کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 21 نومبر 2021
 فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

غزل
ننی دیوار میں بھی تجھ سے دریچہ نہ بنا
اس لیے تو مرے دل تک ترا رستا نہ بنا
قد سے چھوٹے ہیں مگر مجھ سے بڑی نفرت ہے
پیڑ کو کہتے ہیں اس کے لیے سایا نہ بنا
اتنے تو یار ترے ہم بھی چلن جانتے ہیں
باغ یہ سبز دکھا کر ہمیں صحرا نہ بنا
روز مجھ سے یہ اداکاری نہیں ہو سکتی
اس لیے میرا جہاں بھر میں تماشا نہ بنا
تو نے بے کار ہیولا سا بنا ڈالا ہے
ایک حصہ بھی مرے خواب کا پورا نہ بنا
زندگی کیا ہے بتانا تھا کسی کو میں نے
لکھنے بیٹھا ہوں تو اس پر کوئی جملہ نہ بنا
کتنی نسلیں یہی کہتے ہوئے مر جائیں گی
اگلے لوگوں سے کبھی اچھا زمانہ نہ بنا
آئنہ سامنے ہوتے ہوئے اُن سے عادسؔ
کوئی چہرہ نہ بنا ،کوئی شناسا نہ بنا
(امجد عادِس ۔راولاکوٹ)


غزل
اک دو نہیں ہزاروں کو پردیس کھا گیا
گاؤں کے چاند تاروں کو پردیس کھا گیا
سڑکوں پہ پھر رہے ہیں یہ بیکار و مضطرب
سردی میں اشک باروں کو پردیس کھا گیا
فکرِ معاش ایک اذیت ہے مستقل
غربت میں غم کے ماروں کو پردیس کھا گیا
ہم تو رہے ہیں شہر کے لوگوں میں عمر بھر
لیکن ہمارے یاروں کو پردیس کھا گیا
اپنوں کی کج روی سے مرے ہیں یہ بدنصیب
افسوس بے سہاروں کو پردیس کھا گیا
خط بھی نہ آئے ایک زمانے کے بعد بھی
بچپن کے شہر داروں کو پردیس کھا گیا
کتنی اداسیاں ہیں مضافات میں اسدؔ
الفت میں بے قراروں کو پردیس کھا گیا
(اسد اعوان۔ سرگودھا)


غزل
اسے رہگزر کوئی کھا گئی یا بچھڑ کے اپنے ہی گھر گیا
’’وہ جو عمر بھر کی رفاقتوں کا تھا مدعی وہ کدھر گیا‘‘
وہ جو خواب تھے وہ بکھر گئے وہ جو آس تھی وہ سمٹ گئی
مجھے خوف جس کا تھا ہر گھڑی، مرا ہم نوا وہی کر گیا
یہ نئے زمانے کی ریت ہے تری کیا خطا تجھے کیا کہوں
تجھے دل سے جس نے لگایا تھا وہی تیرے دل سے اتر گیا
نہیں سہل عشق کی رہگزر،میں الم نصیب و خطا سرشت
اے نئے نئے سے مسافرو! جو چلا تو چل کے بکھر گیا
کبھی صحنِ دل میں اداسیاں جو بڑھیں تو ساز میں ڈھل گئیں
کبھی غم جو میری اساس ہے مری چشمِ تر میں ٹھہر گیا
مری ذات مشتِ غبار ہے ترا اختروں میں شمار ہے
ذرا یہ بتا کہ بچھڑکے تو،کہاں رفعتوں پہ ٹھہر گیا!
میں پھروں ہوں بارِجفا لیے کبھی اس ڈگر کبھی اُس نگر
کہ ثمرؔ یہاں کا رواج ہے جو بھی چپ رہا وہی مر گیا
(ثمریاب ثمر۔سہارنپور ،اترپردیش ، بھارت)


غزل
سبب برسات کا اشکوں کی طغیانی بنے گی
ہیں کالی بدلیاں یہ رات طوفانی بنے گی
نہیں معلوم تھا یہ اے دلِ نادان ہم کو
اذیت اس قدر جذبوں کی ارزانی بنے گی
تیری فطرت میں شامل جلد بازی ہے تو سن لے
تیری عجلت پسندی ہی پشیمانی بنے گی
سبھی آزردہ رنگوں سے جتن کر لے مصور
نہ تجھ سے میری آنکھوں کی یہ ویرانی بنے گی
میں پیمائش کروں اس ہجر کے لمحات کی گر
تو تاحد نظر صحرا کی طولانی بنے گی
ہوا آغاز الفت جب، کہا تھا میں نے تم سے
نہ یوں نظریں ملاؤ پھر پریشانی بنے گی
ذرا رک اور اپنی ذات کا ادراک کر لے
جبھی تو کیفیت شعروں میں وجدانی بنے گی
رضائے رب کی خاطر زندگی کو وقف کردے
جبھی دن سہل ہوگا رات نورانی بنے گی
(شاہانہ ناز۔ راولپنڈی)


غزل
دل بصیرت، راز ہے
یہ حقیقت راز ہے
وہ ضروری تھا مگر
رب کی حکمت راز ہے
قیمتی پتھر ہے وہ
اُس کی قیمت راز ہے
جل رہا ہے دل مگر
اس کی حدّت راز ہے
رائیگانی کا نہ پوچھ
یہ اذیّت راز ہے
بد دعا سے ڈرنا تم
اس کی شدّت راز ہے
وعدہ پہنچے گا مگر
کب، یہ مہلت راز ہے
دائروں میں ہے سفر
اور مدّت راز ہے
دل نے تنہائی چُنی
کیوں، یہ نسبت راز ہے
ہجر کا سایہ ہے ساتھ
اور قربت راز ہے
موت جیسا ہے سکوت
میری حیرت راز ہے
کچھ تو غور و فکر ہو
ہر فضیلت راز ہے
(ناہید ورک۔ مشی گن، امریکا)


غزل
آنکھ سے اشک گرا،اشک سے تصویر ہوئی
یوں زمانے میں مرے رنج کی تشہیر ہوئی
پہلے پہلے تو فقط عشق ہوا کرتا تھا
یہ اداسی تو بہت بعد میں تعمیر ہوئی
مجھ کو معلوم ہے یا میرا خدا جانتا ہے
کن وسائل سے مِرے خواب کی تعبیر ہوئی
بے زباں دل کے ارادوں کو زباں دیتے ہوئے
اس کو بھی وقت لگا مجھ سے بھی تاخیر ہوئی
وہ محبت جسے نادانی میں اپنایا تھا
آخرِ کار وہی پاؤں کی زنجیر ہوئی
(سبحان خالد۔تلہ گنگ)


غزل
ہماری ذات پر اس شخص کا اجارہ ہے
یہ دعویٰ کس نے کیا ہے کہ وہ ہمارا ہے
ہم ایسے ویسے فقیروں کو پوچھتا ہے کون
ہم ایسے ویسوں کا یہ عشق ہی سہارا ہے
ضرور کام کوئی پیش آ گیا ہو گا
بڑے ہی مان سے اس نے ہمیں پکارا ہے
ہمی نے کھیل کے دیکھی ہے عشق کی بازی
نہ کوئی فائدہ اس میں نہ کچھ خسارا ہے
یہ بات غور طلب ہے یہ بات غور طلب
کبھی وہ شخص تمھارا تھا اب ہمارا ہے
حسین شخص میں ہوتی نہیں وفا لیکن
تمھارا حسن محبت کا استعارہ ہے
کوئی امید کی اب آخری کرن بھی نہیں
میں ڈوبتا ہوں جہاں پر وہاں کنارا ہے
ہر ایک آنکھ کا اپنا ہی فلسفہ ہے میاں
یہ بات کس نے کہی تو ہی سب سے پیارا ہے
ضرور کوئی نہ کوئی سبب تو ہو گا ہی
ہر اک سے جیت کے یہ دل تمہی پہ ہارا ہے
یہ جان لے کہ ترے انتظار میں ہم نے
اک ایک لمحہ اذیت میں ہی گزارا ہے
کمال اس میں کوئی اور تو نہیں صادقؔ
خیالِ یار سے ہم نے یہ فن نکھارا ہے
(محمد امین صادق اوگی۔ مانسہرہ)


غزل
وہ جو میری سمت تھا گامزن وہ خوشی کا لمحہ کدھر گیا
مجھے کیوں یہ لگنے لگا ہے اب کہ مری دعا سے اثر گیا
کبھی رشکِ رونقِ ہر چمن، کبھی حسنِ توبہ شکن کہیں
ترے قرب میں، مرے ہم سخن! مرا رنگ روپ نکھر گیا
کبھی یوں بھی گزرے تھے رات دن، تُو نہ میرے بن میں نہ تیرے بن
یہ بھی وقت کا ہی تھا فیصلہ کہ ہر ایک اپنی ڈگر گیا
نہ و ہ ہجر لمحوں کی چشمِ نم نہ کسی کے غم میں اداس ہم
وہ جو ذہن و دل پہ سوار تھا وہ نشہ تو کب کا اُتر گیا
رہا خوف سا مجھے عمر بھر، سنی میں نے سب کی اگر مگر
لگی منزلوں کی وہ جستجو، رہِ پُر خطر کا بھی ڈر گیا
وہ تو پتھروں کو تراش کر اُنہیں کردے مثلِ گہر نما
ہوئی خوش جمال ہر ایک شے، جہاں اُس کا حسنِ نظر گیا
(رداخان۔ شارجہ، متحدہ عرب امارات)


’’ جنگل ‘‘
جہاں گذرا تھا سب کا کل چلیں
چلو جنگل چلیں
یہاں قانوں کب سے سو رہا ہے
نجانے کس لیے اندھا ہوا ہے
کسی ماں کا دُلارا کھو گیا ہے
کسی گھر کا سہارا کھو گیا ہے
یہاں سب لوگ ہیں بے کَل، چلیں
چلو جنگل چلیں
یہاں انسانیت کا گھر نہیں ہے
کسی سر پرکوئی چادر نہیں ہے
غریبوں کے لیے بستر نہیں ہے
محبت کا کوئی بھی دَر نہیں ہے
بچا کر آنکھ کا کاجل، چلیں
چلو جنگل چلیں
یہاں پہچان کھو کر رہ گئی ہے
عمارت گھر تھی،لیکن ڈھے گئی ہے
یہی اک جان ہے جو بچ گئی ہے
فضا اپنی نہیں ہے غیر سی ہے
برستے ہیں جہاں بادل، چلیں
چلو جنگل چلیں
امیروں کا نرالا راج ہو جب
وہی کل تھے انہی کا آج ہو جب
غریبی صرف دوجا داج ہو جب
سَروں پہ مفلسی کا تاج ہو جب
سنوارو آنے والا کل، چلیں
چلو جنگل چلیں
اناج اپنا اُگائیں گے زمیں پر
وہیں اک گھر بنائیں گے زمیں پر
جو کہتے ہیں مٹائیں گے زمیں پر
انہیں بس کر دکھائیں گے زمیں پر
جو جیسے ہیں وہ پاگل، چلیں
چلو جنگل چلیں
زمیں کو تنگ کرتے جا رہے ہیں
وسائل ایسے چھینے جا رہے ہیں
نہ چاول ہے نہ چینی تیل آٹا
مگر حاکم پنپتے جا رہے ہیں
اُٹھا کر مفلسی پیدل، چلیں
چلو جنگل چلیں
رکاوٹ ہو گی نہ ہڑتال ہوگی
ہر اک کوچے میں اک چوپال ہوگی
خدا کا ایک وعدہ جو اَٹل ہے
وہاں نعمت بھی حسبِ حال ہوگی
میسّر ہوں جہاں دو پل، چلیں
چلو جنگل چلیں
(شاہدمسرور۔کراچی)


غزل
دیکھے تھے شوق سے جو وہ چہرے کدھر گئے؟
ناتے تھے درمیان جو گہرے کدھر گئے؟
سنتے تھے درد دل کے جو غور و فکر کے ساتھ
شیشے بتا نا! عکس وہ بہرے کدھر گئے؟
کشکول خالی لے کے بھکارن ہے پھر رہی
یا رب! تمہارے لوگ سنہرے کدھر گئے؟
کیوں ظلم کے چراغ ہیں بے باک جل رہے
انصاف کی ہوا ترے پہرے کدھر گئے؟
اے پیڑ ان کی کچھ تو فرشتہ کو دے خبر
پنچھی جو ٹہنیوں پہ تھے ٹہرے کدھر گئے؟
(فرشتہ یزداں۔جوہی، دادو)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔