زباں فہمی : شکارپور.....اور ....شکارپور

سہیل احمد صدیقی  اتوار 21 نومبر 2021
بیک وقت پاکستان کے سیکڑوں اخبارات میں تحقیقی مضامین اور کالمز لکھنا بہت بڑی بات ہے۔ فوٹو : فائل

بیک وقت پاکستان کے سیکڑوں اخبارات میں تحقیقی مضامین اور کالمز لکھنا بہت بڑی بات ہے۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی 124

دنیا بھر میں خطے اور علاقے کے فرق سے، ایسے بہت سے لطائف رائج ہیں جنھیں کہیں محض اَزراہِ تمسخر سن کر نظراَنداز کیا جاتا ہے تو کہیں وہ لطیفے اُسی قوم کے مجموعی مزاج یا عمومی سوچ کے عکاس بھی سمجھے جاتے ہیں، نیز کوئی کوئی لطیفہ کسی قوم کی کسی خصوصیت سے یوں جُڑا ہوتا ہے کہ اُسے گویا سند کا درجہ مل جاتا ہے۔

نوبت بہ ایں جا رسید کہ بعض اقوام پر اُن کے مخالفین نے بے وقوف، کنجوس یا مغرور کی چھاپ لگا دی۔ یہ سلسلہ مشرق ومغرب میں یکساں ہے۔ مدتوں پہلے انگلستان [England] والوں نے آئرستان[Ireland] والوں کو لطائف کے ذریعے بے وقوف اور اسکاٹ لینڈ[Scotland] کے باشندوں کو کنجوس مشہور کردیا۔

{اول الذکر زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے، بیسویں صدی کے سب سے بڑے انگریزی ڈراما نگار، آئرش نژاد، جارج برنارڈ شا [George Bernard Shaw: 26 July 1856 – 2 November 1950] نے انگریزی کو ’’پاگل آدمی کی زبان‘‘ قرار دیا تھا، اُنھی کا لطیفہ ہے کہ Fish (مچھلی) کو ہجے بدل کر GHOTI لکھا جائے تب بھی فِش ہی تلفظ ہوگا اور یہ بھی برنارڈ شا نے کہا تھا کہ یہ کیسی زبان ہے جس میں B,U,Tکو ملاکر لفظ بنائیں تو زبر سے بَٹ کہتے ہیں، مگر P,U,Tکو ملاکر لفظ بنائیں تو پَٹ نہیں کہہ سکتے}۔ آئرش عوام کے متعلق گھڑکر پھیلائے گئے لطائف میں شاید سب سے مشہور یہ ہے:

دودوست، پیڈی اور مِک [Paddy & Mick] کہیں سڑک پر چلے جارہے تھے۔ پیڈی کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا جس میں میٹھے پیڑے یعنی ڈونَٹ[Doughnut] رکھے ہوئے تھے۔ پیڈی نے مِک سے کہا:’’اگر تم ٹھیک ٹھیک اندازہ لگاؤ کہ اس تھیلے میں کتنے پیڑے ہیں، تو میں تمھیں دونوں ہی دے دوں گا‘‘۔

ایک اور لطیفہ انھی کے متعلق:

کسی شراب خانے میں ایک مسخرا لوگوں کو آئرش لوگوں کی بے وقوفی سے متعلق لطیفے سناکر محظوظ کررہا تھا۔ ایسے میں ایک بزرگ کو بہت غصہ آیا اور چِلّا کر بولے، ’’تم یہ کہنا چاہتے ہوکہ ہم سب گونگے اور بے وقوف ہیں۔ میں تمھاری ناک پر گھونسا ماردوں گا‘‘۔ مسخرے نے ادب سے معذرت کرتے ہوئے کہا، ’’معافی چاہتا ہوں، بزرگوار! میں تو آپ کے قدموں میں بیٹھے ہوئے اُس آدمی سے مخاطب ہوں‘‘۔

آئرش لوگوں کے لیے اظہارِنفرت و تعصب کو انگریزی میں Hibernophobia کہا جاتا ہے۔

اسکاٹسScots] [ یا اسکاٹش [Scottish] کے لیے مشہور کردہ لطائف میں سب سے زیادہ دل چسپ یہ ہے:

ایک ریستوراں کے باہر لکھا ہوا تھا، ’’کھانا آپ کھائیں، پیسے آپ کا پوتا دے گا‘‘۔ ایک اسکاٹ بڑے مزے سے اندر گیا اور خوب ڈٹ کر کھایا پیا، باہر جانے لگا تو پیچھے پیچھے بیرا آیا اور اسے ایک پرچے پر کھانے کا معاوضہ لکھا ہوا تھما دیا۔ وہ بہت ناراض ہوا کہ یہ کیا، آپ نے تو باہر لکھ کر لگایا ہوا ہے ……بیرا بولا، ’’جناب! یہ Billآپ کا نہیں، آپ کے دادا کا ہے‘‘۔

اسکاٹش لوگوں سے اظہارِنفرت کو Scotophobia کہا جاتا ہے۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ انگلستان میں بھی ایک جگہ ہے Gotham (گوٹم) جہاں کے رہنے والے بے وقوف مشہور ہیں۔ ویسے امریکی انگریزی میں اس کا ایک مطلب اور ہے۔ امریکی صحافی اپنے شہر نیویارک کو بھی نمعلوم کیوں Gotham کہتے ہیں۔ چلیے حساب برابر ہوگیا۔

ہمارے خطے یعنی جنوبی ایشیا میں ایسے کئی شہر، قصبے، گاؤں یا علاقے موجود ہیں جن کے باسیوں کا دوسروں نے کسی سبب، مضحکہ اُڑانے کے لیے کوئی نہ کوئی لطیفہ مشہور کردیا۔ ایک بہت مشہور ، مگر ’’ناگُفتَنی‘‘ قسم کے لطیفے کا اختتام یوں ہوتا ہے: وہ وقت گئے جب شِکارپور میں بے وقوف ہوا کرتے تھے…اب نہیں!

اب وہی لطیفہ اپنے نجی حلقے میں سنایا جائے تو پہلے لوگ ہکّا بکّا ہوکر پوچھتے ہیں، یہ اپنا شکارپور؟ یعنی صوبہ سندھ کا مشہور شہر…پھر اُنھیں بتانا پڑتا ہے کہ نہیں بھئی یہ شکارپور تو ہندوستان میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ مغل بادشاہ جہانگیر یہاں شکار کھیلنے آیا تو اس جگہ کا نام شکارپور پڑگیا اور اسی حکایت کے مطابق، یہاں کے باشندوں نے مغل سرکار کو چُنگی یعنی خراج [Toll tax] دینے کی بجائے، اس سے بچنے کے لیے یہ حِیلہ کیا کہ احمقانہ حرکات وسکنات کرنے لگے، لہٰذا انھیں بے وقوف سمجھا اور کہا جانے لگا۔

یہ سینہ گزٹ ہے اور اس کی تاریخی سند، فی الحال خاکسار کے پاس نہیں۔ بے وقوف شخص کو طنزاً شکارپوری کہنا مدتوں سے رواج میں ہے، مگر اردو کی اولین Slang لغت کے فاضل مدیر کے علم میں نہیں، لہٰذا اس اہم کتاب میں اس ترکیب کی تلاش فضول ہے۔ ہاں آگے چل کر ہم کُرسی کی بات کریں گے تو وہاں شکارپور کے بے وقوفوں کا ذکر بھی ہو گا۔

قارئین کرام یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ہندوستان میں شکارپور نامی مقامات کئی ایک ہیں…پھر قدرتی طور پر سوال ہوتا ہے کہ وہ شکارپور کون سا ہے جس پر بے وقوفی کا ٹھپہ لگایا گیا ؟……یہ شکارپور، ضلع بلندشہر (اُترپردیش، ہندوستان) کا قصبہ ہے جو اِسی نام کی تحصیل کا صدرمقام بھی ہے۔ یہ جگہ قومی شاہراہ پر بلندشہر اور بدایوں کے درمیان واقع ہے۔ تحصیل میں شامل خورجہ (خُرجہ) کے برتن مشہور ہیں۔ اس قصبے یا شہر تک رسائی کے لیے خورجہ سٹی ریلوے اسٹیشن اور اندراگاندھی انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے سوار ہوا جاتا ہے۔

{اسی ریاست کے ضلع مظفرنگر میں ایک قصبہ شکارپور ہے، جون پور میں ایک گاؤں کا نام شکارپور ہے، سونیپور کے ایک گاؤں کا نام شکارپور ہے اور دہلی میں نجف گڑھ کے ایک گاؤں کو بھی شکارپور کہا جاتا ہے۔ علاوہ اَزیں، بِہار میں ایک انتخابی حلقے کا نام شکارپور ہے، جبکہ ضلع سارَن میں ایک گاؤں اسی نام سے موسوم ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ ریاست مغربی بنگال میں، کُوچ بِہار کے ایک گاؤں کا نام بھی شکارپور ہے۔ ضلع کَچھ، گجرات میں ہڑپہ تہذیب کے آثار پر مبنی ایک گاؤں کا نام شکارپور ہے۔ کرناٹک میں شموگا کے ایک قصبے کا نام شکارپور ہے، جبکہ کپورتھلہ، بھارتی پنجاب میں شکارپور، سلطان پور لودی کے ایک گاؤں بھی شکارپور کہلاتا ہے۔ (لودھی غلط ہے۔ س ا ص)}۔ شکارپور، بلندشہر کی آبادی 2011ء کی مَردُم شُماری کی رُو سے 33,130 نُفُوس پر مشتمل ہے۔

ہندوستانی فلمی صنعت کے ایک ممتاز فلم ساز، ہدایت کار، مصنف و اداکار اداکار اے۔شاہ شکارپوری بھی اپنے وقت میں بہت مشہور تھے۔ اُن کا اصل نام عبداللطیف شاہ اور تعلق جہلم سے تھا۔ اُن کی فلموں میں نائلہ، گھونگھٹ، سلمیٰ، حیدرآباد کی نازنین، منشی توتارام اور چوڑیاں شامل تھیں۔

ہندوستان کے ایک مقام کُرسی کے لوگوں کو بھی سادہ لوحی کے سبب، بے وقوف مشہور کیا گیا۔ کُرسی نامی شہر اور گاؤں ضلع بارہ بنکی، ڈویژن لکھنؤ، اُترپردیش (ہندوستان) میں واقع ہے۔ فرہنگ آصفیہ میں کُرسی کے باب میں لکھا ہے:

کُرسی: لکھنؤ کے قریب ایک گاؤں ہے جو اپنے باشندوں کی بے وقوفی کے سبب، شکارپور اور بارہ وغیرہ سے زیادہ مشہور ہے۔ کُرسی کا احمق: ا)۔ اسم مذکر: نہایت احمق، اَزحَد گاؤدی، بالکل مُورکھ، کُرسی قصبے کا رہنے والا، جس طرح شکارپور کے چے…..مشہور ہیں، اسی طرح کُرسی کے احمق۔ میری بزرگ معاصر محترمہ عثمانہ جمال صاحبہ (مقیم فِینکس، ایری زونا، امریکا) نے میرے استفسار پر فرمایا:’’اپنے بچپن میں ہم نے یہ جگہ دیکھی ہے اپنی خالہ اور نانی کے ساتھ بہت جاتے تھے۔ ہری بھری بہت خوبصورت جگہ تھی۔

بہت بڑے بڑے آموں کے باغ تھے۔ ہمارے رشتہ دار تعلقہ دار یا زمیں دار تھے۔ بہت مہمان نواز لوگ تھے۔ ایک بات وہاں کی بہت مشہور تھی کہ کرسی والے بیوقوف کہلاتے تھے۔ ان کی ہر بات پر لوگ ہنستے اور مزاق اڑاتے تھے کہ کرسی کے ہو نہ تب ہی ایسی حرکت کررہے ہو۔ اگر کوئی اور شخص بے وقوفی کی حرکت کرتا جس کا تعلق کرسی سے نہیں تھا تو اس سے کہا جاتا تھا کیا کرسی سے آئے ہو؟ کرسی کے قرب وجوار کے لوگ کرسی والوں کا بے وقوف کہہ کر مزاق اڑاتے تھے۔ جو ہم لوگوں کو بہت برا لگتا تھا۔ اب پتہ نہیں کیا حال ہے کیونکہ وہاں جانا اور وہاں کے لوگوں سے ملنا نہیں ہوتا ہے‘‘۔

(غالباً یہاں سید احمددہلوی صاحب نے ’’بارہ‘‘ کہہ کر ’’بارہہ‘‘ سے مراد لی ہے، جسے باہرہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے متعلق اتنا ہی پتا چلا ہے کہ یہ مقام مظفرنگر میں واقع تھا۔س ا ص)۔

جبکہ اسی ڈویژن کے ضلع ہَردوئی میں ایک گاؤں کا نام کُرسی ہے نیز ایک اور کُرسی، ضلع سِیتاپور میں واقع ہے۔ یہاں ایک عجیب انکشاف یہ ہے کہ جولان یا گولان (مقبوضہ فلسطین) کی راہ میں، بُحَیرہ گلیلی [Sea of Galilee] کے پاس، ایک جگہ کا نام کُرسی ہے اور اسے یہودونصاریٰ میں بہت مقدس مقام کا مرتبہ حاصل ہے، کیونکہ اس سے منسلک ایک روایت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ایک معجزہ بھی منقول ہے۔ (مکرروضاحت: یہ لفظ بُحَیرہ ہے: بے پر پیش، حے اور رے پر زبر کے ساتھ:BUHAIRA)۔

ہندوستانی ریاست بِہار کے ضلع مظفرپور میں واقع ایک علاقے، پارُو  (Paroo/ Paru)کے متعلق بھی اہلِ بِہار کے یہاں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہاں کے لوگ بے وقوف ہوتے ہیں، مگر اس کے متعلق کہیں سے کوئی دستاویزی یا حکایتی تصدیق نہیں ہوسکی۔ اس کے علاوہ بھُوٹان (Bhutan) کے دارالحکومت تھمپھو(Thimphu) کے مغرب میں واقع ایک شہر کا نام پارو (Paro) ہے جو مذہبی، ثقافتی وتجارتی مرکز ہے اور جہاں ملک کا واحد ہوائی اڈہ بھی موجود ہے۔ نیپال والے اس کا ذکر خوب کرتے ہیں اور نیپال، گیا، بِہار سے قریب ہے، مگر یہ بات بھی ابھی تک ثابت نہ ہوسکی کہ پارو کا استعارہ استعمال ہوتا ہے یا پارُو کا۔

بمبئی میں ایک علاقے علی باغ کے لیے بھی اسی قسم کی باتیں کی جاتی ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ معاصر جب وہاں گئے تو اُنھیں یہی تأثر ملا کہ علی باغ کے باشندوں کو بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔ بقول محترم حامداقبال صدیقی، معاون مدیر ماہنامہ شاعر (بمبئی)، نبیرہ علامہ سیمابؔ اکبرآبادی:’’علی باغ ایک قدیم بستی ہے۔ یہاں کے پرانے باشندوں کی اپنی تہذیب اور اپنی بولی تھی اور شاید اب بھی کسی حد تک باقی ہے۔ یہ چھوٹی سی ساحلی پٹی، ریاست مہاراشٹر کے ضلع رائے گڑھ کا حصہ ہے۔ یہاں کے پرانے باشندے بہت سیدھے سادے ہوا کرتے تھے، انگریزوں اور اطراف و اکناف کے زمینداروں نے انھیں بہت بے وقوف بنایا، اسی مناسبت سے یہ جملہ عام ہوگیا،’کیا میں علی باغ سے آیا ہوں‘، یعنی کیا تم مجھے اتنا بے وقوف سمجھتے ہو؟‘‘۔

وطن عزیز کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر کے پشتونوں کو بھی بے وقوف مشہور کیا گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک ناشر نے بچوں کی ایک درسی کتاب میں بونیر کے لوگوں کی بے وقوفی کے لطیفے شامل کرلیے۔ ان معاملات میں بہت احتیاط اور تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے لائق فائق خوردمعاصر پَرویزبونیری نے اس گھٹیا حرکت کے خلاف قلمی تحریک چلائی اور دیگر لوگوں نے ناشر کو 2 ارب روپے ہرجانے کا قانونی نوٹس بھیج دیا، جس کے بعد اُس نے معافی طلب کی۔ پرویز صاحب نے خاکسار کے استفسار پر بتایا کہ ’’واقعہ کچھ یوں ہے کہ (علاقہ) بونیر، ریاست سوات کے ماتحت تھا، جہاں والی صاحب کی حکومت تھی، یہاں کے لوگ محنتی اور جفاکش تھے اور انگریزوں کے خلاف جنگ میں ان لوگوں نے نام کمایا تھا، جس وجہ سے سوات کے لوگوں کو بونیر کے لوگوں سے حسد تھا، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس زمانے میں سوات کے لوگ تعلیم کے میدان میں بونیر سے آگے تھے۔

(سابق ریاست سُوات کے حکمراں کو ’’والی‘‘ کہا جاتا تھا۔ س اص)۔ ایک دفعہ یوں ہوا کہ والی ٔ سوات اپنی گاڑی میں بونیر آئے، کچی سڑک پر پہاڑی میں کیچڑ کی وجہ سے ان کی گاڑی پھنس گئی۔ یہاں کے لوگوں نے کیچڑ میں گاڑی کے ٹائروں کے آگے خشک گھاس ڈال دیا (دی)، تاکہ گاڑی آسانی سے حرکت کرتے ہوئے کیچڑ سے نکلے۔ والی صاحب کے حواری جب واپس گئے تو انہوں نے یہ پراپیگنڈا رچایا (کیا) کہ بونیر کے لوگوں نے گاڑی کے آگے گھاس ڈالا (ڈالی)، مطلب یہ کہ گاڑی کو جانور سمجھ کر گھاس ڈال دیا (دی)، وہ لوگ پراپیگنڈے میں بھی کافی تیز تھے، جس وجہ سے یہ بات مشہور ہوگئی کہ بونیر کے لوگ احمق ہیں، حالانکہ اس میں کوئی صداقت نہیں‘‘۔

پرویز بونیری کہتے ہیں:’’تاریخ پر نظر ڈالیں تو اہل بونیر نے دنیا میں ہر فیلڈ میں نام کمایا ہے۔ امبیلہ جنگ (1862) جسے اہل یورپ نے تاریخ میں اپنی واحد شکست تسلیم کی ہے۔ بحوالہ The Pathans by Olaf cairo۔ اس کے علاوہ اہل بونیر نے سکھوں کے خلاف 1827 میں مسلح جہاد کیا ہے۔ جدید دور میں دیکھیں، زندگی کے ہر فیلڈ میں اہل بونیر آپ کو ملیں گے۔ ملائشیا کے سفیر نے بونیر کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ بونیر ہمیں Mini Malaisia لگ رہا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں ہر شعبہ زندگی میں بونیر والے موجود ہیں۔ الحمدللہ! آج بھی بی بی سی لندن میں بونیر کے صحافی شاہین بونیری خدمات انجام دیتے ہیں۔

وائس آف امریکہ میں رحمن بونیری وہاں مقیم ہیں اور خدمات انجام دیتے ہیں، وہ باقاعدہ وائس آف امریکہ ڈیوہ ریڈیو سے پشتو کے مبصر اور نیوز کاسٹر ہیں۔ خیبر ٹیلی وژن پشاور، اسلام آباد اور دوبئی میں سب سے زیادہ Active کام کرنے والے بونیری ہی ہیں، اور بحمداللہ، آپ کے شاگرد محمدپرویز بونیری نے درس تدریس، ادب اور صحافت میں پورے پاکستان اور ہندوستان میں خوب نام کمایا ہے۔

بیک وقت پاکستان کے سیکڑوں اخبارات میں تحقیقی مضامین اور کالمز لکھنا بہت بڑی بات ہے۔ لہٰذا، بیوقوفی سے متعلق جو افواہیں پھیلائی جارہی ہیں، اس میں ذرا بھی صداقت نہیں ہے، اور اس بابت مذکور ناشر نے میڈیا کے ذریعے اپنی بے بنیاد بات کی معافی بھی مانگی تھی۔ میری کتاب مشعل اردو کی ایک سال میں ایک ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں۔ پورے پاکستان میں آج بھی لوگ ڈیمانڈ کرتے ہیں، ہمارے پاس پہلا ایڈیشن ختم ہوا ہے۔

اچھا، اہل بونیر کی مہمان نوازی سے بھی لوگوں کو حسد ہے‘‘۔ یہاں انھوں نے بتایا کہ دیگر سیاحتی مقامات کے برعکس، بونیر میں لوگ سیاحوں کو بجائے کسی ہوٹل میں ٹھہراکر اُن سے خدمات کا معاوضہ وصول کرنے کے، اپنے حُجرے میں ٹھہراتے ہیں، خواہ اُن کا قیام کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا:’’جی، اور آپ کراچی بار میں کسی سے دوست سے پوچھیں، وکلاء میں کتنی تعداد ہے، بونیر والوں کا، اور کیسا کردار ہے، مطلب قائدانہ کردار ادا کرتے ہیں کہ نہیں‘‘۔

کہا جاتا ہے کہ الہ آباد کے ایک مقام ’’چِیل‘‘ کے لوگ اپنی تیزی وچالاکی کے لیے مشہور ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہی بات صوبہ سندھ کے شہر، شکارپور کے لیے بھی زباں زدِخاص وعام ہے جو کبھی ’’سندھ کا پیرس‘‘ کہلاتا تھا۔ شِکارپور ضلع اور ریلوے اسٹیشن ہے۔ شکارپور کی مٹھائی اور اَچار بہت مشہور ہیں۔ کراچی کے علاقے طارق روڈ پر واقع ایک شکارپوری ہندو سندھی حلوائی کی دکان مدتوں بہت مشہور رہی۔

یہاں کے مشاہیر میں امیر بہادرخان داؤدپوتہ، کلہوڑا حکمراں، ٹالپُر حکمراں، ہندوستانی قانون داں رام جیٹھ مَلانی، ماہر ِزچہ وبچہ ڈاکٹر اِندراہندوجا، ماہرامراض اطفال ڈاکٹر زینت عیسانی، سیاست داں اللہ بخش سومرو، الہٰی بخش سومرو، مولابخش سومرو، آغا سراج درانی اور ودیگر متعدد، تعلیم کے شعبے کی مایہ ناز شخصیات کے علاوہ، اردو شعروادب وصحافت، نشریات کاری کا ایک معتبر نام شہاب الدین شہابؔ شامل ہیں۔ شہابؔ بھائی مادری زبان اردو کے علاوہ فارسی، انگریزی اور سندھی پر عبور کے حامل، سندھی اہل زبان سے زیادہ واقف، ہندی اور عربی سے بنیادی شُدبُد رکھتے ہیں۔ انھیں پاکستان ٹیلی وژن اور ریڈیوپاکستان میں Outstanding category دی گئی ہے۔

تشکر: اس اہم موضوع سے متعلق مواد کی تلاش میں میرے حلقہ احباب (بشمول فیس بک/واٹس ایپ حلقے) کے معززاراکین ڈاکٹرفریداللہ صدیقی، حامداقبال صدیقی (پونہ، ہندوستان)، شہاب الدین شہابؔ، پرویز بونیری، نویدالظفر سہروردی، ڈاکٹر افروز عالم (سعودی عرب ) اور محترمہ عثمانہ جمال صاحبہ (امریکا) کا تعاون حاصل نہ ہوتا تو یہ کالم ہرگز موضوع سے انصاف نہ کرپاتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔