الیکٹرانک ووٹنگ مشین مرحلہ وار کیوں نہیں!

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 19 نومبر 2021
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

ہم بطور قوم وقت ضایع کرنے ، حیلے بہانوں سے کام لینے، ایک دوسرے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے، کینہ پروری اور مفاد پرستی کے عادی ہو چکے ہیں۔ اب الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہی کو لے لیجیے ، تحریک انصاف کے منشور میں شامل تھا کہ انتخابی نظام کو شفاف بنایا جائے گا، جب کہ اس حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے ساڑھے تین سال ہوچلے ہیں اور قریب قریب ڈیڑھ سال موجودہ حکومت کا باقی رہ گیا ہے تو اب شفاف انتخاب کے خواب کو سچ کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیے ہیں۔

گزشتہ روز پارلیمنٹ سے 33 بلوں کے ساتھ یہ بل بھی منظور کرا لیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ بات ہر فورم پر کی جا چکی ہے کہ منقسم انتخابی اصلاحات، الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کا استعمال اور آئی ووٹنگ بہت بڑے چیلنجز ہیں۔ پھر جس نے اسے Implement کرنا ہے وہ ہی تذبذب کا شکار ہے، یعنی الیکشن کمیشن اس انتخابی عمل کو شفافیت اور منصفانہ ہونے کے خلاف سمجھتا ہے۔ جب کہ اپوزیشن بھی اسے ’’شیطانی مشین‘‘ قرار دے رہی ہے تو ایسے میں اب ہوگا یہ کہ عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا۔

ظاہر ہے عدالت فطری طور پر الیکشن کمیشن سے موقف مانگے گی، اپوزیشن جماعتیں کہہ چکیں کہ وہ مذکورہ قانون سازی کوعدالت میں چیلنج کریں گی۔ جب کہ الیکشن کمیشن عدالت میں کہہ دے گا کہ اگر اسے فوری طور پر نافذ بھی کر دیا جائے تو 20لاکھ پولنگ بوتھ کے لیے 20سے 30لاکھ مشینیں درکار ہوں گی، پھر الیکشن عملے کی ٹریننگ ، پھر اساتذہ کی ٹریننگ اور پھر سب سے اہم عوام کی تربیت اور اس سے بھی اہم 20لاکھ پولنگ اسٹیشن میں سے کم و بیش 4لاکھ پولنگ بوتھ انٹرنیٹ یا بجلی کی سہولت سے محروم۔ یہ جواب سُن کر عدالت عظمیٰ اس قانون سازی کے بارے میں کیا فیصلہ کرے گی؟

ویسے بھی ہمارے ہاں انتخابی معرکوں کے حوالے سے کس قدر پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں، اس کا ادراک ہر جنرل الیکشن یا ضمنی الیکشن میں ہو ہی جاتا ہے۔ یہاں ایک تو انتخابات شفاف نہیں ہوتے، دوسرا انتخابات پر کسی کو اعتبار نہیں، تیسرا حکومت کے لیے الیکشن کمیشن قابل بھروسہ نہیں، چوتھا، حکومت الیکشن کمیشن کے سربراہ کو متنازعہ بنا رہی ہے، پانچواں انتخابات کا طریقہ کار متنازعہ، چھٹابغیر فوج کی مدد کے انتخابات کرانا ایک خواب، ساتواں انتخابات کے دوران انتظامیہ امن و امان کی رٹ قائم کرنے میں ناکام، آٹھواں ریٹرننگ آفیسرز اور عملہ محفوظ نہیں، نواں ٹیکنالوجی کا فقدان جیسے آر ٹی ایس کا ’’بیٹھ‘‘ جانااور دسواں مسئلہ ووٹر بھی غیر تربیت یافتہ جس کی وجہ سے ہزاروں ووٹ ضایع ہوجاتے ہیں۔

یعنی جہاں انتخابات کروانے میں اتنے مسئلے سامنے کھڑے ہوں تو شفاف انتخاب کی اُمید کرنا ایک دیوانے کا خواب ہی نظر آتا ہے۔ان تمام مسائل میں اگر حکومت خلوص نیت سے الیکشن اصلاحات پر کام کرنا چاہتی ہے تو اس کی نیت اس کے کام سے جھلکنی بھی چاہیے۔ جیسے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کو سب سے پہلے ضمنی انتخابات میں استعمال کیا جاتا، لاہور کے حلقہ 133میں اگلے ماہ ضمنی انتخاب ہونے جا رہا ہے تو یہاں ٹرائل بیسز پر ای وی ایم کو استعمال کرکے تمام خدشات، الزامات اور دھاندلی کے دعوے دور کیے جاتے۔

بھارت میں بھی مرحلہ وار الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال کیا گیا، اور اب پورے بھارت میں سوا ارب کی آبادی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ووٹنگ کے مراحل سے گزرتی ہے جسے کوئی چیلنج بھی نہیں کرتا۔ بھارت میں الیکٹرانک مشین کے ساتھ مشین سے نکلی ہوئی پرچی بھی بیک اپ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ بھارت میں آج سے 40سال قبل 1982 میں کیرالہ کے ریاستی انتخابات میں پہلی بار الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال کیا گیا تھا۔ بھارت مقامی طور پر تیارکردہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال کرتا ہے۔ بھارتی انتخابی عمل میں انتہائی سادہ انداز میں بیٹری پر چلنے والی ان مشینوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

ووٹر پولنگ اسٹیشن پر انتخابی عملے کو اپنا شناختی کارڈ پیش کرتا ہے۔ انتخابی عملہ چیک کرتا ہے کہ وہ ووٹر لسٹ میں ہے یا نہیں۔ اس کے بعد ووٹر کی باری آنے پر پولنگ افسر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بیلٹ یونٹ ان لاک کر کے اس کے حوالے کرتا ہے۔ ویسے بھی معذرت کے ساتھ مسئلہ انتخابی نظام میں سقم کا نہیں بلکہ نیتوں کا ہے ور نہ اگر اداروں میں تیعنات افسران درست کام کریں تو سب کچھ درست ہو جائے گا۔ لیکن اس کے برعکس یہاں ہمیشہ ای وی ایم کو سیاسی طور استعمال کیا جاتا ہے، ہر حکومت شفاف الیکشن کا سیاسی نعرہ لگاتی ہے، اپوزیشن اس کی مخالفت کرتی ہے اور پھر یونہی وقت گزر جاتا ہے۔

اور ویسے بھی میں دعوے سے کہتا ہوں کہ پاکستان میں ایک طبقہ کبھی نہیں چاہے گا کہ یہاں انتخابی اصلاحات ہوں، کیوں کہ اُس طبقے کو بیلٹ پیپر الیکشن سے انڈر گراؤنڈ سپورٹ ملتی ہے۔ ورنہ 1970سے لے کر آج تک اس سسٹم کا ہر الیکشن دھاندلی زدہ قرار دیا جا چکا ہے تو پھر یہ لوگ اس سسٹم کو تبدیل کیوں نہیں کرتے؟ لہٰذاہوتا یوں ہے کہ ان ’’تجربہ کار‘‘ سیاستدانوں نے اپنے اپنے حلقے میں 10سے 15ہزار جعلی ووٹ بنا رکھے ہیں جسے آپ تلاش بھی کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔

جن بااثر لوگوں نے دھاندلی کا ایک مکمل میکنزم ترتیب دے رکھا ہے، وہ بھلا کیوں چاہیں گے کہ اس خطے میں شفاف الیکشن کے ذریعے تبدیلی آئے اور یا اچھی قیادت میسر آئے۔ میرے خیال میں جس طرح ہر پارٹی کا میڈیا ہاؤس کا م کر رہا ہے اس طرح ہر پارٹی کا ایک ’’دھاندلی ہاؤس ‘‘ بنا ہوا ہے، جو پوری پارٹی میں دھاندلی کو مینج کر رہا ہوتا ہے۔ اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ کس بات پر اور کب کتنا شور مچانا ہے۔ جیسے 2018ء کے الیکشن میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار محمد رضا کو خود نوازشریف اور خورشید شاہ نے تعینات کیا، لیکن بعد میں دونوں بڑی پارٹیاں اُن کے بھی خلاف ہوگئیں، اور بڑے پیمانے پر دھاندلی کا شور مچانا شروع کر دیا۔

خیر اگر مشین کے حوالے سے ماہرین کی رائے لی جائے تو دنیا بھر میں مشین ووٹنگ سسٹم مینوئل ووٹنگ سسٹم سے 80فیصد بہتر ہے، یعنی دھاندلی کے چانسز 20فیصد ہیں جب کہ مینوئل سسٹم میں دھاندلی کے چانسز 60فیصد ہوتے ہیں۔اس لیے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کا بنیادی مقصد ووٹوں کی گنتی کو تیز اور موثر بنانا ہوتا ہے۔عالمی سطح پر آسٹریلیا، بلجیم، برازیل، ایسٹونیا، فرانس، جرمنی، برطانیہ، بھارت، اٹلی، ناروے، سوئٹزرلینڈ، متحدہ عرب امارات اور امریکا سمیت کئی ممالک الیکٹرانک ووٹنگ سے انتخابات کرا چکے ہیں۔

لہٰذااگر ہم نے دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو ہمیں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو یقینی بنانا ہوگا، اگر مشین کے استعمال میں کسی قسم کی دھاندلی کا خدشہ ہے تو اُس کے لیے احتیاطی تدابیر استعمال کی جا سکتی ہیں، اسے مرحلہ وار استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسے پہلے اسے بڑے شہروں کراچی، لاہور، فیصل آباد، سرگودھا، پشاور،کوئٹہ جیسے شہروں میں استعمال کیا جائے۔ وہاں سے بہت سے مسائل سامنے آئیں گے، پھر انھیں دور کیا جائے اور دوبارہ اگلے ضمنی انتخاب میں لاگو کیا جائے ۔ یعنی اگر ہم آج سے خلوص نیت کے ساتھ کام کریں تو اگلے چند سالوں میں ہم مکمل طور پر شفاف انتخاب کی طرف جا سکتے ہیں، ورنہ یوں ہی ہم ایک دوسرے کے گریبان چاک کرتے رہیں گے اور نقصان ’’پاکستان‘‘ کا ہوتا رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔