’’ہندوستان جتنے شہر اور ملک کسی اور ولایت میں نہیں‘‘

نازیہ آصف  اتوار 21 نومبر 2021
مرزا ظہیر الدین بابر کو مغل سلطنت کی تاریخ کا جد امجد قرار دیا جاتا ہے فوٹو : فائل

مرزا ظہیر الدین بابر کو مغل سلطنت کی تاریخ کا جد امجد قرار دیا جاتا ہے فوٹو : فائل

مرزا ظہیر الدین بابر کو مغل سلطنت کی تاریخ کا جد امجد قرار دیا جاتا ہے۔ ’بابر‘ جو کہ اس کا لقب تھا ترک زبان میں اس کے معنی ’ببر شیر‘ کے ہیں۔ بابر کا نام برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں یوں بھی اہم ہے کہ اس کا شجرہ نسب دو عظیم معماران سلطنت چنگیز خان اور امیر تیمور سے ملتا ہے ۔ وہ باپ کی طرف سے براہ راست پانچویں پشت میں امیر تیمور کی اولاد تھا۔ والدہ قتلق نگار خانم اورنانی ایسین بیگم کی طرف سے چودھویں پشت میں جاکر چنگیز خان سے ملتا ہے ۔

ظہیر الدین بابر 14فروری1483ء بمطابق 6محرم888ھ کو والیء فرغانہ عمر شیخ مرزا کے ہاں تولد ہوا ۔ابھی گیارہ سال کا تھا کہ عمر شیخ مرزا جو اس وقت آخشی کے قلعہ میں تھا کبوتروں کے دڑبے تلے آ کر ہلاک ہو گیا۔ باپ کی ناگہانی موت کے باعث بابر کو گیارہ سال کی عمر میں تخت نشین ہونا پڑا مگر یہ تخت و تاج اس کے لیے کانٹوں کی سیج ثابت ہوا ۔بابر نہ صرف ایک مردم شناس ، دور اندیش، علماء پرور اور محبِ وطن انسان تھا، بلکہ اس نے رزم وبزم دونوں میں نام کمایا وہ’’ہمہ یاراں دوزخ وہمہ یاراں بہشت‘‘کے فلسفے کا قائل تھا ۔ فارسی و ترکی زبان میں اعلیٰ قابلیت کا مالک تھا جس کا ثبوت اس کی کتاب ’’تزک بابری‘‘ کی صورت میں موجود ہے ۔ مرزا حیدر ’جو اس کا چچا زاد بھائی اور اعلیٰ درجے کا مصنف تھا‘ اسکے بارے میں لکھتا ہے ۔

’’بابر جس قدر بہادری ، ہمت و استقلال میں نمایاں ہے اسی طرح وہ اپنے علم کے اعتبار سے بھی درجہ فضیلت رکھتا ہے ‘‘

اس نوعمر کو تحت نشین ہوتے ہی انتہائی کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا اس کے دو چچائوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ بابر پریشان ہوگیا اور اپنے چچائوں کو خط لکھا۔

’’ میں آپ لوگوں کا بھتیجا ہوں سلطنت سے درگزر کرو اور مجھے اپنا نائب رہنے دو‘‘
انہوں نے جواب دیا:

’’اگر فوج ہے تو لڑو ورنہ ہمیں پورا اختیار ہے کہ ہم جو چاہیں کریں ‘‘

مگر اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ حملہ آور تو اپنی موت آپ ہی مارے گئے مگر بابر نے کم سنی میں ہی ایسے حالات کا جوانمردی سے مقابلہ کرنا سیکھ لیا اور یہی حوصلہ آگے چل کر ہندوستان میں ایک عظیم مغلیہ سلطنت کے قیام کا سبب بھی بنا ۔ بابر حُب تیموری سے سرشار تھا اور ان تمام علاقوں کو یکجا کرنا چاہتا تھا جو کبھی تیموری فرمانروائی کا حصہ رہے تھے۔ وہ اپنے جد امجد امیر تیمور کی سلطنت کو دوبارہ زندہ و بحال کرنا چاہتا تھا ۔بقول گیان چند مہاجن :۔

جب باہر کو یہاں کامیابی نہ ملی تو پھر وہ دریائے سندھ اور گنگا کی زرخیز وادیوں میں نئی سلطنت کیوں تلاش نہ کرتا۔ سولہویں صدی کے آغاز میں ہندوستان ریاستوں کا ایک مجموعہ تھا اور کسی بھی طاقتور اور فتح کے خواہشمند کا ترنوالہ ثابت ہوسکتا تھا۔

بابر اپنی تُزک میں رقمطراز ہے ۔

’’جب میں کابل گیا تو چند دن بعد میرا ارادہ فوج کشی کا ہوا۔ جو لوگ اطراف و جوانب سے واقف تھے ان سے صلاح لی۔ کسی نے بنگش تو کسی نے دشت کی طرف بڑھنے کا مشورہ دیا اور بعض نے ہندوستان کی صلاح دی ۔ آخر کار میں نے ہندوستان پر یورش کرنے کی ٹھان لی۔ شعبان کا مہینہ ، جب آفتاب برج دلو میں تھا تو میں نے کابل سے ہندوستان کا رخ کیا‘‘۔
بابر نے1526ء سے پہلے ہندوستان پر متعدد حملے کیے تھے مگر پانی پت کی ہونے والی لڑائی کافی حد تک فیصلہ کن رہی بابر کو فتح ہوئی ۔

بقول بابر:
’’ہاتھیوں کے غول کے غول فیل بانوں سمیت گرفتار کرکے لائے گئے۔ خیال ہوا کہ ابراہیم( ابراہیم لودھی) بھا گ گیا ہے۔ ظہر کے وقت طاہر تبریزی نے ابراہیم کی لاش بہت سے لاشوں میں پڑی دیکھی تو وہ فوراً اس کا سر کاٹ لایا۔ اسی دن ہمایوں مرزا(بیٹا) خواجہ کلاں ، شاہ صفور برلاس کو حکم دیا کہ وہ جا کر آگرہ پر قبضہ کرکے خزانے ضبط کرلیں ۔اس وقت گوالیار کا راجہ بِِکرما جیت تھاجس کی صلاح سے شمس آباد اس کو دے کر گوالیار لے لیا گیا اور اسی راجہ بِِکرما جیت نے کوہ نور ہیرا بھی ہمایوں کے حوالے کیا ۔15اپریل 1526ء کو دہلی کی جامع مسجد میں بابر کے نام کا خطبہ پڑھا گیا اور خزانوں پر اس کے نام کی مہریں لگائی گئیں‘‘ ۔

اب رانا سنگرام سنگھ عرف رانا سانگا ، میدنی رائو، حسن خان میواتی اور چند دوسرے راجپوت سردار بابر کے لیے مستقل خطرہ تھے۔ ان لوگوں نے خود دولت خان لودھی کے ساتھ مل کر بابر کو دعوت دی تھی مگر وہ اب بابر کو غاصب خیال کر رہے تھے اور اسے ہندوستان سے نکال باہر کرنا چاہتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ باہر اپنے جد امجد تیمور کی طرح لوٹ مار کرکے واپس چلا جائے گا لیکن اب اس کے مستقل رکنے پر سخت سیخ پا تھے ۔ وہ سب مل کر ایک لشکر جرار لے کر آئے اور اس گٹھ جوڑ کے نتیجے میں جنگ کنواہہ لڑی گئی ۔ شروع میں بابر کے ہر اول دستوں کو شکست ہوئی تو لشکرپر خوف طاری ہونے لگا تب بابر نے پرجوش تقریر سے سب کا جذبہ جہاد ابھارا۔ شراب نوشی، ریش تراشی اور دوسرے غیر شرعی کاموں سے توبہ کی اور ہر سپاہی کو یہ یقین دلادیا کہ یہاں شہید ہونے والا ہر سپاہی زندہ رہے گا اور اسی جذبے نے بابر کو ہندوستان کا بادشاہ بنایا۔

ممتاز مورخ محمد قاسم فرشتہ لکھتا ہے
’’بابر ایسے حملہ کر رہا تھا جیسے شیر کچھار سے نکل کر دھاڑتا ہوا حملہ کرتا ہے‘‘ ۔

ہمایوں باپ کے ساتھ یہاں کے فتنہ فساد کو رفع کرکے کابل چلا گیا مگر وہاں سے بیماری کی حالت میں لوٹا۔ مرض ایسا مہلک نظر آتا تھا کہ بابر کی جان پر بن آئی۔ کہتے ہیں کہ بابر نے اس کے بستر کے گرد سات چکر لگائے اور دعا کی یااللہ ہمایوں کو بخش دے اور میری زندگی لے لے ۔ تو اس کے بعد ہمایوں بتدریج ٹھیک ہوتا گیا اور بابر بیمار پڑتا گیا۔ جب بابر کی علالت بڑھ گئی تو اس نے سرداروں کو جمع کرکے مشورہ کیا اور ہمایوں کو تخت نشین کر دیا۔ یوں جفاکش بادشاہ 26دسمبر 1530کو اللہ کو پیارا ہوگیا۔

بابر اپنی تزک میں لکھتا ہے :
’’اللہ پاک نے اپنے فضل و کرم سے سلطان ابراہیم جیسے مقابل کو زیر کرنے کی قوت عطا کی اور ہندوستان جیسا وسیع ملک مسخر کر دیا۔حضرت رسالت پناہ محمدﷺ کے زمانے سے لیکر آج تک کے بادشاہوں میں سے تین حملہ آور بادشاہ کامیاب ہوئے ہیں ۔ سلطان محمود غزنوی، جسکی اولاد بھی مدتوں ہندوستان پر حکمران رہی۔ سلطان شہاب الدین غوری، جس کے غلاموں کی حکومت برسوں چلی۔ تیسرا میں ہوں خدائے لم یزل نے میری محنت ضائع نہ کی اور ایک زبردست مقابل کو مغلوب کرکے اتنا بڑا ملک میرے مطیع کردیا۔

بقول بابر:
’’ہندوستان بہت وسیع، بہت آباد اور سیر حاصل ملک ہے اس کے مشرق و جنوب بلکہ مغرب میں بھی دریائے سمدنر ہے ۔ شمال میں ایک پہاڑ ہے جو کوہ ہندوکش کا فرستان اور کوہستان کشمیر سے ملا ہوا ہے اور شمال کی طرف دریائے سندھ سے پار ہوتے ہی سارے پہاڑ میں آبادی ہے، وہ ملک کشمیر میں گِنا جاتا ہے۔ کشمیر سے بنگالہ تک اس پہاڑ میں بڑا وسیع ملک ہے۔ بیشمار قومیں آباد ہیں۔ اہل ہند ’شین‘ کو ’سین‘ بولتے ہیں اس لیے ’کشمیر‘ کو ’کسمیر‘ بھی کہتے ہیں ۔ہندو اس پہاڑ کو ’سوالک پربت‘ کہتے ہیں ۔ ہندوستان میں کو سو ہزار کو ’لک‘ (یعنی لاکھ) اور پربت پہاڑ کو کہتے ہیں ۔مطلب ہے ’سوالاکھ پہاڑ‘۔ اس پہاڑ پر ہمیشہ برف رہتی ہے ۔کابل میں اس کا نام ہندوکش ہے ۔ اس کے جنوب میں ہندوستان اور شمال میں ملک تبت واقع ہے ۔

ہندستان کے اکثر قطعات میدانوں اور ہموار زمینوں میں واقع ہے اتنے شہر اور ملک جتنے ہندوستان میں ہیں کسی ولایت میں نہیں ۔ بڑی ’’بات یہ ہے کہ مینہ نہ بھی برسے تو فصل سیراب ہو جاتی ہے ۔لاہور ، دیپالپور اور سرہند کے نواح میں رہٹ سے کھیتوں کو سیراب کیا جاتا ہے ۔جبکہ دلی آگرہ اور بیانہ میں چرس سے زراعت کی جاتی ہے جس میں ذرا گندہ پن ہے ۔ایسی کھیتیاں جنہیں بہت پانی کی ضرورت ہوتی ہے انہیں عورتیں اور مرد ڈھیکی سے پانی دیتے ہیں ۔

ہمارے ملک (فرغانہ) میں چار فصلیں جبکہ یہاں تین ہوتی ہیں ۔چار مہینے گرمی، چار مہینے برسات اور پھر چار مہینے جاڑا ۔
مہینوں کی ابتدا ھلال سے ہوتی ہے

ہندوستان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں سونا چاندی بھی بہت ہے۔ برسات کی ہوا بہت اچھی ہوتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دن میں پندرہ بیس بار مینہ پڑ جاتا ہے ۔ بارش کے موسم میں ایک ہی بار روآجاتی ہے اور ایسی آتی ہے کہ جہاں پانی کی بوند نہیں ہوتی وہاں دریا بہنے لگ جاتا ہے۔ مینہ کے بعد ہوا ٹھنڈی اور اعتدال کے ساتھ چلتی ہے لیکن یہ مرطوب ہوتی ہے ۔ ہماری کمان یہاں برسات میں کام نہیں دے سکتی ۔ تیر بیکار ہوجاتا ہے تیر کیا بلکہ ہر چیز پر سیلن آجاتی ہے ۔شمالی ہوا چلتی رہتی ہے اور کبھی کبھی اس کے ساتھ اتنا گردوغبار آجاتا ہے کہ کوئی ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتا ۔ یہاں اس کو ’آندھی‘ کہتے ہیں ۔یہاں کی گرمی اس قدر بے اعتدال نہیں جیسے بلخ اور قندھار میں۔ یہاں کی گرمی کی مدت بھی وہاں سے آدھی ہے ۔

یہاں کے لوگوں میں لطافت بہت کم ہے۔ لوگ حسین ہیں نہ میل جو ل کے اچھے، ان میں مروت اور مہربانی نہیں ہے ۔ننگے پائوں پھرتے ہیں ۔ ناف سے دو مٹھی نیچے کپڑا باندھ لیتے ہیں اس کو لنگوٹا کہتے ہیں۔ عورتیں لنگی باندھتی ہیں ۔آدھی کمر سے باندھتی اور آدھی سر پہ اوڑھتی ہیں ۔ شمع اور مشعل کی جگہ چیکٹ( تیل مِلی مٹی) اکٹھا کرکے جلاتے ہیں جسے ڈیوٹی کہتے ہیں۔ تپائی کے ایک پایہ کے کنارے میں شمعدان کے سر کی طرح ایک لوہے کو خوب مضبوط باندھتے ہیں ۔ساتھ ایک پلیتا باندھتے ہیں ۔ دوسرے ہاتھ میں ایک خشک کدو پکڑتے ہیں جو تیل سے بھرا ہوتا ہے اور اس میں باریک سوراخ کیا ہوتا ہے ۔جب حاجت ہو کدو سے تیل کا قطرہ پلیتے پر گرا لیتے ہیں اور یہی ڈیوٹی لیے ہی بادشاہ کے پاس بھی حاضر ہوجاتے ہیں ۔ یہاں کے شہر بہت غلیظ ہوتے ہیں۔ سب شہروں کی زمین کی قطع ایک جیسی ہوتی ہے ۔ باغوں کی دیواریں نہیں ہوتیں برسات میں اکثر جگہوں پر دلدل بہت ہوتی ہے اس لیے آمدورفت بہت مشکل ہوجاتی ہے ۔ ہندوستان کے دیہات اور شہر بہت جلد بس جاتے اور اجڑ جاتے ہیں ۔بڑے شہر وں والے جہاں برسوں سے بود و باش کرتے رہے ہوں ،بھاگنے پر آئیں تو ایک پہر یا ایک دن میں شہر خالی کر دیتے ہیں اور یوں رفو چکر ہوتے ہیں کہ شہر کا نام ونشان نہیں ملتا۔ نہریں نہیں کھودتے ،لوگ جمع ہوئے تالاب بنا لیا، کنواں کھود لیا اور فارغ اور پھر یہی پانی انسان اور جانور سب استعمال کرتے ہیں۔ نہ مکان نہ دیواریں چنیں ڈھیر ساری گھاس پھوس سے جھونپڑیاں بنا کر رہتے ہیں ۔

بابر پھلوں کا ذکر کچھ اس انداز میں کرتا ہے:
’’ہندوستان کے خاص میووں میں ایک انب(آم) ہے جو یہاں کے عمدہ میووں میں سے ہے۔ برسات میں پکتا ہے۔ اس کا تنا بے ہنگم ہوتا ہے اور پتے شقالو جیسے ہوتے ہیں ۔

ایک میوہ کیلا ہے۔ اس کا درخت اونچا نہیں ہوتا بلکہ آپ اس کو درخت نہیں کہہ سکتے۔ اسکا پتہ امان قرا کے پتے کی صورت کا ہوتا ہے لیکن یہ تقریباً دو گز لمبا ہوتا ہے ۔

خرمائے ہندلی کو املی کہا جاتا ہے اسکی چھوٹی چھوٹی پتیاں کسی قدر پویا کے پتے سے چھوٹی ہوتی ہے ۔
ایک میوہ جامن ہے۔ اس کا پتہ تال کے پتے سے ملتا ہے پھل ایسا جیسے انگور ، مزہ میں اچھا نہیں کسی قدر ترش ہوتا ہے ۔

ایک کٹھل ہے۔ بڑ ا ہی بدصورت اور بدمزہ میوہ ہے صورت بعینہ بکرے کی اور جھڑی جیسی کپی کی طرح پھولتا رہتا ہے اس کے اندر فندق کے سے دانے ہیں جو کسی قدر خرما سے مشابہ ہوتے ہیں ۔
ایک میوہ نیسالہ ہے ادھ کچرے سیب کے مشابہ ۔مزہ میں چاشنی دار، لذیذ میوہ ہے اس کا درخت انار سے اونچا اور پتہ بادام کے پتے جیسا ۔ایک آملہ ہے اسکی پانچ پھانکیں ہوتی ہیں یہ ادھ کچرا ہی رہتا ہے سخت بے مزہ لیکن بہت مفید۔

ایک کھجور ہے یہ لمغانات میں بھی ہوتی ہے۔ شاخیں درخت کے سر پر ایک ہی جگہ ہوتی ہے ،کھجور میں دو باتیںحیوان جیسی ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جس طرح حیوان کا سر کاٹ ڈالو تو وہ مر جاتا ہے اسی طرح اس کا سرتراش دو تو یہ درخت بھی سوکھ جاتا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جیسے حیوانات میں نر کے بچہ پیدا نہیں ہوتا اسی طرح مادہ کھجور کے پھول میں نر کھجور کا پھول نہ رکھا جائے تو پھل نہیں لگتا اس درخت کے جہاں سے پھول اور پتے پھوٹتے ہیں تو وہاں ایک سفید سی چیز نکلتی ہے جسکو پنیر کہتے ہیں یہ مغز چارمغز سے مشابہ ہے۔ اس پنیر کے پاس شگاف ڈال کر پاس ایک پتے کو باندھ دیتے ہیں ۔ اس شگاف سے نکلنے والے پانی کو حاصل کر لیتے ہیں یہ تازہ پانی تو میٹھا ہوتا ہے لیکن اگر تین دن بعد پیا جائے تو کسی قد ر نشہ کرتا ہے ۔ میں ایک دن چنبل ندی کنارے سیر کو گیا لوگ وہاں پر یہ پی رہے تھے۔ میرے ساتھیوں نے بھی پیا ۔ ایک تاڑ ہے ۔ تاڑ کی شاخیں اس کے سر پر ہوتی ہیں۔ تاڑ سے کھجور کی طرح رس نکالتے ہیں۔ اس کو تاڑی کہتے ہیں۔ کھجور کے رس سے اس میں نشہ زیادہ ہوتا ہے ۔ اس کے پتوں کی لمبائی گز بھر ہوتی ہے ۔ہندی تحریریں دفتر کے طور پر اکثر اس کے پتوں پر ہی لکھی جاتی ہیں ۔ ایک لیموں ہوتا ہے مرغی کے انڈے کے برابر۔ اس کے ریشے کو جوش دے کر زہر خوردہ کو پلائو زہر کا اثر جاتا رہتا ہے ۔

ایک میوہ ہے نارنج جیسا ہندوستان میں اس کو کلکل کہتے ہیں ۔نارنج کے مشابہ ایک اور پھل ہے امل بید ۔ ابھی اس سال میں نے دیکھا ہے اس کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر سوئی اس میں ڈال دو تو پانی ہوجائے۔

ایک بڑھل ہے سیب کے برابر اس کی خوشبو اچھی مگر عجیب بے مزہ چیز ہے۔ ہندوستان میں پھول طرح طرح کے اور عمدہ ہوتے ہیں ۔

پھولوں میں ایک کیوڑہ ہے اس کی بو نہایت لطیف ہوتی ہے، اتنا عیب ہے کہ ذرا خشک ہوتا ہے۔ پھول کی لمبائی ڈیڑھ بالشت کے قریب اوپر کے پتے تازہ اور خاردار۔
چنبیلی گلاب نرگس سفید یاسمن اور بہت سے خوبصورت پھول جن میں کنیر کا پھول سب سے بڑا ہوتا ہے جو سفید اور سرخ رنگ میں ہوتا ہے اور برسات کے موسم میں تین چار مہینے تک برابر کھلتا ہے ۔
بابر ہندوستان کے چرند پرند کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’ہندوستان کے مخصوص جانوروں میں ایک ہاتھی ہے جس کا جسم بہت بڑا مگر جیسا سدھائو، سدھ جاتا ہے ۔ ایک سردار کے لشکر میں کئی ہاتھی ہوتے ہیں تین چار اونٹوں کا دانہ اکیلے چٹ کر جاتا ہے‘‘ ۔
اسی طرح بابر ہندوستان میں پائے جانے والے متعدد جانوروں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: گینڈا ، بھینسا، نیل گائے ، سفید ہرن ،کالا ہرن میمون وغیرہ (میمون بندر کی ہی ایک قسم ہے) ۔یہاں کے بازی گر اسے ناچنا

اور تماشے کرنا سکھاتے ہیں۔ ایک نیولا ہوتا ہے درخت پر چڑھ جاتا ہے بعض اس کو موش خرما کہتے ہیں اور اس کو مبارک سمجھتے ہیں ۔
ایک چوہے جیسے جانور ہے جس کو گلہری کہتے ہیں ہمیشہ درختوں پر رہتا ہے۔ مختلف اقسام کے طوطے سرخ سبز اور سرخ سر والے مینا سب بہت خوبصورت ہیں۔ ایک بڑی چمگادڑ ہوتی ہے۔ اس کا سر سور اور کتے کے سر جیسا ہوتا ہے ۔ جس درخت پر رہتی ہے اس کی شاخ کے ساتھ لٹکی رہتی ہے ۔ ایک جانور گھڑیال ہے۔ یہ بہت بڑا ہے۔ سرود میں ہمارے لشکر میں بہت سے لوگوں نے اس کو دیکھا ہے۔ یہ آدمی کو پکڑ لیتا ہے۔ جب ہم دریائے سرود کے کنارے آباد تھے تو دو ایک آدمیوں کو اس نے پکڑ لیا تھا ۔ غازی پور اور بنارس کے درمیان میں بھی لشکر کے تین چار آدمی پکڑ لیے تھے ۔ میں نے اسی نواح میں گھڑیال کو دور سے دیکھا ہے لیکن اچھی طرح تمیز نہیں ہوئی ۔

ایک کلکہ ماہی ہے۔ اس کے دونوں کانوں کے پاس دو ہڈیاں انگل بھر کی نکلی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس کو پکڑو تو دونوں ہڈیوں کو ہلاتا ہے جس سے نئی طرح کی آواز نکلتی ہے، شاید اسی وجہ سے لوگ اس کو کلکہ کہتے ہوں ۔ ہندوستان کی مچھلیوں کا گوشت بڑا لذیز ہوتا ہے۔ کانٹے بھی کم ہوتے ہیں۔ بڑی چالاک مچھلیاں ہیں۔ ایک بار ایک دریا میں دو طرف جال ڈالے، جال ہر طرف دریا سے گز بھر اونچے تھے مچھلیاں جال سے گزگز بھر اچھل کر نکل گئیں ۔ ہندوستان کے بعض دریائوں میں چھوٹی مچھلیاں ہوتی ہیں اگر کوئی دھماکہ ہو یا پائوں گھنگولنے کی آواز ہو تو ایک بار آدھ گز پانی سے اچھل جاتی ہیں‘‘۔ اسی طرح اور بہت سے آبی جانوروں کا ذکر بھی بابر کی تزک میں موجود ہے ۔

ایک اور بات جس سے بابر بہت متاثر تھا وہ یہ تھی کہ یہاں ایک ہی پیشے سے متعلق کئی ماہر کاریگر مل جاتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے: ہزاروں آدمی ایسے ہیں جو پشتوں سے ایک ہی کام کرتے چلے آرہے ہیں چنانچہ آگرہ کی عمارت پر 680کاریگر روزانہ کام کررہے ہیں‘‘ ۔

مزید لکھتا ہے: ’’ان لوگوں نے اعداد بھی خوب مقرر کیے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بہت مالدار ہیں۔ یہ لوگ 100ارب کو ایک کھرب اور100کھرب کو ایک نیل کہتے ہیں، لیکن یہ لوگ عمارتیں ہوادار نہیں بناتے اور ننگے پائوں پھرتے رہتے ہیں ۔

ہندوستان میں قائم کی گئی بابر کی یہ مغلیہ سلطنت 300سال تک قائم ودائم رہی بابر کی سلطنت کو مغلیہ کہنا غلطی ہے با بر خود کو ترک کہلواتا تھا۔ وہ تیمور کے گھرانے کا آدمی تھا مغل نہ تھا مگر عرصہ دراز سے ایسا ہی لکھا اور بالا جا رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔