اسٹیٹ بینک کے خودمختار گورنر کی تلاش

نصرت جاوید  ہفتہ 8 فروری 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

فریقین نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دی۔ پھر دونوں اطراف سے یہ مذاکرات کرنے کے لیے نمایندے بھی مقرر کر دیے گئے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ کمیٹیاں خاموشی سے کسی نامعلوم مقام پر منتقل ہو جاتیں اور مناسب وقت لینے کے بعد عوام کے سامنے آ کر خیر کی کوئی خبر سناتیں۔ میڈیا ہمارا مگر بہت ہی زیادہ مستعد ہے۔ قوم کو پل پل با خبر رکھنا چاہتا ہے۔ مذاکرات کے لیے نامزد کیے گئے لوگ رپورٹروں اور اینکروں سے معذرت کر کے ان کا حل بھی دکھانا نہیں چاہتے۔

اسکرینوں پر رونق لگ چکی ہے اور ابھی تک بات سامنے آئی ہے تو اتنی کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کو پاکستان نام کا ایک ملک لے کر دیا تھا جہاں اسلامی نظام کا بھرپور نفاذ ہونا تھا۔ بدقسمتی سے اس ملک بنانے والے کو موت نے مہلت نہ دی۔ ان کے بعد قائدِ ملت نے یہ ملک سنبھالا تو ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کے ذریعے شرعی نظام لاگو کرنے کا عہد کیا۔ انھیں مگر راولپنڈی کے لیاقت باغ میں شہید کر دیا گیا۔ بالآخر 1973ء میں کہیں جا کر اس ملک کو ایک متفقہ آئین ملا۔ اس آئین پر سیکولر کہلائے جانے والے ولی خان نے بھی دستخط کیے اور مولانا مفتی محمود اور مولانا سمیع الحق کے مرحوم والد جیسے اکابرین دیوبند کے قد آور جانشینوں نے بھی۔ اس آئین کو لیکن پوری طرح نافذ نہ کیا جا سکا۔ درمیان میں دو فوجی حکومتیں بھی آ گئیں۔ ان سے بالآخر 2008ء میں مکمل فراغت کے بعد منتخب نمایندے کئی مہینوں تک سر جوڑ کر بیٹھے رہے۔

مولانا فضل الرحمن جیسے علماء کے ساتھ رضا ربانی جیسے ترقی پسند، افراسیاب خٹک جیسے سیکولر اور اسحاق ڈار جیسے روشن خیال مسلمان نے مل بیٹھ کر اس آئین کو فوجی آمروں کی متعارف کردہ خرافات سے پاک کیا۔ اب جھگڑا صرف اتنا ہے کہ آئین کی اسلامی شقوں کے بھرپور نفاذ کے طریقے سوچے جائیں۔ دونوں فریقین کے انتہائی باوقار و بااختیار نمایندگان مل بیٹھے ہیں تو کوئی نہ کوئی  نظام ڈھونڈ نکالا جائے گا۔ فکر نہ کریں۔ 24/7 مذاکراتی نمایندوں کا تعاقب کرتے ہوئے Breaking News ڈھونڈنے کی ہیجانی کیفیات میں مبتلا نہ رہیں۔ تھوڑا وقفہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستان ایک خاصی بڑی ریاست ہے۔ اس کے بڑے اہم معاشی مسائل بھی ہیں۔ ان مسئلوں میں ایک بہت اہم سوال یہ بھی ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر کو امریکی ڈالر کے مقابلے میں ایک حد سے نیچے نہ جانے دیا جائے۔ ہمارے وزیر خزانہ دن رات اسی لگن میں مبتلا ہیں۔ حیف ہے مگر ہمارے میڈیا پر۔ کوئی ایک صحافی بھی ڈار صاحب کی محنت و مشقت پر توجہ نہیں دے رہا۔

ربّ کا بڑا شکر ہے کہ ہمارے ماہرین معیشت اُردو پڑھنا نہیں جانتے۔ انھیں اُردو میں چھپے اخبارات پڑھنے کی عادت ہوتی تو ابھی تک اس کالم میں اسحاق ڈار صاحب کی محنت و مشقت کے بارے میں جو کچھ میں نے لکھا ہے اس پر بہت ناگواری سے میری جہالت پر جھلّا جاتے۔ اگر میں ان کے سامنے بیٹھا ہوتا تو سخت گیر استادوں کی طرح مجھے سمجھاتے کہ بھائی پاکستانی روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کے لیے کوئی زیادہ مشقت کی ضرورت نہیں۔ اپنی درآمدات کم کرتے ہوئے برآمدات کو تیزی سے بڑھاتے رہو اور ضرورت سے زیادہ آمدنی والوں سے ٹیکس کا حصول یقینی بناؤ۔ بس یہ دو کام ہوجائیں تو روپے کی قدر مستحکم ہونے کے بجائے بڑھ بھی سکتی ہے۔ یہ کہنے کے بعد بڑی رعونت سے یہی ماہرین معیشت مجھے یہ سمجھانا بھی شروع ہو جاتے کہ ڈار صاحب کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ Economist نہیں ہیں۔ ان کی بنیادی تعلیم اکاؤنٹس کے شعبے سے متعلق رہی ہے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ ان کی اصل Expertise یہ ہے کہ وہ کسی دوسرے کے کاروبار پر ہونے والے اخراجات اور اس سے ہونے والی آمدنی کا حساب کتاب کرنے کے بعد ایک Balance Sheet تیار کرتے ہیں۔ انھیں کیا پتہ کہ آمدنی بڑھانے کے لیے کونسے کونسے دھندے پر سرمایہ کاری کا بندوبست کس طرح کیا جائے۔ معاشیات کی الف بے سے قطعی ناواقف ہونے کی بناء پر میرے پاس خاموش ہو جانے کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہ رہتا۔

دل ہی دل میں لیکن میں یہ ضرور سوچتا کہ ملک کی برآمدات بڑھانی ہیں تو مصنوعات بنانے والے کارخانوں کو چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں بجلی اب ریاست سے کہیں زیادہ IPPs پیدا کرتے ہیں۔ وہ گزشتہ حکومت میں کافی عرصے تک بجلی پیدا کرتے رہے مگر حکومت نے انھیں اس کی قیمت بر وقت ادا نہ کی۔ بالآخر قرض بڑھتے بڑھتے ناقابل برداشت Circular Debt بن گیا۔ ڈار صاحب نے اقتدار سنبھالتے ہی 500 ارب روپے کسی نہ کسی طرح اکٹھا کیے اور یہ Debt  یکمشت ادا کر دیا۔ مسئلہ مگر یہ بھی ہے کہ IPPs جس نرخ پر بجلی پیدا کرتے ہیں ریاستِ پاکستان اسے اس نرخ سے آدھی قیمت پر اس ملک کے صارفین کو فراہم کرتی ہے۔ بجلی کی اصل قیمتِ خرید اور قیمت فروخت میں جو فرق ہوتا ہے وہ پاکستانی ریاست اپنے خزانے سے پورا کرتی ہے۔ اب ریاستی خزانے کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ وہ اکثر ’’خالی ہونے کے قریب‘‘ پہنچ جاتا ہے۔ اسے ضرورت سے ز یادہ آمدنی والے پاکستانیوں سے ٹیکس اکٹھا کر کے بھرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی معقول نظام فی الوقت موجود نہیں۔ اس لیے ہمیں بار بار کشکول توڑنے کے بعد ایک توڑے ہوئے کشکول سے بھی بڑا کشکول تیار کرنے کے بعد IMF کے پاس جانا پڑتا ہے۔ وہ ہمارا خزانہ تو تھوڑا بہت بھر دیتے ہیں مگر مہاجنوں کی طرح ساتھ میں کچھ شرائط بھی عائد کر دیتے ہیں۔

ان دنوں سب سے زیادہ زور اس شرط پر دیا جا رہا ہے کہ نوٹ چھاپ کر ڈنگ نہ ٹپایا جائے۔ نوٹ چھاپنے سے حکومت کو اسٹیٹ بینک ہی روک سکتا ہے جس کا گورنر سنا ہے کہ بہت ’’خود مختار‘‘ ہوا کرتا ہے۔ زرداری صاحب نے مگر یٰسین انور کو لگا دیا۔ اب انھوں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ڈار صاحب ان دنوں بڑی محنت سے ایک واقعی ’’خود مختار‘‘ گورنر ڈھونڈ رہے ہیں۔ حکومت میں بیٹھے کچھ لوگوں کی نگاہ منیر کمال پر اٹکی ہوئی تھی۔ یہ صاحب تحریک انصاف کے اسد عمر اور پاکستان مسلم لیگ کے زبیر عمر کے ایک اور Talented  بھائی ہیں۔ ڈار صاحب کو ’’خودمختاری‘‘کے جراثیم لیکن صرف اورنگ زیب صاحب میں نظر آ رہے ہیں۔ سنا ہے یہ صاحب ان دنوں سنگاپور میں اسکاٹ لینڈ کے کسی بہت ہی بڑے بینک کے نمایندہ ہیں۔ ہمارے ایک بڑے ہی نیک نام اور دھانسو جانے والے بھی جسٹس (ریٹائرڈ) خلیل الرحمن رمدے کے بڑے قریبی عزیز بھی ہیں۔ وہ مان جائیں تو پاکستانی روپے کی قدر کافی مستحکم ہو جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔