شادی کرنا مشکل کیوں ہوگیا؟

محمد مشتاق ایم اے  بدھ 17 نومبر 2021
ہمارے ہاں شادی ہو تو مسئلہ اور نہ ہو تو مسئلہ۔ (فوٹو: فائل)

ہمارے ہاں شادی ہو تو مسئلہ اور نہ ہو تو مسئلہ۔ (فوٹو: فائل)

کہتے ہیں کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں لیکن ان کے ایک ہونے کی تقریبات زمین پر منعقد ہوتی ہیں۔ کسی دل جلے نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ جی ہاں جوڑے بنتے تو آسمانوں پر ہیں لیکن ذلیل زمین پر ہوتے ہیں۔ کچھ من چلے شادی کو لڈو سے بھی تشبیہ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ شادی ایک لڈو ہے جس نے کھایا وہ بھی پچھتایا اور جس نے نہیں کھایا وہ بھی پچھتایا۔ اس پر کچھ شدید قسم کے کنوارے اپنے دل کی بھڑاس یہ کہہ کر نکالتے ہیں کہ جب دونوں صورتوں میں پچھتانا ہی ہے تو کیوں نہ یہ لڈو کھا کر ہی پچھتایا جائے۔ واقعی بھوکا پیٹ پچھتانے کا بھی کیا فائدہ۔

جو حضرات شادی کا لڈو کھانے کے بعد جب بالآخر پچھتانے والے اسٹیج پر آپہنچتے ہیں تو اور تو کچھ کر نہیں سکتے بس دل کی بھڑاس نکالنے کےلیے کہتے ہیں ’’رل تے گئے آں پر چس بڑی آئی اے‘‘۔ اسی طرح شادی کے بعد بے حال ہوجانے والے شوہر سے کسی نے پوچھا کہ آپ شادی سے پہلے کیا کرتے تھے؟ اس نے معصوم اور رونی صورت بنا کر بتایا ’’جو دل کرتا تھا‘‘۔ اسی طرح شدید خواہش اور کوشش کے بعد جب ایک کنوارے کی شادی نہ ہوسکی تو اس نے تسکین دل کی خاطر بیان دیا ’’کنوارا رہنے کا یہ فائدہ ہے کہ صبح آپ بیڈ کی دونوں اطراف سے نیچے اتر سکتے ہیں‘‘۔

ایک شوہر سینہ تان کر جب ایک بک اسٹور میں داخل ہوا اور سیلز مین سے کہا کہ اسے کتا ب چاہیے جس کا ٹائٹل ہے ’’مرد گھر کا سربراہ ہوتا ہے‘‘ تو بک اسٹور والے نے صاحب سے کہا آپ اوپر والے فلور پر چلے جائیے، کیونکہ مزاحیہ کتابیں وہاں سے ملتی ہیں۔

الغرض شادی ہو تو مسئلہ اور نہ ہو تو مسئلہ۔ اس حوالے سے جتنے منہ اتنی باتیں مشہور ہیں۔ لطائف کی دنیا بھی اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں میاں بیوی کی نوک جھونک کو لطائف کی شکل میں شامل نہ کیا جائے۔

یہ تو تھا تصویر کا ایک رخ۔ اب آتے ہیں اس کے دوسرے رخ کی طرف۔ شادی بلاشبہ ایک حسین رشتہ ہے اور اگر میاں بیوی اس رشتے کو سمجھ کر اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزاریں تو یہ رشتہ پائیدار رہتا ہے اور یہ لڈو کھانے والا کبھی بھی نہیں پچھتاتا۔ ایک حدیث کا مفہوم بھی کچھ اس طرح کا ہے کہ ’’دنیا کی متاع نیک عورت ہے‘‘۔

ہاں یہ الگ بات ہے کہ شادی کا لڈو کھانے والا دوسرے دن ہی کھانے میں نمک کم یا زیادہ ہونے پر بیوی پر اپنا زور بازو آزمانے لگے اور برتن کھانے سمیت پھینک دے۔ بیوی کو اپنا ساتھی سمجھنے کے بجائے اپنی ملکیت سمجھے اور ہر وہ کام کرے جس سے اس کو تکلیف پہنچے۔ تو ظاہر ہے وہ لڈو کھانے کے بعد پچھتائے گا اور اسی طرح اگر عورت بھی ایسا وتیرہ بنا لے کے اپنے گھر والے کو سکھ کا سانس لینا نصیب نہ ہو تو وہ بھی سکھ کہاں سے لے پائے گی اور نتیجہ بدزبانی، جھگڑا، ایک دوسرے پر الزامات اور بالآخر بات دونوں کی علیحدگی تک جا پہنچتی ہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں شادی کی نہیں جاتی بلکہ شادی برپا کی جاتی ہے اور جس خاندان میں دولت کے حساب سے جتنا دم ہوتا ہے وہ اتنے بھرپور طریقے سے اپنی بیٹے یا بیٹی کی شادی برپا کرتا ہے اور نجانے کتنے دنوں تک جاری رہنے والی شادی کی رسموں کا ہمارے مذہب سے دور تک کچھ لینا دینا نہیں ہے بلکہ ہم اپنے دل کی بھڑاس ایسے نکالتے ہیں کہ لوگوں کو پتہ چل جائے کی کسی کی شادی ہوئی ہے۔ ہمیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ جو خاندان ایسا کچھ افورڈ نہیں کرسکتے یہ سب کچھ دیکھ اور سن کر کیا محسوس کریں گے اور وہ یہ رونقیں دیکھ کر خوش ہوں گے یا احساس کمتری کا شکار ہوکر بستر سے جا لگیں گے۔

ایک ایسی لڑکی جس کو جہیز میں اس کے والدین برائے نام ہی سامان دینے کی سکت رکھتے ہیں وہ لڑکی معاشرے میں رائج ان رسومات کا مقابلہ کیسے کرے گی اور سسرال جاکر بھی احساس محرومی کا شکار رہے گی۔

اس حوالے سے کافی عرصہ پہلے پی ٹی وی نے ایک بہت خوبصورت ڈرامہ پیش کیا تھا جس کا نام ’’فہمیدہ کی کہانی، استانی حمیدہ کی زبانی‘‘ تھا۔ اس ڈرامے میں اسی معاملے کو زیر بحث لا کر بہت خوبصورتی سے پیش کیا گیا تھا جس میں فہمیدہ کی شادی سے پہلے یہی کچھ دیکھتے دیکھتے موت ہوجاتی ہے اور اس کی ماں استانی حمیدہ تھانے اپنے امیر ہمسایوں کے خلاف رپورٹ درج کروانے پہنچ جاتی ہے کہ میری بیٹی مری نہیں اسے تڑپا تڑپا کر مارا گیا ہے۔

مختصر یہ کہ اللہ ہماری موجودہ یا آنے والی کسی بھی حکومت کو یہ توفیق دے کہ وہ اس حوالے سے کوئی ٹھوس قانون سازی کرسکے کہ غریب خاندانوں کی لڑکیاں احساس کمتری اور احساس محرومی کا شکار نہ ہوں۔ اور ایسا ممکن ہے اگر حکومت بے جا نمودو نمائش اور غیر ضروری رسومات پر پابندی لگادے اور کھانوں میں بھی ایک مینو مقرر کرکے اس سے تجاوز نہ کرنے دے تو کسی حد سفید پوش اور غریب خاندان سے تعلق رکھنے والوں کے احساس محرومی کو کم کیا جاسکتا ہے۔

شادی کی دیگر رسموں کے علاوہ ایک ضروری رسم یہ بھی ادا کی جاتی ہے کہ دلہن جب اپنے گھر سے میاں کے گھر پہنچ جاتی ہے تو اس کے بعد دلہن کا منہ دیکھنے کےلیے اس کے ہاتھ پر پیسے رکھنے پڑتے ہیں جسے عرف عام میں منہ دکھائی کہتے ہیں۔ مجھ ناچیز نے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک رائے دی تھی کہ اس کو منہ دکھائی کہنا بالکل بھی درست نہیں ہے کیونکہ اس وقت دلہن کا منہ تو بالکل بھی نظر نہیں آرہا ہوتا بلکہ بیوٹی پارلر کے کمالات جلوہ افروز ہوتے ہیں جو پہلے ہی دلہن کے اصل اور خالص منہ کو چھپانے کے عوض ہزاروں روپے اینٹھ چکے ہوتے ہیں اور دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ بعض اوقات اچھی بھلی صورت کو بیوٹی پارلر والے اپنے تجربے کی ایسی بھینٹ چڑھاتے ہیں کہ بندہ کہتا ہے اس سے تو یہ میک اپ کے بغیر ہی چنگی بھلی تھی۔ لیکن اس کا بھی کیا جائے کہ کوئی بھی دلہن چاہے اس کی خوبصورتی کو جتنے بھی چاند لگے ہوں، وہ اپنی اصل صورت (ہلکے پھلکے گھر میں کئے گئے میک اپ کے ساتھ) میں کبھی بھی سامنے آنے کی ہمت نہیں کرسکتی اور اپنی اچھی خاصی شکل و صورت پر ایک مصنوعی خول چڑھا کر اور منہ مانگے پیسے میک اپ والوں کو دے کر اپنے آپ کو دنیا کی حسین ترین خواتین میں شمار کرتے ہوئے ذرا نہیں ہچکچاتی۔ حالانکہ اسے بخوبی پتہ ہوتا ہے کہ یہ چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے۔ مطلب دو چار دن میں تو میک اپ کی دبیز تہہ اتر ہی جانی ہے اور نیچے سے سچا اور کھرا مکھڑا روز روشن کی طرح نمودار ہوجانا ہے لیکن یہ سلسلہ چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔

ہم ویسے نہ ہی میک اپ کرانے کے خلاف ہیں نہ ہی منہ دکھائی کے، لیکن صرف کہنا یہ ہے کہ اگر منہ دکھائی دینی ہے تو شادی کے کچھ دنوں بعد دی جائے جب واقعی منہ نظر آرہا ہو اور اگر بیوٹی پارلر کے میک اپ کے ساتھ ہی مبارکباد دینی ہے تو اس رسم کا نام منہ دکھائی کے بجائے میک اپ دکھائی رکھ دیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔ ویسے آپس کی بات ہے آج کل کے ماڈرن دولہا حضرات بھی اپنی تیاری پر تقریباً اتنا ہی وقت اور پیسہ لگانے لگ گئے ہیں جتنا دلہن۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ان کے چہرے پر میک اپ کی دبیز تہہ نہیں ہوتی لیکن وہ بھی آج کل شادی سے پہلے چہرے کے ڈینٹ سیلون سے ایسے ہی ٹھیک کراتے ہیں جیسے کسی پرانی گاڑی کو مکینک کے پاس لے جاکر اس کے ڈینٹ نکلواتے ہیں تاکہ اچھی قیمت پر سیل ہوجائے۔ اس لیے احتیاط کی جائے اور اگر دولہا کو بھی کوئی سیل پیک لفافہ دینا ہو تو یہی سمجھ کر دیں کہ سیلون والے نے محنت کی ہے اور جو پیسے اس نے دولہے سے لیے ہیں کم از کم اس کے وہ تو پورے ہوجائیں۔ اس لیے کوشش کیجئے کہ انسان کے باہر کے بجائے اس کا اندر پہچانیں اور اپنے ہم سفر کے ساتھ ہمیشہ خوش رہیں۔

تحریر کا پیغام تو یہی ہے کہ شادی میں رسموں پر کم اورتعلقات پر زیادہ زور دیں۔ ایک دوسرے کی عزت کریں، دوسروں کے حقوق اور اپنے فرائض خوش اسلوبی سے سر انجام دیں اور پھر نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد مشتاق ایم اے

محمد مشتاق ایم اے

بلاگر ایک کالم نگار، سیاسی، سماجی اور کاروباری تجزیہ کار ہیں۔ سیاست، مذہب، تعلیم اور دوسرے سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان ہی پر زیادہ لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی @MMushtaq28 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔