تدبر کی ضرورت

ایڈیٹوریل  بدھ 17 نومبر 2021
اس وقت ملک میں افواہوں کا زور ہے، ملکی سیاسی صورتحال پر مہنگائی کا غلبہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

اس وقت ملک میں افواہوں کا زور ہے، ملکی سیاسی صورتحال پر مہنگائی کا غلبہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

ملکی سیاسی منظرنامہ میں ایک بار پھر غیر معمولی ارتعاش پیدا ہوچکا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایک خبر پر توہین عدالت کا نوٹس کیا ہے اور گزشتہ روز اس معاملے پر سماعت بھی ہوئی ہے۔

سیاسی حلقوں نے محتاط طریقے سے لب کشائی ضرورکی ہے لیکن سیاست دان اس عدالتی معاملہ میں سنجیدہ ہیں، بہر حال کوئی خیال آرائی نہیں کرنی چاہیے جو عدلیہ کے سامنے زیر سماعت کیس پر اثر انداز ہو ۔

دوسری طرف سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس ہوئے، مسلم لیگ (ن) نے عدالتی بیان کا سوال اٹھا دیا، بحث ہوئی، اراکین نے سیاسی معاملات پر مختلف تناظر میں معاملات کا جائزہ لیا، سیاسی ماحول پر شور رہا، چہروں پر تناؤ، ہنگامے میں سیاستدانوں نے ملکی سیاست کے مستقبل پر تبصرے کیے، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے معاملے پر گرما گرمی رہی، وزیراعظم، ان کے حلیفوں اور وزرا نے تبصرے کیے، مسلم لیگ کے ماضی پر اظہار خیال کیا گیا۔

ادھر سیاسی افق پر بھی گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں کے حوالے سے مختلف قسم کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان سے ایم کیو ایم، (ق) لیگ اور دیگر اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں نے ملاقات کی جس میں انتخابی اصلاحات، انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال اور دیگر معاملات پر بریفنگ دی گئی اور اتحادی جماعتوں کے تحفظات کو دور کیا گیا، حکومت نے انتخابی اصلاحات سے متعلق اتحادی جماعتوں کے تحفظات دور کر دیے، جس کے بعد پارلیمان کا مشترکہ اجلاس  طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

وفاقی کابینہ کا گزشتہ روز ہونے والا اجلاس ملتوی کر دیا گیا ہے، اخبارات نے ذرایع کے حوالے سے کہا ہے کہ وزیراعظم سے گفتگو کرتے ہوئے (ق) لیگ کے رکن اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ ہمیں پتا ہی نہیں ہوتا، وزرا بل تیار کرکے کہتے ہیں حمایت کریں، حکومت کی حمایت پر پارٹی میں بھی ہماری مخالفت ہے۔

ذاتی طور پر آپ کے بلز کو ووٹ نہیں دینا چاہتا، جس بل کی سمجھ ہی نہیں اسے کیسے ووٹ دوں، پرویز الٰہی کا فیصلہ ہی ہمارا حتمی فیصلہ ہوگا۔ ذرایع کے مطابق ایم کیو ایم الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے معاملے پر حکومتی بریفنگ سے مطمئن نہ ہوئی، اپنے تحفظات وزیراعظم کے سامنے رکھ دیے، خالد مقبول صدیقی نے ای وی ایم کے ذریعہ دھاندلی نہ ہونے کی گارنٹی مانگ لی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ایم کیو ایم کے تحفظات دور نہ ہونے کی تائید کی، حتمی فیصلہ کے لیے ایم کیو ایم کے اجلاس کے بعد اپنے جواب سے متعلق باضابطہ طور پر حکومت کو آگاہ کرے گی۔

ایم کیو ایم کے جواب کے باعث پارلیمان کا مشترکہ اجلاس 16 کے بجائے 17 نومبر کو طلب کیا گیا، حکومتی ذرایع کے مطابق قبل ازیں ایم کیو ایم اور حکومتی وزرا کی ملاقات بھی ہوئی، حکومتی وزرا نے ایم کیو ایم وفد کو ای وی ایم پر خصوصی بریفنگ دی، کنور نوید جمیل نے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن ای وی ایم کے ذریعے انتخابات کرائے گا، ایم کیو ایم نے (ق) لیگ کو جواب دیا کہ ہم الگ سیاسی تشخص رکھتے ہیں، ہم اپنا فیصلہ خود کریں گے۔

سیاسی صورتحال کی ہلچل اس بات کی متقاضی ہے کہ سیاستدان سابق ججز کے حوالے  سے اظہار خیال میں ضبط و تحمل، تفکر و تدبر سے کام لیں اور الزام تراشی کی پوائنٹ اسکورنگ سے گریز کریں۔ اہل سیاست اس بات کا لحاظ کریں جب کہ عدالتی معاملات اور سیاسی حساسیت میں رواداری کا مظاہرہ کریں کیونکہ وقت نے برہمی دو چند کردی ہے، معاملہ عدالت کے روبرو ہے اس لیے انصاف اور قانونی اقدار و معاملات میں تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

عوام کو گیس نہیں مل رہی، چینی کی سپلائی کے متضاد خبریں ہیں، مختلف علاقوں میں چینی مختلف دام میں دستیاب ہے، مگر عوام کو ملکی سیاست کی بدترین گرانی کا سامنا ہے اور ان کے درد کا کسی کو احساس نہیں۔ معیشت کی حالت کے حوالے سے اعلیٰ سطح پر کسی قسم کی فکرمندی نظر نہیں آتی۔ پالیسی سازوں کو کسی ملک کے لیے امداد روانہ کرنی ضروری لگتی ہے تو کم از کم انھیں پاکستان کی معیشت کی حالت کا ادراک بھی کرنا چاہیے کہ کیا ہماری معیشت کسی اور ملک کا بوجھ اٹھانے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔

افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے پالیسی سازوں کو کسی ایک سمت میں اپنا ذہن واضح کر کے پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔ پاکستان کو ایک حد سے بڑھ کر افغانستان کے اقتدار پر قابض طالبان کی وکالت سے گریز کرنا چاہیے۔

افغانستان پر اقوام عالم کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ طالبان نے دوحہ مذاکرات میں جو وعدے یا کمٹمنٹس کر رکھی ہیں‘ انھیں یہ سب کچھ پورا کرنا چاہیے۔اقتدار پر حق جتانا اور اقتدار حاصل کر نے کے لیے وعدے وعید کرنا ‘اور اقتدار بزور قوت حاصل کر لینا ‘ ایک الگ حکمت عملی ضرور ہوتی ہے لیکن اقتدار میں آ کر اقوام عالم کے لیے قابل قبول ہونا ایک اور قسم کی حکمت عملی ہوتی ہے۔

طالبان حکومت بلاشبہ انتہائی مشکل حالات میں گھری ہوئی ہے۔ لیکن حقائق کی دنیا میں اپنا بوجھ خود اٹھانا پڑتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی ملک افغانستان کی طالبان حکومت کو مالی مدد بھی دے اوراپنی بات بھی نہ منوائے۔

پاکستان نے افغانستان کے لیے اپنی معیشت داؤ پر لگا رکھی ہے ‘ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ ایک غریب ملک ‘اپنے سے بھی زیادہ تباہ حال ملک کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا ۔ ہمار ے پالیسی سازوں کو سرد جنگ کی سوچ اور اپروچ سے باہر آ کر آج کی دنیا کے مطابق ملکوں اور قوموں سے اپنے معاملات طے کرنے ہیں۔ سرد جنگ اب ختم ہو کر تاریخ کے کوڑے دان میں چلی گئی ہے۔

اس دور کی پالیسیاں ‘ دوستیاں اور دشمنیاں تبدیل ہو چکی ہیں ‘ اب پاکستان یا افغانستان کی طالبا ن حکومت کو سرد جنگ کے دور میںامریکا ‘خلیجی عرب ممالک اور مغربی یورپ سے جس حجم میں گرانٹس اور امدادملتی تھی ‘اب وہ نہیں مل سکتیں۔افغانستان کی طالبان مخالف حکومتیں بھی کچھ کرنے کے بجائے امریکا اور یورپ سے آنے والی امداد کی بندر بانٹ میں مشغول رہے‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ طالبان جنگجوؤں کا مقابلہ بھی نہ کرسکے۔

افغان فوج کے سپاہی صرف تنخواہیںوصول کرتے رہے اور جب ملک اور عوام کے دفاع کا مرحلہ آیا تو وہ غائب ہو گئے۔ اب طالبان حکومت میں ہیں۔ انھیں بھی حقائق کی دنیا میں ہونے کا طریقہ سیکھنا ہو گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ دنیا سے امداد کی بھیک بھی مانگیں اور انھیں آنکھیں بھی دکھائیں۔کسی ملک پر حکومت کا کنٹرول حاصل کرنا ‘بہت بڑی ذمے داری کا نام ہے۔ جب تک کوئی حکومت یہ ذمے داری ادا نہیں کرتی ‘اس وقت تک اسے ایک اچھی اور عوام کی نمایندہ حکومت کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔

یہ پرانا زمانہ نہیں ہے کہ ایک مسلح گروہ کسی علاقے پر قبضہ کرتا ہے اور پھر وہاں کے وسائل کو اپنا حق سمجھتا ہے جب کہ رعایا یا عوام کو غلام یا اچھوت سمجھتا ہے۔ آج کے جدید دور میں اس قسم کی سوچ اور طرز عمل کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔

اقوام عالم میں اپنی ساکھ اور وقار بنانے کے لیے کسی حکومت کو ایسی پالیسیاں اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے وہ اپنے ملک کی سلامتی کو یقینی بنائے‘ عوام کی بنیادی ضروریات یعنی تعلیم‘ تفریح‘ علاج ‘ روز گار اور جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے۔جو حکومت نظریاتی ابہام کا شکار ہو ‘اس کے پالیسی ساز بھی مبہم اور خام سوچ و فکر کا شکار ہوتے ہیں۔

انھیں جدیدیت سے ڈر لگتا ہے۔ وہ خواتین کے حوالے سے مذہب سے زیادہ قبائلی سوچ اور کلچر کے طابع ہو کر پالیسی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے دنیا ان سے ڈرتی ہے۔ لہٰذا سب سے بڑی ذمے داری افغان طالبان قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ انھیں اپنے ملک اور اس میں بسنے والی اقوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہو گا۔ دنیا کی ہر ریاست میں مختلف نسلی ‘ثقافتی اور لسانی گروہ آباد ہوتے ہیں۔ افغانستان بھی ایسا ہی ایک ملک ہے‘ یہ کسی نسلی اور لسانی گروہ کی ذاتی ملکیت یا وراثت نہیں ہے۔

جو شخص بھی افغانستان میں پیدا ہوا ہے یا وہ صدیوں سے وہاں رہائش پذیر چلے آ رہے ہیں ‘ یہ ان سب کا ملک ہے اور اس ملک کے وسائل پر سب کا حق ہے۔اس لیے افغانستان کی طالبان حکومت سب سے پہلے اپنے ملک اور عوام کے لیے خود کو قابل قبول نہیں بلکہ ہر دل عزیز بنائے‘ مخالفین سے برا سلوک کرنا مسائل کا حل نہیں ہے۔ آج طالبان اقتدار میں ہیں تو کل وہ اقتدار میں نہیں ہوں گے‘ اس لیے اقتدار کے حصول کے لیے سیاسی جدوجہد کی جاتی ہے۔ یہی آج کی دنیا کا سبق ہے۔

پاکستان کے اپنے مسائل ہیں۔ پاکستان کی معیشت بری حالت میں ہے۔ ملک کی مڈل کلاس بہت پریشان ہے۔پڑھا لکھا نوجوان طبقہ بے روز گار اور مایوسی کا شکار ہے۔ پاکستان کی حکومت کا اولین فرض اپنے ملک کے عوام کے خوشحالی ہونا چاہیے۔

اس وقت ملک میں افواہوں کا زور ہے، ملکی سیاسی صورتحال پر مہنگائی کا غلبہ ہے، عوام کو زندگی کے کسی شعبے میں اتنی تشویش نہیں جو پریشانی انھیں مہنگائی سے ہے، لہٰذا سیاسی استحکام کسی بل کی منظور سے نہیں آئے گی، عوام کو اطمینان صرف مہنگائی کم ہونے سے ہی ہوگی، حکمرانوں نے مہنگائی کو موضوع پر توجہ نہیں دی مگر الیکشن میں انھیں اندازہ ہوگا کہ مہنگائی ووٹرز کے ہونٹوں پر احتجاج کی صورت موجود ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔