سعد رضوی کی رہائی کے بعد کا منظر نامہ

مزمل سہروردی  اتوار 21 نومبر 2021
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

تحریک لبیک کے امیر سعد رضوی رہا ہو گئے ہیں۔ ان کی رہائی سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے اپنی طرف سے معاہدہ کی تمام شرائط پر عمل کر دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس دفعہ تحریک لبیک اور ریاست پاکستان کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے وہ ابھی تک خفیہ ہے۔ لیکن حکومت کے اقدمات معاہدہ کی شرائط کو دن بدن واضح کرتے جا رہے ہیں۔

سعد رضوی کی رہائی بھی معاہدہ کی ایک شرط پر عملداری کے طور پر ہی سامنے آئی ہے۔ ورنہ پہلے تو ریاست اور حکومت دونوں ہی انھیں رہا کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ تحریک لبیک کی کالعدم حیثیت بھی ختم کر دی گئی ہے۔ اسی وجہ سے میں بھی آج ان پر لکھ رہا ہوں۔ ورنہ جب تک وہ کالعدم تھے، ہم ان کا نام بھی نہیں لکھ سکتے تھے۔صرف ایک کالعدم جماعت ہی لکھا جاتا تھا۔ لیکن اب تحریک لبیک کو تحریک لبیک ہی لکھتے او رپکارتے ہیں۔ یہ بھی اس معاہدے کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔

تحریک لبیک کے تمام کارکنوں کی رہائی ہو چکی ہے۔ ان کے سیکڑوں کا رکنوں کو فورتھ شیڈیول سے نکال دیا گیا ہے۔ ان پر قائم مقدمات ختم کر دیے گئے ہیں اور اب ان کے لیڈر کو بھی رہاکر دیا گیا ہے۔ تحریک لبیک نے جواب میں اپنا دھرنا اور لانگ مارچ ختم کر دیا ہے۔

یہ ضرور کہا جا رہا ہے کہ اس معاہدے میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ تحریک لبیک دوبارہ کوئی دھرنا اور مارچ نہیں کریگی بلکہ ایک مکمل سیاسی جماعت کے طور پر کام کریگی۔ اس کی سرگرمیاں بھی سیاسی ہوںگی اور کام کرنے کا انداز بھی سیاسی ہو گا۔ میں یہ نہیں مانتا کیونکہ اگر ایسی کوئی شرط ہوتی تو حکومت کو اسے سامنے لانا چاہیے تھا۔ تحریک لبیک کی طرف سے مسلسل انکار ہی سامنے آرہا ہے کہ انھوں نے ایسی کوئی گارنٹی دی ہے۔ اس لیے ابھی تک معاہد ے کی جو شرائط عملداری کی صورت میں سامنے آئی ہیں۔ وہ تحریک لبیک کے حق میں ہی ہیں۔ ابھی تک ایسا کچھ سامنے نہیں آیا ہے ، جس سے یہ ظاہر ہو سکے کہ ریاست پاکستان کو بھی کچھ ملا ہے۔

تحریک لبیک اس ساری صورتحا ل میں ایک فاتح کے طور پر سامنے آئی ہے۔ سعد رضوی کی رہائی بھی نظام انصاف اور نظام قانون کی بالادستی کے نتیجے میں سامنے نہیں آئی ہے بلکہ مزاحمتی طاقت سے ہوئی ہے۔ وہ ایک مضبوط اور فاتح لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں،اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔

سعد رضوی کی اگلی سیاست کیا ہوگی، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ گزشتہ انتخاب میں تحریک لبیک ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے طو پر ابھری تھی۔ اس نے مختلف حلقوں میں قابل ذکر ووٹ حاصل کیے تھے۔ اب تو ملک کے سیاسی منظر نامہ میں ایک سیاسی حقیقت بن کر ابھر چکے ہیں۔ اس لیے یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اب اگلے انتخابات میں کیا تحریک لبیک کا ووٹ بینک بڑھے گا یا کم ہو جائے گا۔

یہ سوال اہم ہے کہ پاکستان کا عام ووٹر تحریک لبیک کی ان کامیابیوں کو کیسے دیکھتا ہے۔ کیا حالیہ کامیابیوں کو عوامی پذیر ائی حا صل ہے۔ کیا عام آدمی بھی اس کامیابی کو کامیابی ہی سمجھتا ہے۔ سیاسی میدان میں اس کامیابی کو کامیابی سمجھا جاتا ہے جس سے عوامی حمایت میں اضافہ ہو ۔ ایسی کامیابی جس سے عوامی حمایت میں کمی ہو اسے کامیابی نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے سعد رضوی اور ان کی جماعت کے لیے یہ سوال اہم ہونا چاہیے کہ حالیہ کامیابیوں سے ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہوا ہے کہ نہیں۔

یہ درست ہے کہ تحریک لبیک نے ایک دفعہ نہیں بلکہ متعدد بار یہ ثابت کیا ہے اس کا حمایتی اور ہمدرد کٹنے مرنے کے لیے تیار ہے، اس کا ورکر قیادت کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہے اسی لیے جب بھی وہ اپنے ورکرز کے ساتھ باہر آئے ہیں جیت ہوئی ہے لیکن کیا وہ اس جیت کو انتخابی جیت میں بدل سکتے ہیں؟ یہ درست ہے کہ ان کو کراچی سے سیٹیں ملی تھیں لیکن وہ بہت کم تھیں۔ پنجاب میں وہ ایک سیٹ بھی نہیں حاصل کر سکے تھے لیکن کیا وہ اگلی بار بھی کوئی سیٹ حاصل کر سکیں گے؟

تحریک لبیک کیا مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں سے کسی ایک کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر سکتی ہے؟میں سمجھتا ہوں یہ آسان فیصلہ نہیں ہوگا۔ اس کا کارکن دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو اپنا مخالف ہی سمجھتا ہے۔ ن لیگ کے خلاف تو ان کا وجود تشکیل پایا تھا۔ تحریک انصا ف کے دور میں بھی ان کے ساتھ کوئی ا چھا سلوک نہیں ہوا ہے۔

اس لیے بطور ایک نظریاتی مذہبی جماعت ان کے لیے دونوں کے ساتھ چلنا ممکن نہیں۔ ان کے لیے اقتدار کے ایوانوں سے زیادہ نظریات اہم ہونے چاہیے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اکیلے ان کے لیے کوئی بڑی سیاسی کامیابی ممکن نظر نہیں آتی۔وہ اکیلے پنجاب سے سیٹیں جیتنے کی پوزیشن میں اب بھی نہیں ہیں۔ وہ کسی کو ہار جیت میں کردار تو ادا کر سکتے ہیں لیکن اکیلے جیت نہیں سکتے ہیں، ابھی بھی ووٹ بینک اتنا نہیں ہے کہ سیٹیں نکل سکیں۔

کیا سعد رضوی تحریک لبیک کو ایک پریشر گروپ کے طور پر ہی رکھیں گے،ایک ایسا پریشر گروپ جو کسی بھی وقت ریاست کو چیلنج کر سکتا ہے۔ ایک ایسا پریشر گروپ جس سے سب ڈرتے رہیں گے۔ اگر یہ ہد ف ہے تو یہ حاصل ہو گیا ہے۔ اب انھیں نئے اور اگلے ا ہداف طے کرنا ہوںگے، ان کے لیے راستہ بنانا ہوگا۔ صرف کالعدم کی حیثیت ختم ہونا کافی نہیں ہے۔ انھیں پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں اپنے لیے قبولیت بنانا ہوگی۔ ان کی رہائی پر سب خاموش ہیں۔ خاموشی تذبذب کو ظاہر کر ہی ہے۔ سعد رضوی کو یہ تذبذب ختم کرنا ہوگا۔ سعد رضوی کو یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ انھوں نے اگلی سیاست کیسے کرنی ہے۔

سعد رضوی کے لیے یہ آپشن بھی موجو دہے کہ آگے سیاسی جماعتوں کے بجائے مذہبی جماعتوں کے ساتھ چلنے کی راہ نکالیں۔ وہ جماعت اسلامی کے ساتھ چل سکتے ہیں، ان کے لیے راہ نکل سکتی ہے۔ شاید ان کے ووٹرکو بھی اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔ نظر یاتی اساس کے لیے بھی خطرہ نہیں ہوگا۔ جماعت اسلامی اور تحریک لبیک مل کر اچھی سیاست کر سکتے ہیں۔ تحریک لبیک ، جماعت اسلامی کے سیاسی تجربے سے فائدہ بھی اٹھا سکتی ہے۔ ویسے تو سعد رضوی کی رہائی پر تحریک انصاف کے صوبائی صدر اعجاز چوہدری نے ان کے حق میں بیان دیا ہے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف بھی تحریک لبیک سے اگلے انتخابات میں اتحاد بنانا چاہتی ہے لیکن کیا یہ تحریک لبیک کے لیے ٹھیک ہوگا؟ یہ اہم سوال ہے جس کا جواب سعد رضوی کو تلاش کرنا ہوگا۔ اگلے فیصلے تحریک لبیک کی قیادت اور سعد رضوی کے لیے آسان نہیں ہیں۔شا ید مزاحمت آسان تھی، سیاست آسان نہیں ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔