علاجوں کا علاج سورج

سعد اللہ جان برق  جمعرات 18 نومبر 2021
barq@email.com

[email protected]

الرجی آج کل کی ایک معروف بیماری ہے جو تقریباً لاعلاج بھی ہے لیکن آپ نے غورنہیں کیاہوگا کہ الرجی کا زیادہ زورشہروں میں ہوتا ہے،دیہاتی علاقوں،کسانوں اورمزدوروں میں الرجی بہت کم ہوتی ہے،کھجلی وغیرہ کی شکایت ہوتی ہے لیکن وہ فصلوں میں ایک خاص قسم کے گردوغبار سے ہوتی ہے کیوں کہ اس گردوغبار میں خارش کی ایک خاص قسم کی بھوری یاچنگیزی سنڈی کے بالوں کاگروہ ہوتاہے لیکن وہ خاص قسم بلکہ کئی اقسام کی ’’الرجیاں‘‘ دیہات میں نہیں ہوتیں جو شہروں میں انتہائی زیادہ ہوتی ہیں۔

حکومت نے اس کے لیے کچھ انجکشن بھی مروج کیے لیکن الرجی کاکوئی علاج نہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ شہروں میں سورج کی دھوپ اور روشنی سے دوری اورمحرومی ہے ،شہروں کی رہائش اورکاروبار زیادہ تر سائے میں ہوتے ہیں،گھروں، دکانوں، دفاتر وغیرہ میں سایہ اورپنکھے کے نیچے کام ہوتے ہیں بلکہ اب تو اے سی کا پھیلاؤ بھی بہت زیادہ ہے، اکثرگھروں میں گاڑیوں میں اورکام کی جگہوں میں اے سی ہوتا ہے۔

یہ میری اپنی تحقیق کا اندازہ ہے جومیں نے کچھ مطالعے، کچھ مشاہدے اورکچھ تجربے سے قائم کیا ہے کہ سورج کی روشنی سے محرومی بہت سارے عوارض کو جنم دیتی ہے، اگر آپ کو کھیتوں، فصلوں اورنباتات سے واقفیت ہو توسائے میں کوئی فصل یادرخت پھیلتاپھولتا نہیں،کھیتی کسی حد تک موجود تو ہوتی ہے لیکن ’’باآور‘‘ نہیں ہوتی ،جتنی بھی فصلیں سائے میں ہوتی ہیں وہ کمزور،زرد اوربانجھ ہوتی ہیں۔

اکثرکسانوں میں اس بات پر جھگڑے ہوتے ہیں کہ تم نے اپنے کھیت کی مینڈھ پردرخت لگا کرمیر ے کھیت کو بنجر کردیاہے، اچھے زمیندار اورکاشتکار حتیٰ الوسع کھیت کے کنارے درخت یا سایہ پسند نہیں کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات دشمنی نکالنے کے لیے اوپر والا زمیندار اپنے نیچے والی مینڈھ پردانستہ درخت لگاتے ہیں تاکہ نیچے والے کھیت میں فصل نہ ہو۔

میرا خیال ہے جس کا کوئی ثبوت تو میرے پاس نہیں ہے لیکن وائرس اورجراثیم کے سلسلے میں بھی سورج کی روشنی کاکردار بہت اہم ہے بلکہ شایدکوروناوائرس بھی سائے کی پیداوار ہے کیوں کہ سنا ہے کہ یہ غاروں میں رہنے والی چمگادڑوں میں پیداہوتا ہے۔

اورموجودہ حالات میں اس کے پھیلاؤ کے خطے بھی زیادہ تر ’’سائے‘‘ والے ہیں۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ دیہات میں اورخاص طورپر کسانوں اورمزدوروں میں ’’کورونا‘‘ سے بہت کم اموات ہوئی ہیں ،عام طورپر لوگ اسے سخت جانی بتاتے ہیں لیکن سخت جانی بھی توسورج اور اس کی روشنی اوردھوپ کی رہین منت ہے ۔سورج کی دھوپ میں وٹامن ڈی ہوتاہے جو ایک دفاعی وٹامن ہے، مجھے خود اس کا تجربہ ہوچکاہے مجھے طرح طرح کے عوارض مع الرجی کے لاحق ہوتے تھے۔

ایک ڈاکٹر جو ہمارے چراٹ کے علاقہ خٹک سے تھا،ڈاکٹر امانت۔  کچھ دنوں کے لیے انگلینڈ سے آیا تھا، اب پھر یہاں کا سلسلہ علاج دے کر واپس چلا گیا، اس نے میرے ٹسٹ کیے تو اوردواؤں کے علاوہ وٹامن ڈی انجکشن تین مہینے میں ایک لگانے کی ہدایت کی، کچھ عرصہ انجکشن لگوائے لیکن پھر چھوڑ دیا اور اسی دوران کورونا نے مجھے پکڑ لیا ،میرے معمولات میں بھی دھوپ کاعمل نہ ہونے کے برابر تھا،سورج کی اس اہمیت کاپتہ قدیم انسان کوبھی تھا اب یہ کہنا مشکل ہے کہ اسے کس نے بتایاتھا ؟ لیکن بتانے والی توایک ہی ہستی ہے ۔چنانچہ قدیم اساطیر میں بعض علاقوں میں سورج کو رب کادرجہ حاصل تھا،مصر کا  ’’را‘‘ یونان کا زیوس ،بابل کا مردوک فارس کااہورمزدا اور ہند کا سوریہ دیو،سورج ہی تھا۔

یہ ایک الگ بحث ہے لیکن میرے خیال میں انسان ابتدا میں جن عوامل اور عناصر کو دیوی دیوتامانتاتھا یہ بھیایک طریقہ تعلیم تھا جیسے ہمارے ہاں بچہ الف انار اورب بلی سے ابتداکرتا ہے،محلے کے پرائمری اسکول میں پڑھتا ہے اور بتدریج جب اس کی استعداد اوررسائی بڑھتی ہے ،نصاب بھی بڑھتا جاتا ہے چنانچہ دیوی دیوتاؤں کا یہ سلسلہ بھی نچلی کلاسوں کی تعلیمات تھیں جو آخر کار اس کے مقابل الہامی تعلیمات پر ختم ہوئیں اور جن جن عوامل اورعناصر کو دیوی دیوتا مانا گیاتھا وہ سب کی سب اس عظیم خالق ومالک کی مظاہر ہی تو ہیں ۔بہرحال یہ میرا اپنا مشاہدہ اورمطالعہ ہے کہ سورج زمین کی ہرمخلوق کے لیے ایک نعمت ہے اوراس نعمت سے محرومی بہت سارے عوارض کوجنم دیتی ہے۔

ہوسکتاہے مروجہ کاروباری علوم اس کی تائید نہ کریں کیوں کہ ان کوبھی تواپنا ’’دارو‘‘بیچنا ہوتا ہے لیکن اس حقیقت سے کوئی انکارکرہی نہیں سکتاکہ یہ کرہ زمین بھی سورج کاایک حصہ ہے اوراس پر موجود ساری مخلوقات کی زندگی کادارومدار کبھی سورج پرہے اوردور جانے کی ضرورت بھی نہیں، خودہی دھوپ میں بیٹھ کر اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔