کراچی میں ڈینگی اور ملیریا جیسے پراسرار وائرس کا پھیلاؤ

رجا فاطمہ  بدھ 17 نومبر 2021
کراچی میں ڈینگی اور ملیریا جیسی علامات کا بخار وبائی صورت اختیار کرچکا ہے لیکن وہ کسی بھی طرح ڈینگی یا ملیریا نہیں ہے۔ فوٹو: فائل

کراچی میں ڈینگی اور ملیریا جیسی علامات کا بخار وبائی صورت اختیار کرچکا ہے لیکن وہ کسی بھی طرح ڈینگی یا ملیریا نہیں ہے۔ فوٹو: فائل

 کراچی: صحت کے ماہرین کے مطابق کراچی میں ڈینگی اور ملیریا جیسی علامات کے لاتعداد مریض سامنے آئے ہیں۔ پراسرار وائرس سے لاحق ہونے والا یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔

بچوں، بڑوں اور خواتین سمیت کئی افراد نجی اور سرکاری ہسپتالوں میں لائے گئے ہیں جن میں بلند بخار، دردِ سر اور عین ڈینگی یا ملیریا جیسی علامات ہیں ۔ ان تمام افراد نے مچھر کاٹنے کی شکایت کی ہے لیکن ٹیسٹ میں ان کا کوئی مرض سامنے نہیں آتا۔ طبی ماہرین نے عوام کو مچھروں سے ہرممکن بچاؤ کی ہدایت کی ہے کیونکہ مریضوں میں ڈینگی، ملیریا، چکن گونیا سمیت مچھروں سے لاحق ہونے والی تمام بیماریوں کے ٹیسٹ منفی آرہے ہیں۔

ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسِس میں سالماتی پیتھالوجی کے ماہر ڈاکٹر سعید خان نے کہا کہ سردموسم میں ڈینگی میں تیزی سے اضافہ ہوجاتا ہے۔ مون سون بارشوں کے بعد بہت سی جگہوں پر بارشوں کا پانی کھڑا ہے۔ جہاں طرح طرح کے مچھر پروان چڑھ رہے ہیں اور مختلف اقسام کے مچھر ان وائرسوں کو انسانوں تک پہنچارہے ہیں۔

شہرکے ایک اورمعروف پیتھالوجسٹ نے بتایا کہ ڈینگی اورملیریا کی تمام علامات کے باوجود ڈینگی بخاراوراین ایس ون جیسے ٹیسٹ میں بھی کچھ پتا نہیں چل رہا ۔ اسی طرح ملیریا کے پی سی آر ٹیسٹ بھی کئے گئے ہیں اور وہ بھی منفی نکلے ہیں۔ جب ان واقعات کی تعداد بڑھی تو اب طبی ماہرین چوکنا ہوگئےہیں۔

ڈاکٹر سعید نے کہا ’ہم اس وائرس پر تحقیق کررہے یں اور کراچی میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسِس نے اسلام آباد میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) سے بھی رابطہ کیا ہے۔ ان کے تعاون سے تحقیق میں مدد ملے گی تاکہ اس وائرس کی بروقت شناخت کرکے اس سے بچاؤ کی حفاظتی اقدامات کئے جاسکیں،۔

ڈاکٹرسعید کے مطابق اب تک مریضوں کے خون کے کئی نمونے جمع کئے جاچکے ہیں۔ اب تک اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ مرض وائرس سے پھیلتا ہے اور اسے مجموعی طور پر فلووی وائرس کہا جاسکتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ڈینگی خاندان کو کوئی وائرس ہے۔

ڈاکٹرسعید نے کہا کہ عجیب بات یہ ہے کہ جس طرح ڈینگی کی کیفیت میں خون کے پلیٹلٹس تیزی سے گرتے ہیں عین اس بخار میں بھی ان کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے۔ تاہم انہوں نے شہریوں سے کہا ہے کہ ذیادہ پریشانی کی بات نہیں کیونکہ اس کی شدت ڈینگی جیسی نہیں اور خوش قسمتی سے اب تک کوئی مریض لقمہ اجل نہیں بنا ہے۔

ڈاکٹر سعید نے عوام سے کہا ہے کہ وہ ڈینگی، ملیریا اور چکن گونیا جیسے بیماریوں سے خبردار اور چوکنا رہیں کیونکہ سب مچھروں سے پھیل رہی ہیں اور اس پراسرار بخار سے بچنے کے لیے اپنے گھروں میں ڈینگی سے بچنے جیسی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

انہوں نے پوری آستین والے کپڑے پہننے اور بدن کے کھلے حصوں پر مچھروں کو دور بھگانے والی لوشن کے استعمال پر بھی زور دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔