یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا

م ش خ  جمعـء 19 نومبر 2021
meemsheenkhay@gmail.com

[email protected]

یہ کیا ہورہا ہے سمجھ میں نہیں آتا ، اپوزیشن اور حکومت آپس میں الجھ رہے ہیں۔ قوم کونے میں کھڑی یہ تماشا دیکھ رہی ہے ، مسائل کے ڈھیر پر بنیادی سہولتوں سے قوم محروم ہے۔ اپوزیشن اور حکومت 3سال سے ایک پلیٹ پر جمع نہ ہوسکی ، مسائل کی ٹرینیں آتی ہے اور یونہی واپس چلی جاتی ہیں۔ آخر یہ سلسلہ کب رکے گا ، سمجھ سے بالاتر ہے۔ پرویز الٰہی سینئر سیاست دان ہیں انھیں بھی گلہ ہے کہ حکومت ساتھ نہیں دے رہی حالانکہ وہ عوامی مسائل کو سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے خوب صورت صوبے پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں ، کوئی نہ کوئی مسئلہ قوم کے سامنے آجاتا ہے اور پھر تمام سیاسی حضرات اس پر ورکنگ شروع کردیتے ہیں۔

کوئی نہ کوئینیا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے ، جو ہفتوں زیر گردش رہتا ہے اور قوم کو امید ہے کہ یہ مسائل حل ہوں گے۔ قومی سلامتی کے مسائل پر جس طرح آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ قوم کے ساتھ کھڑے ہیں ، قوم انھیں اور پاک فوج کو خراج تحسین پیش کرتی ہے اس وقت پاکستان میں دو ہی ادارے ہیں معزز عدالتیں اور پاک فوج باقی اداروں کی خبریں تو قارئین کی نظر سے گزرتی ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ مہنگائی صرف سردیوں تک ہے ، یعنی قوم کو اب دو بڑے امتحانوں سے گزرنا ہے مہنگائی اور گیس کی قلت۔ مہنگائی سے تو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ سب ہی نمٹ رہے ہیں ہاں غریب اس مہنگائی کی وجہ سے تہی دامن نظر آتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ گیس کی بحالی کا اقدام فوری اٹھائے اور اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دے۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ اتحادی دوستوں کی بات پر توجہ دیں تاکہ ان کی مشکلات اور قوم کے مسائل حل ہوں کیوں کہ ق لیگ حکومت سے مایوس ہوتی جارہی ہے اور ان کی مایوسی حکومت کے لیے نقصان دہ بھی ہوسکتی ہے۔

حکومت کے مشیروں کو بھی چاہیے کہ وہ اصلاحی بیان روایات کی پاسداری کے ساتھ اپوزیشن کو دیں تاکہ آبرو مندانہ سلسلہ قائم رہے۔ قوم کے مسائل جوں کے توں ہیں جب وہ اپنے مسائل کی طرف دیکھتی ہے تو کہتی ہے یہ کیا ہورہا ہے ہم کہاں کھڑے جس امید پر ہم نے نظریات بدلے تھے وہ تو اپنی جگہ قائم ہیں بلکہ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ ہمارے چودہ طبق روشن اس مہنگائی نے کر دیے ہیں حکومت اس مہنگائی پر بہت زیادہ سنجیدگی سے توجہ دے۔ اپوزیشن ایوان میں مہنگائی کے حوالے سے ایک مقام پر یکجا کھڑی ہوتی ہے مگر یہ باہر معذرت کے ساتھ متحد نظر نہیں آتی ہے۔

ان کے سیاسی اختلافات جوں کے توں ہیں اور پھر یقیناً 5سال مکمل ہونے کے بعد نئے الیکشن کا اعلان ہوجائے گا ، اس کے بعد اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو حکومت اپوزیشن کو بھی نہیں پتا کیوں کہ جو حکومت میں ہوتا ہے وہ ماضی کی ناکامیاں اپوزیشن پر ڈال دیتا ہے جب کہ جو حکومت میں ہوتے ہیں وہ ماضی کی حکومتوں میں بھی وفاقی وزرا رہ چکے ہوتے ہیں۔

تعلیم یافتہ طبقے کو تو سب یاد ہے وہ خاموش ہے کہ وہ اس سیاست سے بے زار ہوچکا ہے۔ 70فیصد آبادی تقریباً دیہاتوں میں رہتی ہے وہ تو اردو نہیں پڑھ سکتے اصل ووٹر تو وہی ہیں اور یہی وہ ووٹر ہے جو بہت توجہ سے ووٹ دیتا ہے ایسی ایسی خبریں اخبارات میں شایع ہوتی ہیں کہ قوم اپنے آپ کو کوستی ہے کہ کس مشکل میں جان ہے۔

ایک وفاقی وزیر فرما رہے تھے کہ عوام کو مچھلی نہیں دیں گے ، پکڑنا سکھائیں گے ، اب ان سے کوئی یہ پوچھے کہ آپ کے پاس تو وسائل کا سمندر ہے اب وہ عوام کو مچھلی پکڑنا سکھائیں گے، بھلا بتائیے کہ غربت کے مارے لوگوں کو اب مچھلی پکڑنا سکھائی جائے گی جب کہ خود مراعات کے سمندر میں رہتے ہیں کچھ وزرا چینلز پر کہتے ہیں دنیا کے بیشتر ممالک میں پیٹرول مہنگا ہوا ہے ایک محترم تو ترقی یافتہ ممالک کے نام بھی لے رہے تھے اب اگر ان ترقی یافتہ ممالک کے نام اور وہاں قوم کو مراعات کے حوالے سے لکھوں تو میرے کالم میں اتنی گنجائش نہیں ہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ ایسے بیانات پڑھ کر بہت مایوسی کا شکار ہوتا ہے ۔

کورونا ویکسین نہ لگوانے والوں کے لیے سختی کے بیانات دیے جاتے ہیں ، اچھی بات ہے کہ جن کو کورونا نہیں ہوا وہ محفوظ رہے۔ ان کی بات سے اتفاق کرتا ہوں مگر ایک خاتون وزیر ایک چینل پر فرمارہی تھیں کہ ویکسین کے (سائٹ افیکٹ) ہیں یعنی کہ اس کے برے اثرات ہیں۔ ایک جگہ کورونا ویکسین کے حوالے سے سنجیدگی سے دیکھا جارہا ہے اور عوام کو سمجھایا جارہا ہے، دوسری طرف یہ بیان سن کر لوگ سوچ میں پڑ جاتے ہیں لہٰذا برائے مہربانی بیانات بہت سوچ سمجھ کر دیے جائیں تو بہتر ہے۔

اپوزیشن کہتی ہے کہ حکومت مدت پوری نہیں کرے گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ہم 5 سال پورے کریں گے۔ اب سوچیں کہ قوم کہاں کھڑی ہے قوم تو مفلوک حال بے سر و ساماں کھڑی ہے ، اب تو اوپر والا ہی جو ہم سب کا رب ہے وہی بہتر راستہ نکالے گا قوم تو کولہو کا بیل ہے ، باقی سب آل راؤنڈر ( ہم سب جانتے ہیں) بنے ہوئے ہیں۔

سوشل میڈیا پر کراچی سے لے کر خیبر تک کی ویڈیو آن ایئر ہوتی ہے لوگوں کی ماؤں بہنوں سے پرس چھین لیے جاتے ہیں مگر عزت دار خواتین کو مزاحمت پر تھپڑ مارے جاتے ہیں۔ سوچیں کتنا دکھ ہوتا ہے ایسے لمحات دیکھ کر ۔ قانون کارپٹ کی شکل اختیار کرگیا ہے سب اس کو روند رہے ہیں خدارا قانون کا نظام بہتر طریقے سے اجاگر کیجیے جن گھرانوں پر یہ ظلم ہوتا ہے وہ کس کرب سے دوچار ہیں ، ابھی ہمارے سیاست دانوں کو یہ بات پتا نہیں ہے کہ وزراء اور مشیروں کے ہوتے ہوئے یہ قوم صبر کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے مگر اوپر والے کا ایک نظام ہے جس دن اس کا نظام حرکت میں آگیا تو پھر عدم تحفظ اس قوم کا ختم ہوجائے گا۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ اگر اس قوم کو پتہ چل جائے کل قیامت ہے تو یہ کفن بھی مہنگا کردیں گے کچھ لوگوں نے خود ساختہ مہنگائی کردی ہے۔

اس عظیم ملک میں وسائل کی کمی نہیں ہاں انسانیت کو میٹھی نیند سلا دیا گیا۔ بھلا بتائیے کیا دودھ عالمی منڈی کی وجہ سے مہنگا ہوا ہے جب کہ پاکستان کا شمار دودھ کے حوالے سے دنیا میں بہت شاندار ہے کچھ باتیں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ پہلے مہنگائی سابقہ حکومت کی وجہ سے تھی ، پھر مہنگائی مافیا کی وجہ سے ہوئی پھر مہنگائی کورونا کی وجہ سے ہوئی ، پھر مہنگائی عالمی منڈی کی وجہ سے ہوئی پھر راقم الحروف نے دنیا کے اخبارات دیکھے تو پتا چلا کہ مہنگائی تو نہ ہونے کے برابر ہے کیوں کہ پاکستان تو دنیا کے ممالک میں سب سے سستا ملک ہے جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کیا انھیں معلوم ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جو سہولیات قوم کو ہیں وہ یہاں میسر ہیں۔

لہٰذا ہمارے سیاست دانوں کو دنیا کی مثال نہیں دینی چاہیے کہ اب قوم سوشل میڈیا پر آچکی ہے پاکستان میں آج کل ہر جگہ چھاتی (خواتین) کے کینسر کے چرچے ہیں مگر آج تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ عوام پریشان نہ ہوں ہم نے کچھ اسپتالوں کو اس کام کے لیے چن لیا اگر کوئی خاتون اس کینسر میں مبتلا ہوگی تو وہاں بالکل مفت علاج کی سہولت ہوں گی کیوں کہ اس کا علاج لاکھوں میں ہوتا ہے ہاں بیانات سب دے رہے ہیں یہ کسی المیہ سے کم نہیں ہے کیا خوب شاعر نے کہا کہ

انداز بیاں اگرچہ بہت شوخ نہیں

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔