جنگلات کے لیے نئی فورس

سعد اللہ جان برق  اتوار 21 نومبر 2021
barq@email.com

[email protected]

لگاتار، تابڑتوڑ، مسلسل، متواتر اور ریپڈ ’’خوشخبریوں‘‘ کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک بھرمیں عموماً اورہمارے صوبے میں خصوصاً حکومت کا ہر چھوٹا بڑا صبح اٹھتے ہی اس سوچ میں لگ جاتاہے کہ آج کالانعام کوکیاخوشخبری سنانی ہے چنانچہ ہرصبح خوشخبری، ہرشام خوشخبری، ہماراتو ہے کام خوشخبری اوریہ تمام خوشخبریاں تقریباًاس خوشخبری جیسی ہوتی ہیں جو ایک ڈاکٹر نے مریض کوسنائی تھی۔ آپریشن کے بعد ہوش میں آتے ہی ڈاکٹر نے مریض سے کہا، تمہارے لیے دو خبریں ہیں، ایک اچھی دوسری بری ۔ بری یہ ہے کہ تمہاری ایک ٹانگ کاٹ لی گئی ہے،لیکن فکر نہ کرو اچھی خبر یہ ہے کہ پاس کے وارڈ والا مریض تمہارا بوٹ خریدنے کو تیار ہے۔

بہرحال صوبائی حکومت نے خوشخبری سنائی ہے کہ جنگلات کی حفاظت کے لیے ایک نئی فورس یااتھارٹی بنائی جائے گی۔ہم اگرچاہیں تو اپنے ایک گزشتہ کالم کی یاد دلاکر اپنی مونچھوں کو بغیرتیل کے تاؤ دے سکتے ہیں، جس میں ہم نے کوہستانوں اورخاص طورپرسوات کے پہاڑوں کے ’’گنجے‘‘ ہونے کاذکر کیاتھا اورخدشہ ظاہرکیاتھا کہ باقی تو ہرطرف کے راستے بند ہیں اوران پر انتہائی ’’ایماندار‘‘ لوگ تعینات ہیں۔

اس لیے یقینا یہ ’’ایلینز‘‘ہی کاکام ہے جو پراسرار طریقے پر ہمارے جنگلات کے درخت کسی ’’سیارے‘‘ پر پہنچا رہے ہیں لیکن اپنی مونچھوں سے ہاتھ ہٹاکر سچی بات یہ ہے کہ حکومت کی تھیلی کے جوسارے ’’چٹے بٹے‘‘ ہیں، چاہے ’’منتخب‘‘ہوں یا نامنتخب، ان سب کے ’’کٹ‘‘ میں ایسے کئی کئی ’’منہ‘‘ ہیں جو نوالوں کے منتظر ہیں ، بہت سوں کوتو چلتے دسترخوانوں میں گھسایا بھی جاچکاہے لیکن ابھی بہت سے ایسے باقی ہیں جو اس ’’خوان ‘‘ کے لیے قطار میں کھڑے ہیں ، اب وہ ’’جنگلات کی حفاظت‘‘ کے نئے دسترخوان پر بٹھا دیے جائیں گے اوریہ نئی فورس یااتھارٹی جنگلات کی حفاظت ویسے ہی کرے گی جسے ایک شخص نے خالص دودھ کے لیے بھینس پالی اورپھر اس کے لیے محافظ ہی محافظ رکھتاگیا یہاں تک کہ اس کے ہاتھ میں خالص دودھ تونہیں البتہ خالص پانی آگیا۔

اس خبر بلکہ خوش خبری میں ایک اورخوشخبری یہ ہے کہ شاید جنگلوں میں ابھی ’’کچھ‘‘ باقی ہے جس کو بحفاظت ٹھکانے لگانے کے لیے حفاظتی فورس رکھی جارہی ہے۔

ہم بھی کیاکریں، جب حالات وواقعات ذرابھی بدل کر نہیں دے رے ہیں اورسب کچھ ویسا ہی چل رہاہے جیساستر سال پہلے تھا تو ہم ’’نئی کہانیاں‘‘ کہا ں سے لائیں، اس لیے ایک مرتبہ پھر ایک پرانی کہانی یاد آرہی ہے ۔

ہمارے گاؤں میں اچھاگنا کاشت ہوتا ہے، ٹھیکیدار لوگ گنے کے کھیت خرید لیتے ہیں اورپھر یہاں وہاں بازاروں میں لے جاکر بیچ دیتے ہیں۔ایسے میں ایک ٹھیکیدار کے پاس ایک شخص آکربولاکہ تمہارے خریدے ہوئے گنے کا فلاں کھیت گردونواح میں اکیلارہ گیاہے جس میں لوگ بہت نقصان کرتے ہیں، گنے توڑکر چوری کرتے ہیں، ایسا کرو،اس کھیت کے لیے کوئی رکھوالا رکھ لو۔یاایسا کرومجھے ہی سو روپے دیاکرو، میراکھیت متصل ہے، میں رکھوالی کیاکروں گا۔ ٹھیکیدار نے جیب سے سو روپے کانوٹ نکال کراس کے ہاتھ پر رکھا، وہ بولا ، اب دیکھ میں کیسی رکھوالی کرتا ہوں۔ٹھیکیدار نے کہا، یہ پیسے میں نے رکھوالی کے لیے نہیں دیے بلکہ اس لیے دیے ہیں کہ تم خود چوری سے بازآجاؤ تو میرے لیے یہی بہت ہے ۔

جنگلات کا تحفظ اوراس کے لیے فورس؟ تحفظ آخر کس سے ؟ بیچارے عوام تو کسی پیڑسے چارپائی کے لیے بازویاکسی آلے کے لیے دستہ بھی نہیں کاٹ سکتے، اگر جنگلات کوخطرہ ہے توصرف محافظوں سے ہے۔نہ ہی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے، نہ سنی سنائی بلکہ ہماری چشم دید وچشمہ دید بات ہے کہ جنگلات کے درخت کیسے کٹتے ہیںاورکہاں غائب ہوتے ہیں اورکون غائب کررہا ہے۔

اس نئی فورس سے البتہ یہ ہوجائے گا کہ ایک ساجھے داراوربڑھ جائے گا جیسا کہ اس خالص دودھ کے تمنائی نے نگران کے اوپر ایک اورنگران رکھا تھا یا وہ گنے کے کھیت کا’’رکھوالا‘‘ کررہاتھا۔

اس گھر کو آگ تو گھرہی کے چراغ سے لگی ہوئی ہے تو اورچراغ جلانے سے فائدہ ؟لیکن یہ توہم سوچ رہے ہیں کہ فائدے کے بجائے نقصان بڑھ جائے گا لیکن ’’وہ‘‘ اپنے ’’کٹ‘‘ میں موجود ’’مونہوں‘‘کے بارے میں سوچتے ہیں، جنگل جائے بھاڑ میں،ساتھ ہی ملک بھی اورملک کاسرمایہ بھی۔

پہاڑی جنگلات کاجوحشرنشرہورہا ہے، وہ توالگ بات ہے، انگریزوں کے زمانے میں نہروں اورسڑکوں یا دوسری سرکاری عمارات ،باغوں اورزمینوں میں جو نایاب درخت لگائے گئے تھے،انھیں سنبھال کر رکھا ہوتا تواب سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہوتے، اے کاش ’’اگر ہوتے‘‘ لیکن وہ بھی نامعلوم طریقے سے زیادہ تر توغائب ہوچکے ہیں اورباقی غائب ہورہے ہیں۔یہ درخت یاتوکھڑے کھڑے ’’نیلام‘‘ ہوجاتے ہیں اورنیلامی میں رنگ سسٹم کاتوآپ کو پتہ ہے ،پھر نیلامی جن درختوں کی ہوتی ہے، ان کے ساتھ حیرت انگیزطور پراوربھی بہت سارے درخت خود کو ’’لٹوا‘ڈالتے ہیں اوراگر پیڑوں کوکاٹ کرلکڑی کی لاٹ نیلام کی جاتی ہے تو ان میں سے کام کامال غائب ہوچکاہوتاہے ۔ لیکن اس نئی فورس سے ’’سب ٹھیک‘‘ ہوجائے گا،جب بانس ہی نہیں رہے گا تو بانسری کہاں سے بجے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔