ملبے تلے دبے کروڑوں انسان

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 21 نومبر 2021
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

آئیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے ملک کیElite کلاس سب کچھ حاصل کرنے کے باوجود آخراتنی سنگدل، بے حس، وحشی، افسردہ اور بے سکون کیوں ہے ؟ وہ خو ش و خرم اور پر مسر ت زندگی کیوں نہیں گذارپا رہے ہیں؟ کوئی 2300سال پہلے عظیم یونانی فلسفی اپیی قورس نے اپنے شاگردوں کو خبردار کیا تھا کہ مسرت کا بے تحاشہ تعاقب خوشی کے مقابلے میں افسردگی پیدا کریگا، جب کہ بدھا نے اس سے بڑھ کر دعویٰ کیا تھا کہ اس کی تعلیم کے مطابق کیف آگیں احساس کا تعاقب ہی دراصل افسردگی کی جڑہے۔

یہ احساسات عارضی اور بے معنی ارتعاش ہیں جب ہم انھیں محسوس کریں تب بھی ہمیںاطمینان نصیب نہیں ہوتا بلکہ ہمیں مزید کی تلاش رہتی ہے لہذا ہم چاہے کتنے بھی اطمینان بخش اور پر جوش احساسات محسوس کریں یہ ہمیں کبھی مطمئن نہیں کرتے۔ اگر ہم مسرت کو لمحاتی کیف کے احساس سے تعبیر کریں اور زیادہ سے زیادہ کی تمنا کریں تو ہمارے پاس اس کے مستقل تعاقب کے سوا کیا چارہ ہے ؟ جب ہم اسے پا بھی لیتے ہیں تو وہ فوراً غائب ہو جاتی ہے اور کیوں کہ ہم گزشتہ مسرت کی صرف یاد سے ہی مطمئن نہیں ہوتے تو ہمیں دوبارہ ابتداء کرنی پڑتی ہے اگرہم ایک دہائی تک یہ تعا قب جاری رکھیں تب بھی ہمیں کوئی تادیر اطمینان حاصل نہیں ہوگا بلکہ اس کے برعکس جتنا ہم اس مسرت کا تعاقب کریں گے اتنا ہی ہم زیادہ غیر مطمئن اور پریشان رہیں گے۔ اسی لیے اپیی قورس مسرت اسے قرار دیتا ہے جو انسان کی ذہنی آسودگی کا باعث بنتے ہوئے اسے سکون اور شانتی سے قریب ترکردے ۔

اسی وجہ سے اسٹارم جیمز سن کے ان الفاظ کی صداقت پر کیونکر شبہ ہوسکتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ ’’ مسرت ؟ یہ سوچنا غلط ہے کہ زیادہ آسائش زیادہ مسرت کا منبع ہے مسرت آتی ہے گہرے طورپر محسوس کرنے سے سادگی سے لطف اندوز ہونے سے ، تخیل کی آزاد اڑان سے ، زندگی کو خطرے میں ڈالنے سے ،دوسروں کے کام آنے سے ۔‘‘

مسرت کا تصور شروع ہی سے انسان کے پیش نظر رہا ہے اور وہ اس کے حصول کے لیے ہروقت کو شاں رہا ہے۔ جنگل میں حیوانی زندگی بسر کرتے وقت وہ ذہنی الجھنوں سے بے شک محفوظ تھا اور اپنی فطرت کے اشاروں اور طبعی رحجانات کے تقاضوں کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اسے وہ بھر پور لذت بھی ضرور ملتی تھی جو حیوانی زندگی کا خاصہ ہے لیکن وہ اس مسرت سے یقینا محروم تھا جس تک ایک روز اسے ذہن کی نئی کروٹوں کے طفیل رسائی حاصل کرلینا تھی چنانچہ جیسے ہی اس کی ذہنی ترقی نے اس کی طبعی رحجانات کو پس پشت ڈالنا شروع کیا تو اس کے سامنے مسرت کے نقوش واضح ہونے لگ گئے جلد ہی اس نے اپنے لیے تہذیب و قانون کی ایسی دنیا تعمیر کرلی جہاں اس کی حیوانیت پابہ زنجیر رہ سکے اور اس کی وحشت دائرہ تہذیب میں آکر متوازن اور پر سکون ہوجائے لیکن فہم وادراک کی ترقی نے اس کے لیے بہت سی نئی ذہنی الجھنیں پیدا کردیں ۔

ہزاروں سوالات ابھر کراسی کے سامنے آگئے جلد ہی اسے محسوس ہونے لگا کہ اس کے بے چینی کی وجہ تو وہ تاریکی ہے جو اس کے ذہن پر مسلط ہے اور جسے چیر کر وہ روشنی کا چہرہ دیکھنا چاہتا تھا روشنی ہی دراصل اس کے نئے مرض کا علاج تھی اور اس روشنی میں اس کے بقول وہ مسرت پوشیدہ تھی جس کے لیے وہ خود کو بے قرار محسوس کررہاتھا چنانچہ انسانی ذہن کی ساری تاریخ اس تگ و دو کا نام ہے جواس نے روشن تک پہنچنے کے لیے کی ۔ سقراط کی ساری تعلیم اس بات کے گرد گھومتی ہے کہ ’’ خود کو پہنچا نو ‘‘ ہم خود کو صرف اسی وقت پہچان سکتے ہیں جب ہمارا ذہن روشن ہو زندگی سے متعلق تین اہم انسانی نظریات پیش کیے گئے ہیں ۔

پہلا نظریہ ان لوگوں کا ہے جن کے مطابق زندگی اس دنیا میں وارد ہونے ، کھانے پینے ، سونے جاگنے، جنسی رشتے استوار کرنے اور پھر موت کے دھند لکوں میں کھو جانے کا نام ہے ایسے لوگ ہر قدم پر خود غرضی کے شدید رحجانات کا مظاہرہ کرنے کو ہی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں ۔ دوسرا نظریہ ان لوگوں کا ہے جو زندگی کو ’’بیوپار ‘‘ کا مترادف قرار دیتے ہیں اور جن کی دانست میں ہر اقدام کسی مستقل فائدے کے تابع ہوناچاہیے۔ ان لوگوں کے نزدیک مسرت کامرانی کا دوسرا نام ہے لہذا اسے حاصل کرنے کے لیے تشدد کے تمام اقدامات جائز اور ضروری تصور کیے جاتے ہیں ۔

ان کے نزدیک مسرت دوسروں کو کچل کر حاصل کر کے ہی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ تیسرا نظریہ ، ان لوگوں کا ہے جو زندگی سے کچھ حاصل کرنے کی نسبت زندگی کو بہت کچھ تفو یض کرنے ہی کو انسانیت کا اعلیٰ معیار قرار دیتے ہیں وہ ہر قدم پر سماج کے ذہنی ارتقا اور افراد کی مسرت و عظمت کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسرت کا حصول اتنا اہم نہیں جتنا مسرت کی تقسیم ۔ 1831 میں یعنی پہلے ریفارم بل کے پاس ہونے سے ذرا پہلے جیری بنیھتم نے جو انگلستان کا رہنے والا تھا اور نظام قانون سازی کا بہت بڑا عالم اورعملی سیاسیات کے میدان میں اپنے زمانے کا سب سے بڑا مصلح تھا اپنے ایک دوست کو خط میں لکھا ’’ خود آرام سے رہنے کی ترکیب یہ ہے کہ دوسروں کی زندگی کو پرمسرت بنایا جائے دوسروں کی زندگی کو پر مسرت بنانے کی ترکیب یہ ہے کہ ان سے محبت ظاہر کی جائے اور ان سے محبت ظاہر کرنے کی ترکیب یہ ہے کہ ان سے فی الواقع محبت کی جائے ۔‘‘یہ ہی سب سے زیادہ اہم بات ہماری Elite کلاس اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ پرمسرت بنانے اور مسرت کا اندھا دھند تعاقب کرتے کرتے بھول گئی ہے اور اس سارے سفر میں انھیں صرف افسردگی ہاتھ لگی وہ اپنی افسردگی کو مٹانے کے لیے اور زیادہ مسرت کے پیچھے بھاگے نتیجے میں مزید اور افسردگی ہی ہاتھ میں آئی ۔

اس سارے سرکل میں ان کے اندر کا خلا بڑھتا ہی چلا گیا ذہنی طورپر وہ دیوالیہ ہوتے چلے گئے ۔ مسلسل ناکامیوں نے ان کے اندر ایک بھو نچال بر پا کر دیا اور ان کے اندر موجود انسان ہونے کی ساری خوبیاں ایک ایک کرکے دم توڑتی چلی گئیں ۔ بے بسی بے حسی میں تبدیل ہوگئی وحشت نے انسانیت کی جگہ لے لی۔ بھوک نے قناعت پر قبضہ کر لیا اور وہ سب اپنے قیدی خود ہوگئے ۔

اب ان میں کوئی طاقت کا قیدی ہے کوئی اختیار کا تو کوئی غرور ، تکبر اور گھمنڈ کا تو کوئی ہیرے جواہرات اور روپوں اور پیسوں کا ۔ اصل میں یہ سب کے سب جھوٹ کے قید ی ہیںاب ان سب کی حالت مقبروں میں قید انسانوں کی طرح ہوگئی ہے جہاں ہوا آنے کے تمام راستے بند ہیں اس لیے یہ سب گھٹ گھٹ کر آہستہ آہستہ مررہے ہیں ۔ اسی وجہ سے وہ دوسروں کے سکون ، خو شیوں اور مسرت کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔ نہ انھیں چین اور سکون حاصل ہورہاہے اور نہ ہی وہ دوسروں کو چین اور سکون حاصل ہونے دے رہے ہیں ۔ انھوں نے ملک میں چاروں طرف خوفناک تباہی برپا کررکھی ہے ایسی بربادی پھیلائی ہے کہ جس کے ملبے تلے کروڑوں انسان دبے ہوئے ہیں ۔ جن کی چیخیں سن کر وہ تسکین حاصل کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ۔

وہ یہ بات بھی یکسر بھول چکے ہیں کروڑوں انسانوں کو برباد کرکے وہ کیسے سکون اور مسرت حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ اس دنیا کا سارے کے سارا نظام انسانوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا کے اختیار میں ہے انسانوں کا قانون بدل سکتاہے لیکن خدا کا قانون نہ کبھی بدلا ہے اور نہ ہی کبھی بدلے گاانسانوں کو برباد کرکے آپ کبھی بھی سکون سے یا خوشی سے زندگی نہیں گذار سکتے ۔ آپ صرف اور صرف اس وقت پر سکون اور پر مسرت زندگی گذار سکتے ہیں جب آپ دوسرے انسانوں کی زندگیاں پر مسرت بناتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔