انتخابی دھاندلیوں کی رپورٹ

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 17 نومبر 2021
tauceeph@gmail.com

[email protected]

ڈسکہ میں 19 فروری کو قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں منظم دھاندلی کی گئی۔ 20 پریزائیڈنگ افسر غائب کر دیے گئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے اس ضمن انتخاب کو دھاندلیوں کے الزام کی بناء پر منسوخ کرکے دوبارہ انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا تھا اور اس انتخاب میں ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔

تحقیقاتی رپورٹ میں لکھا گیاہے کہ پریزائیڈنگ افسران کی گمشدگی اتفاقیہ نہیں تھی۔ بتایا گیا ہے کہ انتخابات میں مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے اے سی ڈسکہ کے گھر میں غیر قانونی اجلاس ہوا جس میں ضمنی انتخاب میں دھاندلی کے لیے پولنگ کی رفتار سست رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، ڈپٹی ڈائریکٹر تعلیم محمد اقبال اور وزیر اعلیٰ کے ڈپٹی سیکریٹری علی عباس نے شرکت کی۔ اجلاس میں پریزائیڈنگ افسروں کو یہ ہدایت دینے کا فیصلہ ہوا کہ شناختی کارڈ کی ڈپلی کیٹ کاپی دکھا کر ووٹ دینے کی اجازت دی جائے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انتظامیہ کو ہدایات دی جائے کہ وہ پولیس کے کام میں مداخلت نہ کرے۔ یہ نکتہ بھی شامل ہے کہ پولیس فورس اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہے۔ تحقیقاتی افسر نے سفارش کی ہے کہ فارم 45 اور فارم 46 میں ترمیم کی جائے اورکاؤنٹنگ ایجنٹ کے فارم وصول کرنے کی ریسیونگ پر دستخط شامل کیے جائیں۔ یہ پہلی رپورٹ ہے جس میں الیکشن کمیشن کے افسروں کو بھی دھاندلی میں ملوث قرار دیا گیا ہے۔

پاکستان میں انتخابی دھاندلیوں کی روایت بہت قدیم ہے۔ ہندوستان کے بٹوارہ کے بعد جب پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسہ میں سید اکبر نامی افغان شہری نے گولی مارکر شہید کیا تو بیوروکریٹ غلام محمد گورنر جنرل اور خواجہ ناظم الدین ملک کے دوسرے وزیر اعظم بنے۔ گورنر جنرل غلام محمد نے کچھ عرصہ بعد آئین ساز اسمبلی کو توڑ دیا اور وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کیا۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ ہوا۔ پاکستان بنانے والی جماعت مسلم لیگ نے پنجاب میں ان انتخابات میں دھاندلی کی۔

کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار مرزا ابراہیم کی کامیابی کو روکنے کے لیے راتوں رات نتائج تبدیل کیے گئے۔ کسی صحافی نے اس انتخابی دھاندلی کو ’’جھرلو پھرگیا ‘‘ کا نام دیا۔ یوں انتخابی دھاندلیوں کے لیے جھرلو پھیرنے کی اصطلاح رائج ہوگئی۔ جنرل ایوب خان نے 1958میں اقتدار پر قبضہ کیا اور ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کیا گیا۔

جنرل ایوب خان نے ایک متنازعہ ریفرنڈم کے ذریعے جس میں وہ واحد صدارتی امیدوار تھے خودکو صدر منتخب کرایا۔ لکھا ہے کہ اس ریفرنڈم میں عوام نے ووٹ نہیں ڈالا مگر ایوب خان کو سو فیصد ووٹوں سے کامیاب قرار دیا گیا۔

جنرل ایوب خان نے 1962 کا آئین نافذ کیا جس میں صدارتی انتخاب کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے بنیادی جمہوریت کا نظام نافذکیا۔ جنرل ایوب خان نے 1964 کے انتخابات میں خود کوکنونشن مسلم لیگ کا صدارتی امیدوار قرار دیا۔ متحدہ اپوزیشن نے محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار نامزد کیا۔ فاطمہ جناح نے سابقہ مشرقی پاکستان ، کراچی ، کوئٹہ ، پشاور اور لاہور میں تاریخی جلسے کیے۔ نیشنل عوامی پارٹی  نے فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کی۔ اس حمایت سے فاطمہ جناح کی انتخابی حیثیت زیادہ مستحکم ہوئی۔

مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ جس کے قائد شیخ مجیب الرحمن تھے وہ فاطمہ جناح کی وہاں انتخابی تحریک کے اہم رہنماؤں میں شامل تھے۔ نیپ کے رہنما انقلابی شاعر حبیب جالب انقلابی نظمیں پڑھتے تھے۔ فاطمہ جناح کی کامیابی یقینی تھی مگر پھر ہر ضلع کی انتظامیہ نے بی ڈی ممبران کو اغواء کیا، انھیں لالچ دی ، کچھ کو گرفتار کیا گیا اور پھر ان اقدامات سے تسلی نہ ہوئی تو نتائج تبدیل کر دیے گئے۔

1970کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات نہیں لگائے گئے ، جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1977 میں عام انتخابات کرائے تو مخالف جماعتیں پاکستان قومی اتحاد میں منظم ہوئیں۔ پی این اے نے ان انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف خون ریز مہم چلائی تو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے آپ کو صدر قرار دینے کے لیے ریفرنڈم کروایا، انھوں نے بھی دھاندلیوں کے ذریعہ ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کی۔ 1988سے 1999تک ہونے والے انتخابات متنازعہ رہے۔

یہی صورتحال 2002 اور 2008 کے انتخابات میں رہی۔ پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت میں آئین میں 18ویں ترمیم ہوئی اور آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کے تصور کو عملی شکل ملی۔ اس الیکشن کمیشن کو نقصان پہنچانے کے لیے 2013 میں علامہ طاہر القادری نے اسلام آباد پر دھاوا بولا۔ تحریک انصاف نے 2013 کے انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف مہم چھ ماہ تک چلائی اور اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ جب لاہور کے چار حلقوں میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کی گئی تو یہ الزامات غلط ثابت ہوئے۔

عمران خان ناکام دھرنا سے واپس آئے مگر وہ مستقل انتخابی دھاندلیوں کا واویلا کرتے رہے۔ انھوں نے اس دفعہ چیف الیکشن کمشنر کے عہدہ کے لیے راجہ سکندر کو نامزد کیا۔ عمران خان اپنی مرضی کے خلاف ہونے والے فیصلوں پر ناراض ہوگئے۔ ان کے دو وزراء نے چیف الیکشن کمشنر پر جھوٹے الزامات لگائے جس کو ثابت کرنے میں وہ ناکام رہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے الیکشن کمیشن پر دباؤ کے لیے تمام وفاقی وزراء کو ہدایت کی کہ وہ ان وزراء کی کمیشن میں پیشی پر وہاں ہلا بولیں۔ موجودہ حکومت بغیرکسی جانچ پڑتال کے الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا تجربہ کرنا چاہتی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ بلوچستان میں پندرہ سے بیس گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، یہی صورتحال سابقہ قبائلی علاقوں کی ہے اور چھوٹے شہروں میں لوڈ شیڈنگ کا تناسب بارہ گھنٹے ہے، پھر خواتین میں خواندگی کی شرح انتہائی کم ہے جو کہ کمپیوٹر کی جدید مشین سے روشناس نہیں ہیں۔

اس صورتحال میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا تجربہ محض مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے کیا جا رہا ہے ، مگر الیکشن کمیشن کی ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں دھاندلیوں کے بارے میں اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت اور ماضی میں برسر اقتدار آنے والی حکومتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ حکومت، دھاندلی، کرپشن اور اپنی مرضی کی قانون سازی کے ذریعہ اقتدار میں آنا چاہتی ہے۔

اگر واقعی یہ تاثر غلط ہے تو حکومت کو اس دھاندلی میں ملوث تمام افسران اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے تاکہ مستقبل میں انتخابی عمل میں شامل ہونے والے افراد کے لیے ایک لائحہ عمل واضح ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔