انسان موت کو شکست دے سکے گا؟

سید عاصم محمود  اتوار 21 نومبر 2021
انسانیت کو حیات ِ جادوانی عطا کرنے والی سائنس میں جنم لیتی حیران کن تبدیلیوں کا تحیّر خیز  ماجرا

انسانیت کو حیات ِ جادوانی عطا کرنے والی سائنس میں جنم لیتی حیران کن تبدیلیوں کا تحیّر خیز  ماجرا

نکولاس پیٹرصرف پچیس سال کا ہے اس بالی عمریا میں انسان عام طور پر موت کے بارے میں نہیں سوچتا اور زندگی کے ہلّے گُلے میں محو رہتا ہے۔ مگر نکولاس مختلف نوجوان ہے۔ جب سے وہ اکیس سال کا ہوا ہے‘ اس نے بڑھاپا  دور رکھنے کی خاطر کئی اقدامات اپنا لیے۔وہ روزانہ مچھلی کھاتا اور مچھلیوں سے نکلا تیل پیتا ہے۔

دھوپ میں بھی آدھ گھنٹہ بیٹھتا ہے تاکہ امراض قلب اور دیگر بیماریوں سے محفوظ رہے۔ کھانے کا تیل غذا پکانے میں بالکل استعمال نہیں کرتا بلکہ بھاپ کے ککر میں کھانا پکاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پکانے کے تیل اور غذا  زیادہ پکانے سے انسانی جسم میں کینسر پیدا کرتے کیمیکل پیدا ہوتے ہیں۔ جب سردیاں آئیں تو وہ خاص مشین کے ذریعے اپنے گھر میں نمی کا تناسب معمول پر رکھتا ہے۔ وجہ یہ کہ خشک ہوا میں اسے کھانسی شروع ہو جاتی ہے اور نکولاس کا ماننا ہے کہ خشک جلد اور کھانسی سے انسان میں سوزش (inflammation) جنم لیتی ہے جو بڑھاپے کو دعوت دے بیٹھتی ہے۔

نکولاس پیٹرسافٹ ویئر انجینئر ہے۔ کینیڈا کے شہر وینکور میں رہتا ہے۔ کینیڈا ترقی یافتہ ملک ہے۔ وہاں کی آب و ہوا صاف ہے۔ غذا خالص ملتی ہے۔ لوگوں کی آمدن بھی زیادہ ہے۔ ان خوبیوں کے سبب نکولاس کو یقین ہے کہ وہ اگلے پچپن سال تک تندرست و توانا رہے گا۔ پھر بڑھاپے کے اثرات اسے کمزور و ناتواں بنانے لگیں گے۔دلچسپ بات یہ کہ نکولاس کو یقین ہے‘ تب تک طبی سائنس کی محیر العقول ترقی کوئی نہ کوئی ایسی راہ تلاش کر لے گی کہ وہ اپنے بڑھاپے کو مزید دور دھکیل سکے۔ اسی باعث پیٹر سمجھتا ہے کہ اس نے صحت مند طرز زندگی  اپنائے رکھا   تو وہ کئی سو سال زندہ رہ سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ موت کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائے۔

دیرینہ تمنا

موت کو مات دینے کی تمنا صرف نکولاس کے دل میں نہیں بسی‘ خصوصاً ترقی یافتہ ممالک کے لاکھوں انسان یہ خواہش رکھتے ہیں۔ درحقیت قدیم زمانے سے انسان کی یہ دیرینہ تمنا چلی آ رہی ہے کہ وہ کسی طرح موت پر قابو پا لے۔ اسی آرزو نے تصّوراتی ’’آب حیات‘‘ کو جنم دیا جسے نوش کر کے انسان حیات جاوداں پا سکتا ہے۔ پھر کتب تاریخ میں لکھا ہے کہ قدیم انسان کئی سو سال زندہ رہتے تھے۔

مثلاً حضرت آدمؓؑ اور حضرت نوحؑ کی عمریں کئی سو برس بتائی جاتی ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ ہزار برس میں کئی سائنس داں ایسا گر ‘ سیال یا علاج دریافت کرنے کی خاطر دن رات تجربے و تحقیق کرتے رہے جو انسان کے سر پر آئی موت ٹال سکیں مگر انہیں کامیابی نصیب نہ ہو سکی۔ سائنس داں پھر بھی ناامید نہیں،شاید  انہیں رہ رہ کر برج نارائن چکسبت کا یہ شعر یاد آتا ہے:

زندگی کیا ہے‘ عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے‘ انہیں اجزاء کا پریشان ہونا

دور جدید میں سائنس دانوں کی یہی کوشش ہے کہ وہ زندگی میں عناصر کے ظہور ترتیب کو سو فیصد حد تک سمجھ سکیں۔ وہ پھر ان عناصر کو پریشان ہونے سے روکنے کی تدبیر کر سکیں گے تاکہ انسان موت کی جان لیوا گرفت سے بچ سکے۔ نکولاس پیٹرجیسے لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان ایسے ہی وقت کے انتظار میں ہیں۔

انہوں نے ہر ممکن طریقے اور انداز سے خود کو فٹ رکھا ہوا ہے تاکہ اس دور تک زندہ رہیں جب سائنس آخر کار موت کو شکست دے ڈالے گی۔ماہرین نکولاس پیٹر اور اس جیسے لاکھوں نوجوانوں کی جدوجہد اور تگ و دو کو ایک اصلاح ’’طویل العمری فرار رفتار‘‘ (Longevity Escape Velocity) سے بیان کرتے ہیں۔ معنی یہ کہ انسان اپنی کوششوں سے اپنے بڑھاپے کا عمل سست رفتار کر دے تاکہ نئی طبی ایجادات سے استفادہ کر سکے۔ یہ اصطلاح برطانیہ کے ماہر علم امراض بڑھاپا‘ اوبرے ڈی گرے نے وضع کی ہے۔

مثال کے طور پر آپ صحت مند طرز زندگی اپنا کر موت کو دس سال پرے دھکیلنے میں کامیاب ہو گئے۔ مطلب یہ کہ ممکن ہے، اگلے دس برس میں  ایسی کوئی دوا ‘ طرز علاج‘ کمپیوٹر پروگرام یا روبوٹ اسسٹنٹ ایجاد ہو جائے جس کی مدد سے آپ مزید دس سال زندہ رہ سکیں۔ یوں یہ سلسلہ چل نکلے گا۔ اور عین ممکن ہے کہ آپ اس انقلابی دور تک خود کو زندہ رکھنے میں کامیاب ہو جائیں جب آخر کار سائنس موت پر قابو پا لے۔’’طویل العمری فرار رفتار‘‘ کی اصطلاح علم فلکیات کی ایک اصطلاح ’’سیاروی فرار رفتار‘‘ سے ماخوذ ہے۔ یہ اس رفتار کے لیے استعمال ہوتی ہے جو خلا میں کوئی شے کشش ثقل کی گرفت سے آزاد ہونے کی خاطر اختیارکرے۔

آٹھ نو جسمانی افعال

نکولاس پیٹر اور اس جیسے لاکھوں انسانوں کے لیے مگر بُری خبر یہ ہے کہ زندگی کو موت کے بے رحم شکنجے سے دور ہونے کی خاطر جو رفتار درکار ہے‘ وہ ابھی شاید کئی عشروں تک  حاصل نہ ہو سکے۔ یہ انکشاف ڈاکٹر نیر برزیلی کاہے۔ ڈاکٹر صاحب امریکی شہر نیویارک میں البرٹ آئن سٹائن کالج آف میڈیسن میں انسٹی ٹیوٹ فارایجنگ ریسرچ کے سربراہ ہیں۔ اس ادارے میں بڑھاپے کے عمل کو سمجھنے کے لئے عمیق تحقیق و تجربات جاری ہیں۔پچھلے پچاس برس میں بہرحال طبی سائنس داں عمل بڑھاپے کی خاص خصوصیات بذریعہ تحقیق جان چکے ۔

ان کا کہنا ہے کہ بڑھاپا  ہمارے آٹھ نو جسمانی افعال کا مجموعہ ہے۔ جب وقت کے ساتھ ساتھ یہ جسمانی افعال خراب ہو جائیں تو بڑھاپا ہمیں آن دبوچتا ہے۔ لیبارٹری میں جب سائنس دانوں نے بوڑھے چوہوں کے یہ جسمانی افعال درست کر دیئے‘ تو وہ دوبارہ جوان ہونے لگے۔ اسی قسم کے انقلابی اثرات تجربات سے گزر کر بعض مرد و زن میں بھی دیکھنے کو ملے۔ اس سے آشکار ا ہوا کہ انسان میں موت کو دعوت دینے والا عمل بڑھاپا روکا جا سکتا ہے۔

یہ آٹھ نو جسمانی اعمال گویا ایسے ہینڈل ہیں جنہیں اوپر یا نیچے کرنے سے انسان کو بڑھاپے میں مبتلا کرنے والی بیماری سے بچا لیا جائے۔ بیشتر اعمال خلویاتی یعنی خلیے کی سطح پر انجام پاتے ہیں۔ مثال کے طور پہ پروٹیوسٹیس (proteostasis) کا عمل جس کے ذریعے انسانی خلیے اپنے کوڑے کرکٹ سے نجات پاتے ہیں۔ اس طرح انسان اور ہر جاندار کے جسم میں مائٹو چونڈریل (mitochondrial) عمل بڑھاپے سے وابستہ ہے۔ اس عمل کے ذریعے خلیے اپنی توانائی پاتے ہیں ۔ ’’ایپی جینٹکس(epigenetics) ایک اور بنیادی جسمانی فعل ہے۔

اس عمل کی مدد سے خلیے اپنی جینیاتی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔ ایک اور اہم عمل خلیے کا اپنے ڈی این اے کے سرے پر واقع دفاعی علاقے‘ ٹیلو میر (telomere) کو محفوظ رکھنا ہے۔گویا یہ  آٹھ نو جسمانی افعال وہ عناصر ہیں جن کی ترتیب سے زندگی برقرار رہتی اور بگڑ جانے پر موت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔سافٹ ویئر انجینئر ہونے کی وجہ سے نکولاس پیٹر ان جسمانی افعال کی بابت زیادہ نہیں جانتا مگر اسے یہ ضرور علم ہے کہ صحت مند طرز حیات ان جسمانی افعال کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ پھر وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ دنیا بھر میں ہزار ہا محقق اور سائنس داں بڑھاپے کا عمل سمجھنے کے لیے مصروف تحقیق ہیں۔ گاہے بگاہے یہ دعویٰ سامنے آتے رہتے ہیںکہ اگلے تین چار عشروں میں طبی سائنس کی زبردست ترقی کے باعث انسانی عمر میں اضافہ کرنا ممکن ہو جائے گا۔

بڑھاپا بیماری ہے!

سائنس دانوں اور محققوں کی مہم کے باعث تین سال قبل اقوام متحدہ کے ادارہ صحت‘ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بڑھاپے کو ’’مرض‘‘ قرار دے ڈالا تھا۔ مطلب یہ کہ بڑھاپا کوئی قدرتی عمل نہیں بلکہ ایک بیماری ہے جس کا ’’علاج‘‘ کرنا ممکن ہے۔کوئی نہیں جانتا کہ یہ علاج اگلے دس برس میں دریافت ہو جائے یا اگلی صدی میں مگر ماہرین جان چکے کہ بڑھاپا دور ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے‘نکولاس کی تو یہی تمنا ہے کہ علاج جلد از جلد دریافت ہو تاکہ وہ مزید کئی عشرے زندگی کی بہاروں سے لطف اندوز ہو سکے۔ اور اگر طبی سائنس اسے ہمیشہ کی زندگی عطا کر دے تو کیا بات ہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔