اور نہ ہی کوئی سیاسی وجہ موجود تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی نے عمران خان کے لیے گھر آئی وزارت اعلیٰ کو ٹھکرایا۔ اور عمران خان کی اسپیکر شپ قبول کر لی۔ لیکن عمران خان نے چوہدری پرویز الٰہی کی اس قربانی کی کوئی خاص قدر نہیں کی۔ بلکہ بار بار چوہدری پرویز الٰہی اور ق لیگ کو یہ خاص احساس دلانے کی کوشش کی گئی کہ ان کے ساتھ اتحاد مجبوری میں کیا گیا ورنہ وہ اس اتحاد کو پسند نہیں کرتے۔

عمران خان جب بھی لاہور آتے جان بوجھ کر پرویز الٰہی سے ملنے سے اجتناب کرتے۔ حتیٰ کی ایسے بھی مواقعے آئے جب پرویز الٰہی گورنر تھے اور وزیر اعظم عمران خان لاہور آئے۔ بلیو بک کے تحت گورنر وفاق کا نمایندہ ہوتا ہے۔ اس لیے وزیر اعظم اور صدر مملکت کا ایئر پورٹ پر استقبال کرنا اس کا فرض ہے۔ لیکن چوہدری پرویز الٰہی کو کہلوا دیا جاتا تھا کہ وہ ایئر پورٹ پر نہ آئیں حالانکہ بطور گورنر یہ ان کا فرض تھا۔ بتایا جاتا کہ عمران خان چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ استقبالی فوٹو نہیں بنوانا چاہتے تھے اس لیے انھیں ایئر پورٹ آنے سے روکا جاتا۔یہ کوئی اچھی سیاسی حکمت عملی نہیں تھی۔

اسی طرح چوہدری مونس الٰہی کی وزارت کے معاملہ کو بھی خوامخواہ متنازعہ بنایا گیا۔ چوہدری خاندان میں اس معاملہ پر تنازعہ پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی گئی۔ وہ تو چوہدری شجاعت حسین نے معاملہ کی سنگینی اور سازش کو بھانپتے ہوئے چوہدری خاندان اور ق لیگ کا سارا وزن چوہدری مونس الٰہی کے پلڑے میں ڈال دیا۔ اور واضح کر دیا کہ ق لیگ اور چوہدری خاندان کی طرف سے وزارت کے واحد امیدوار صرف اور صرف چوہدری مونس الٰہی ہی ہیں۔ اس کے بعد بھی اس تنازعہ کو ایک سال تک طول دیا گیا اور بعد میں چوہدری خاندان کی ثابت قدمی پر عمران خان کو ہی سرنڈر کرنا پڑا۔

چوہدریوں کو دوستی قائم رکھتے ہوئے گلہ کرنا اور بات کرنے کا فن بھی بخوبی آتا ہے۔ وہ آج بھی یہی کر رہے ہیں۔ یہی ان کی سیاست کا حسن بھی ہے۔ ق لیگ کے گلے جائز ہوں تو بھی ان کی ٹائمنگ پر سوالیہ نشان ضرور ہے۔ لیکن یہی تو چوہدریوں کی سیاست کی خاص بات ہے کہ انھیں سیاسی بات کب اور کیسے کرنی ہے کا خوب کمال حاصل ہے۔ انھیں سیاست کے بدلتے موسم کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ وہ سیاسی موسم کا حال سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ انھیں اندازہ ہوتا ہے کہ کب آندھی آئے گی اور کب صرف بوندا باندی ہوگی۔

لیکن افسوس کی بات ہے کہ عمران خان اور ان کی ٹیم نے چوہدری برادران کے اس سیاسی تدبر کا کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھایا۔ بلکہ مولانا فضل الرحمٰن کے پہلے دھرنے کے موقعے پر جب چوہدری برادران نے سیاسی کردار ادا کیا تھا۔ اس کو بھی عمران خان اور ان کی ٹیم نے کوئی خاص پسند نہیں کیا۔ حالانکہ عمران خان کو اس کا بہت فائدہ ہوا تھا۔ لیکن ایسا تاثر دیا گیا جیسے انھوں نے عمران خان کے خلاف کام کیا ہے۔

عمران خان اگر چاہیں تو آج بھی ملک کی اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کے لیے دروازے کھولنے کے لیے چوہدری پرویز الٰہی کو استعمال کر سکتے ہیں۔ وہ اپنی سیاسی تنہائی ختم کرنے لیے چوہدری پرویز الٰہی کی مدد لے سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں چوہدری پرویز الٰہی کے اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ تعلقات کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ جب جب وہ اپوزیشن سے ملے ہیں تب تب ان پر شک کے تیر برسائے گئے ہیں۔

چوہدری برادران کی سیاست کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ شدید گلے شکوؤں کے بعد بھی وہ فوری اتحاد ختم نہیں کرتے ہیں۔ وہ آخری حد تک جاتے ہیں۔  ن لیگ کے ساتھ بھی انھوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا تھا۔ حتیٰ کہ طاہر القادری کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا تھا۔ اس لیے ابھی عمران خان کے پاس وقت ہے انھیں خود آگے بڑھ کر چوہدری پرویز الٰہی سے بات کرنی چاہیے۔ سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنا ہوگا۔ ماضی میں جیسے کیا جاتا رہاہے۔ اب ویسے ممکن نہیں۔ اس بات کا عمران خان کو بھی ادراک کرنا ہوگا اور چوہدریوں کو تو پہلے ہی اس کی سمجھ اور تجربہ ہے۔ ان سے بہتر کون جانتا ہے۔

ملک کے سیاسی منظر نامہ میں ق لیگ کی اس وقت ایک خصوصی اہمیت ہے، وہ ایم کیو ایم سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ ان کے پاس مرکز اور پنجاب دونوں کی کنجیاں ہیں۔ انھوں نے اپوزیشن سے ملاقاتیں شروع کی ہیں، لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ ابھی وہ تحریک انصا ف کے ساتھ ہی چلنا چاہتے ہیں۔ ابھی وہ علیحدہ ہونے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ وہ صرف خطرہ کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں، تا کہ عمران خان خطرات کو سمجھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔