سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 21 نومبر 2021
حکیم محمد سعید کانفرنسوں میں شرکت کا معاوضہ نہیں لیتے تھے! ۔  فوٹو : فائل

حکیم محمد سعید کانفرنسوں میں شرکت کا معاوضہ نہیں لیتے تھے! ۔ فوٹو : فائل

گزرے کہاں کہاں سے، جو پہنچے ہم ’یہاں‘۔۔۔!
خانہ پُری
ر۔ ط ۔ م

یہ فروری 2011ء کے ابتدائی دن تھے۔۔۔ نام وَر صحافی مظہرعباس کے روبرو ہمارے تحقیقی مقالے کے ’زبانی امتحان‘ کے بعد گویا ’ایم اے‘ کے تمام امتحانات ختم ہو چکے تھے، یعنی اب باقاعدہ ایک رسمی تعلیم کا سلسلہ مکمل ہو چلا تھا۔۔۔ مگر ہم ’بے کار‘ گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔ لوگوں سے کترانے لگے تھے کہ جیسے دیکھو سلام دعا کے بعد چھوٹتے ہی ’آج کل کیا کر رہے ہو؟‘ کا سوال داغ دیتا ہے۔۔۔ اور ہم اپنی بے روزگاری کا اظہار کرنے میں مارے شرم کے زمین میں گڑے جاتے تھے۔۔۔

اتفاقاً انھی دنوں اسکول کے زمانے کے ایک ساتھی کے توسط سے پتا چلا کہ ایک جگہ چھوٹا سا کام ہے۔۔۔ ’اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں‘ ہم تو اس وقت ہر صورت میں کام کرنے پر گویا تُلے بیٹھے تھے۔۔۔ اس لیے ہم نے فوراً ہی ہامی بھر لی، یہ درآمدی کاسیمٹکس کا تقسیم کار ایک چھوٹا سا ادارہ تھا۔ اس کام کے لیے تعلیمی قابلیت پرائمری بھی کافی تھی، لیکن ہم بہ خوشی ’ایم اے‘ کے بعد اس کام پر فائز ہوگئے۔

ہم نے شُکر پڑھا، چلو اب جیسی بھی سہی، ’نوکری‘ تو مل ہی گئی ہے۔۔۔ یہاں ہمیں پہلی بار بہت اچھی طرح بہت سے کاسمیٹک کے لوازمات سے اچھی طرح آگاہی ہوئی کہ لپ اسٹک، لپ لائنر، لپ گلوز، ڈبل اسٹیپ مسکارا، آئی لائنر، اسپارکلنگ پینسل، آئی لیشز، فاؤنڈیشن، ویکس، فیس پاؤڈر، کلینزر اور نیل پالش وغیرہ سے لے کر سر اور داڑھی کے الگ الگ رنگ اور شیمپو، کنڈیشنر اور باڈی واش کی دسیوں اقسام تک نہ جانے کیا کیا ہوتا ہے اور کیوں کر استعمال ہوتا ہے۔۔۔

اب معاملہ یہ تھا کہ اِس دفتر کے چار، چھے لوگ اپنی چائے وغیرہ خود بناتے اور اپنے کھانے کے برتن بھی خود دھوتے تھے، ظاہر ہے کہ یہ معاملہ صرف زبانی کلامی ہی تھا، ورنہ کرنا کسی ایک ہی کو ہوتا تھا۔ بہ ظاہر عام سی لگنے والی یہ ذمہ داری اس وقت بڑی تکلیف دہ محسوس ہوتی تھی، جب یہ ذمہ اکثر ہمارے سر تھوپ دیا جاتا، خصوصاً جب رات کو ’آؤٹ ڈور‘ پر گئے ہوئے لڑکے لوٹتے اور ہمیں ہی دفتر کے باورچی خانے کی یہ ذمہ داری ادا کرنی پڑتی۔۔۔! ’’سمجھ دار‘‘ دفتری ساتھیوں نے گویا ایک ’گٹھ جوڑ‘ کر کے زیادہ تر ہمیں ہی اس کام میں جھونکا، چلیے پھر بھی شروع میں تو سلسلہ کافی حد تک ’مناسب‘ ہی رہا، پھر بدنصیبی کہیے کہ جس شخص کی جگہ ہمیں رکھا گیا تھا، وہ واپس آگیا، تو اب ہم اس ادارے میں ’مس فٹ‘ ہوگئے تھے۔۔۔ تو بس اب ہمارے بے رحم سیٹھ نے اپنے پیسے وصولنے کے لیے ہم سے دوسرے کام کرانے شروع کر دیے۔۔۔ یعنی ’آؤٹ ڈور‘ کاموں سے لے کر دفتر کے جھاڑو پونچھے تک۔۔۔!

جی بالکل۔۔۔! ’ایم اے‘ اِبلاغ عامّہ میں اول پوزیشن حاصل کرنے کے بعد ہم نے یہ سب کام بہ رضا ورغبت انجام دیے۔۔۔! حتیٰ کہ صفائی والی ماسی تک کی چھٹی کر کے اس کا صفائی کا کام بھی ہمارے معمول میں شامل کر دیا گیا۔۔۔! اب ہم باقاعدگی سے باس کے جانے کے بعد اُن کے کمرے کی جھاڑو دیتے، اور پھر نیچے بیٹھ کر گیلے کپڑے سے خوب اچھی طرح پونچھا لگاتے اور ساتھ میں ان کے پان کی پیک سے بھرا ہوا ایک بڑے سے پلاسٹک کے ڈبے کی صورت ’اگال دان‘ کا تھیلا دفتر کے سامنے کے خالی پلاٹ پر بنی ہوئی کچرا کونڈی میں جا کر پھینکتے۔۔۔! ہر چند کے اس صورت حال کے ہم تنہا گواہ تھے۔

لیکن تب بھی یہ ساری صورت حال ہماری قوتِ برداشت کو بہت زیادہ آزمانے لگتی تھی، لیکن جب تک کوئی اور نوکری نہیں ملتی، ہم نے بھی یہاں سے کسی صورت نہ نکلنے کا تہیہ کیا ہوا تھا۔۔۔ ہماری یہ ضد ہمارا ایک خودساختہ جبر تھا، لیکن پھر حسب خدشہ ہمیں یہاں سے ’جواب‘ دے دیا گیا، ہم نے درخواست کی تو ’سیٹھ‘ نے اپنی مختلف ضرورتوں کے تذکرے کرتے ہوئے ہمیں ’’نااہل‘‘ قرار دے دیا، پھر ’اچھا چلو یہ کرو‘ کہہ کر ایک بہت لمبا چوڑا سا حساب کتاب دے دیا کہ ذرا یہ تو کر کے دکھاؤ۔۔۔ ہم نے یہاں اپنی تعلیمی قابلیت فقط ’بی اے‘ بتائی ہوئی تھی، ایک نیم پڑھے لکھے سیٹھ کو یہ بتانا کہ ہم ایم اے (اِبلاغ عامہ) کر کے آئے ہیں، بالکل بے سود تھا۔

ہم نے شدید کوفت اور شکست خوردگی کے عالم میں کیلکولیٹر سنبھالا، لیکن لاکھوں کا حساب کتاب درست طور پر کرنے میں کام یاب نہ ہو سکے، اس وقت دماغ نے بھی ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ بہرحال ہمیں یہاں کچھ دن مہلت ضرور مل گئی، جو ہم نے اس لیے لی تھی کہ گھر میں کوئی موقع دیکھ کر یہ ’بری خبر‘ بتا دیں، لیکن ہم اتنے دل گرفتہ تھے کہ ایسا موقع تلاش کرنے میں ہی رہ گئے۔۔۔ اور ہماری ہمت ہی نہ ہوسکی کہ یہ بتاتے کہ ہم تقریباً دو سال بعد ملنے والی ایک معمولی ملازمت بھی چند ماہ میں گنوا بیٹھے ہیں۔۔۔ خیر، مہلت کا ایک ماہ پورا ہونے سے پہلے ہی انھوں نے ’پروانۂ رخصت‘ تھما دیا، تو اب مزید کچھ کہنے سننے کی گنجائش نہ تھی، البتہ قدم واپس گھر کی طرف نہیں اٹھتے تھے۔

اس لیے ہم اپنے کھانے کا ٹفن اٹھائے ’بیدل لائبیری‘ چلے گئے تھے، اور پھر اپنے دفتر کا وقت گزار کر گھر کی راہ لی تھی۔۔۔ یہ ساری بِپتا ہم نے صرف اپنے تک رکھی، کیوں کہ ابھی باپ کے شانے اتنے کمزور تو نہ ہوئے تھے کہ وہ ہمیں ایسی ذلت آمیز نوکری کرنے دیتے۔۔۔ یہ سراسر ہمارا اپنا انتخاب تھا، کہ اب ہم کوئی مُنّے چُنّے تو رہے نہیں تھے۔ ’ایم اے‘ کر چکے تھے، آخر کب تلک فارغ گھر میں بیٹھے رہتے۔۔۔ اور اپنے اردگرد کی روایات کے مطابق ’بنیا گیری‘ ہمیں کرنی نہیں تھی!

اسی ’کاسمیٹک فرم‘ میں کام کرنے کے دوران ہم اکثر صبح مضامین لکھتے اور یہاں آتے ہوئے ’ایکسپریس‘ کے دفتر میں پہنچاتے ہوئے آتے، جو احفاظ الرحمن صاحب سے ہمارے باقاعدہ تعارف کا ذریعہ بھی بنے۔ اس کے ساتھ ہی اپنے شعبے کی نوکری کے لیے کئی اداروں میں اپنے کوائف بھی بھجواتے رہتے، بہت سی جگہوں پر انٹرویو کے نام پر جوتیاں بھی چٹخائیں۔۔۔ ناظم آباد میں کوئی میاں بیوی اپنے گھر سے ہی ایک پرچا ’’بچوں کا اخبار‘‘ نکالنا چاہ رہے تھے، لیکن ہمیں پیسے بہت ہی کم دے رہے تھے، ہماری بات نہیں بنی۔۔۔ آئی آئی چندریگر روڈ کے کنارے پر رات میں آسیب زدہ دکھائی دینے والی ایک پرانی عمارت میں قائم ’مشرق‘ اخبار میں کمیشن پر اشتہار لانے کا کام قبول کرنے کے لیے بھی ہم نے بہت سنجیدگی سے سوچا تھا، لیکن پھر چھوڑ دیا اب کسی برائے نام یا ’ڈمی‘ اخبار میں اشتہار دینے کے لیے بھلا ہم کیسے کسی کو تیار کر سکتے تھے۔۔۔

ہم گرمی کی دھوپ میں فریئر مارکیٹ پر واقع ایک بلیک اینڈ وائٹ ’’تعلیمی اخبار‘‘ ہفت روزہ ’پیج فور‘ بھی گئے، ہمیں صرف تعلیمی خبروں کے لیے مختص یہ اخبار بہت بھایا تھا اور ہم نے یہاں کے لیے ہفتے بھر کی اہم تعلیمی خبریں باقاعدہ بنا بنا کر بھی دی تھیں۔۔۔ لیکن نہ کبھی ہمیں اس کے پیسے ملے اور نہ یہ ہمارے نام سے چھپتی تھیں۔ دوسری طرف اخبار کے ’’مدیر‘‘ کا سارا زور اسی بات پر ہوتا تھا کہ شہر کے نجی اسکولوں سے ’کام‘ لے کر آؤ، ان کی ہم نصابی سرگرمیوں کی ایک صفحے پر تصویری رپورٹ چھپے اور پھر اُن کے پیسے کھرے ہوں۔۔۔ ہمیں یہ خیال ذرا سا بھی نہ بھایا اب بھلا کسی اسکول کی تقریب کی بلیک اینڈ وائٹ تصویریں ایک نہایت غیرمعروف اخبار میں چھپوا کر کَے رکعت کا ثواب۔۔۔؟ بس اس اخبار کا مقصد تعلیمی صحافت کے نام پر یہی کچھ کرنا تھا، سو ہم اس سے بھی دور ہو رہے۔۔۔

حکیم محمد سعید کانفرنسوں میں شرکت کا معاوضہ نہیں لیتے تھے!

سعدیہ راشد

جب غیرملکی کرنسی پر پابندیاں تھیں اور بیرونی سفر کے لیے اسٹیٹ بینک سے مقررہ زرمبادلہ ملتا تھا، تو ابّا جان (حکیم محمد سعید) سفر سے واپس آکر بچا ہوا ایک ایک ڈالر واپس کر دیتے تھے۔ بعض اوقات تو جتنا فارن ایکس چینج لے گئے ہیں، وہ سارا کا سارا واپس کر دیا ہے۔ ان کا کوئی فارن اکاؤنٹ نہیں تھا۔ انھیں بین الاقوامی کانفرنسوں میں بلایا جاتا، یونیسکو، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، ’یونیسف‘ اسلامی ممالک کی تنظیم اور دوسری عالمی تنظیموں اور اداروں کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے بلایا جاتا اور سفر خرچ پیش کیا جاتا، ابا جان لکھ دیتے کہ اس کی ضرورت نہیں۔

میں اپنے خرچ پر آؤں گا۔ کانفرنسوں اور سیمیناروں میں مقالوں پر معاوضہ پیش کیا جاتا۔ عموماً یہ اچھی خاصی رقم ہوتی، وہ اسے قبول نہیں کرتے۔ کہہ دیتے کہ علمی کاموں کا معاوضہ لینا مجھے پسند نہیں۔ زندگی کے تمام معاملات میں انھوں نے ہمیشہ اصول پسندی اور دیانت داری سے کام لیا اور اسی نے ان میں وہ اخلاقی جرأت پیدا کر دی تھی کہ وہ ہر بددیانتی کو ہر غلط کام کو ٹوک دیتے تھے اور لوگ اسے خاموشی سے برداشت کر لیتے تھے۔

(ایک انٹرویو سے اخذ کیا گیا)

’’مکافاتِ محاورات‘‘
امجد محمود چشتی، میاں چنوں

بے شک زمانے میں تغیرات کو کمال کا ثبات ہے اور وقت کے ساتھ اقدار، روایات سب کچھ بدلتا رہتا ہے۔ ایسے میں اردو محاورات وضرب الامثال بھی مکافات سے دو چار کیوں نہ ہوں۔ آئیے چند محاورات کی بات کریں، جن کے مفاہیم بدل چکے ہیں اور اب یوں لکھنے اور پڑھنے میں مضائقہ نہ ہوگا۔

٭ چراغ تلے اجالا
گئے وقتوں میں رات کو روشنی کے لیے استعمال ہونے والے دیے، چراغ، لیمپ اور لالٹین کی بناوٹ ہی ایسی تھی کہ ان کے نیچے اندھیرا رہتا تھا اور باقی ماحول روشن رہتا، مگر آج کے برقی چراغوں کا معاملہ الٹ ہے اور ان کی روشنی کا رخ نیچے ہوتا ہے، بلکہ اکثر کے سر پر کیپ ہونے کے موجب چراغوں کے اوپر اندھیرا چھایا رہتا ہے۔

٭ ’علاج‘ پرہیز سے بہتر ہے
بیماریوں اور حالات کی ابتری سے بچنے کے لیے حفظِ ماتقدم سماجی عقیدے کی مانند تھا۔ تاہم آج کے تیز مشینی دور میں اتنا وقت، صبر اور قناعت کہاں؟ اب کون وسائل کے ہوتے ہوئے ہمہ وقت معاذ اللہ کہتا پھرے، گر آنچ آنے کا اندیشہ جنم لے، تو وسائل سے آسان حل ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ مثلاً رشوت لیتے پکڑا گیا، شخص، رشوت دے کر چھوٹ سکتا ہے، تو پھر رشوت لینا کیوں چھوڑے۔ اسی طرح جو کھانے کو جی مانگے کھاتے جائو۔ کچھ ہوا تو میڈیکل کی حیرت انگیز سہولتیں کس لیے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ اس د ور میں پرہیز کے نام پر کُڑھنے سے کیا فائدہ۔

٭ اتفاق میں ’ٹینشن‘ ہے!
مل جل کر کام کرنا اور زندگی گزارنا باعثِ برکت و سہولت تھا۔ پر فی زمانہ مشترکہ خاندان اور اکٹھ سبھی کا منہ چڑاتا ہے۔ ایک ہی کمرے میں ہنسی خوشی رہنے والوں کو اب الگ الگ کمرا اور تخلیہ درکار ہے۔ خودمختاریوں کو خطرات لاحق ہیں اور جوائنٹ فیملی میں چھپ چھپ کر اپنے کمروں تک گرہستی و ماکولات کی رسد نہایت تکلیف دہ امر ہیں۔ لہٰذا اب اتفاق میں شدید ٹینشن ہی پنپتی ہے اور علاحدگی پسند ساسیں، دیورانیاں اور بہوئویں اس محاورے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے بر سرِپیکار ہیں۔

٭ نہ ہو گا نو من تیل، رادھا پھر بھی ناچے گی
اس محاورے کے معانی کسی کام کے لیے انتہائی مشکل شرط رکھنے کے ہیں، لیکن آج بھلے پلے دھیلا بھی نہ ہو، میلہ دیکھنے کا جنون معراج پر ہے۔ اپنے ہاں تو یہ کچھ زیادہ ہی صادق ہے اور یہاں رادھائیں تیل گیس بجلی اور غذا کی حالتِ زار کے باوجود ناچنے پہ آمادہ، بلکہ بضد ہیں۔

٭ لالچ بڑی ’جزا‘ ہے
اب لالچی کتے کا فلسفہ بھی بدل چکا ہے اور لالچ کو کچھ حاصل کرنے کے لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ ورنہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے قناعت کیے بیٹھنے سے کچھ نہیں ملتا۔ ترقی اور آگے بڑھنے کے لیے لالچ بجا ہے۔

٭ اب پچھتائے کیا ہووت جب ’’ایک رہا نہ پیج‘‘
وطنِ عزیز میں ’پیج‘ یا صفحے کو تقدیس حاصل ہے اور ایک صفحے پر ہونا، سعادت و بقا کی علامت ہے، مگر لاکھ احتیاط کے باوجود اس پیج سے بندہ پھسل کر تختۂ دار یا آر یا پار بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا پیج پر قدم جمانے کے لیے دن رات ایک کرنا لازم ہے۔ پیج ایک نہ رہنے کی صورت میں پچھتانا مطلقاً بے سود ٹھیرتا ہے۔

٭ بندر کی بلا، طویلے کے سر
ماضی میں طویلے میں رکھے گئے گھوڑوں کو وبائوں سے بچانے کے لیے باہر بیٹھا بندر وبا کا شکار ہوتا، مگر اصطبل محفوظ رہ جاتا تھا۔ پر اب بڑے لوگ خود کو بچانے کے لیے پوری قوم کی قربانی دے دیتے ہیں۔ ایک مچھلی سارے جَل کو خراب کرتی ہے۔ اسے سیاست سے جوڑنا ہرگز مناسب نہ ہوگا۔

٭ ہنوز تبدیلی بسیار دور است
دلی واقعی دور تھا اور اب بھی ہے، مگر تبدیلی آنے کا یقینِ کامل تھا۔ خوب پرکھنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ نہ صرف تبدیلی دور است، بلکہ تبدیلی ہمارے گھروں اور اداروں میں بال کھولے سو رہی ہے۔
٭ ہاتھ کنگن، کچھ اور بھی لا
مطلب یہ کہ صاحبانِ دولت کو چھوٹی موٹی اشیا کی حاجت نہیں رہتی، لیکن اب کوئی جتنا متمول ہے، اتنا ہی مزید حصول کا خواہاں ہے۔ گویا ’’سم تھنگ مور‘‘ (Some thing more) یعنی ’’کچھ اور‘‘ کا دور ہے۔ ہوس نصیب نظروں کو کہیں قرار نہیں۔ کاسۂ چشمِ حریصاں پُر ہونے کا خوگر ہے، نہ آج کا قیس فقط لیلیٰ پر قانع ہے۔

٭ ایک بیمار سو انار
کسی قیمتی چیز کے متعدد امیدوار ہو سکتے ہیں۔ یہ محاورہ اس لحاظ سے اب بھی درست سہی، پر کہیں کہیں یہ بھی مکافات کا شکار ہے۔ جیسے کوئی گمبھیرتا پیش آجائے یا کوئی بیمار ہو تو ہزاروں مشورے، حل اور نسخے ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت ’سوشل میڈیا‘ پر کھلے بندوں دست یاب ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔