پروٹوکول اور ریٹنگ کا مرض

محمد مشتاق ایم اے  جمعرات 25 نومبر 2021
ہمارے ملک میں ایک مخصوص طبقہ ان دو امراض میں مبتلا ہے۔ (فوٹو: فائل)

ہمارے ملک میں ایک مخصوص طبقہ ان دو امراض میں مبتلا ہے۔ (فوٹو: فائل)

مرض کوئی بھی ہو اس کی تکلیف اور شدت مختلف ہوسکتی ہے لیکن اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ جس بھی شخص، جانور، پرندے یا کسی بھی مخلوق کو جب کوئی مرض لاحق ہوتا ہے تو وہ اس کی تکلیف کی شدت سے کراہنے لگتا ہے، اسے دنیا کی ہر لذت اور خوشی بے معنی نظر آنے لگتی ہے اور وہ ہر حال میں اس مرض سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتا ہے۔

اس تکلیف سے نجات کے لیے وہ کبھی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو کبھی دم درود کرانے کسی پیر اور مولوی کے پاس جا پہنچتا ہے اور کبھی کسی کے کہنے پر گھریلو ٹوٹکے آزمانے لگ جاتا ہے۔ ان سب کوششوں کے پیچھے اس کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے کہ اسے لاحق مرض سے نجات حاصل ہو اور وہ راحت و امن کی زندگی بسر کرسکے۔ اور جب تک وہ اس مرض سے صحت یاب نہیں ہوتا اس وقت تک اسے نہ کھانے پینے کا ہوش رہتا ہے اور نہ ہی کسی کی بات اسے اچھی لگتی ہے۔ ہاں جب وہ صحت یاب ہوتا ہے تو پکا سچا مسلمان بن کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور پھر کچھ دنوں یا ہفتوں میں دوبارہ اپنی دنیاوی زندگی میں مگن ہوجاتا ہے۔

لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ دنیا میں کچھ امراض ایسے بھی ہیں، جو بھی ان میں مبتلا ہوجائے اسے پھر ان امراض سے چھٹکارا پانے کی تمنا نہیں ہوتی بلکہ وہ ہر آئے دن ان میں ڈوبتا چلا جاتا ہے اور اس کا مرض جتنا بڑھتا ہے اس کا سینہ فخر سے اتنا ہی پھولتا جاتا ہے۔ ایسے مرض میں مبتلا شخص کو بھی نہ پھر اچھے برے کی تمیز رہتی ہے اور نہ ہی کھانے پینے اور سونے جاگنے کی کوئی ترتیب باقی رہتی ہے۔ وہ دو امراض ہیں ’’پروٹوکول‘‘ اور ’’ریٹنگ‘‘۔

انسان بنیادی طور پر خوشامد پسند واقع ہوا ہے اور سوائے پیغمبروں، اولیا اللہ اور نیک بندوں کے، جس بھی انسان کی چار بندے تعریف کردیں اس کی چھاتی خودبخود دو انچ چوڑی ہوجاتی ہے۔ لوگوں سے ایسی باتیں سن کر اس کے اندر مشہور ہونے کی خواہش انگڑائیاں لیتی ہے اور اگر اس کے پاس پیسے کی فراوانی ہے تو وہ اپنے مقصد میں جلدی کامیاب ہوجاتا ہے۔ اور جب بھی گھر سے باہر نکلتا ہے تو اس کے آگے پیچھے دس بیس آدمی ہاتھ باندھے اسے رخصت کرنے اور کہیں بھی استقبال کرنے موجود ہوتے ہیں، جن کا چائے مال کا خرچہ اسی آدمی کے پیسوں پر چل رہا ہوتا ہے۔

اب وہ شخصیت کردار کی کیسی بھی ہو، اگر اس کے پاس مال و دولت کی کمی نہیں تو وہ جب اکڑا ہوا کاٹن کا سوٹ پہن کر مونچھوں کو تاؤ دے کر اپنے گھر، دفتر سے باہر نکلتا ہے اور اس کے آگے دو چار گاڑیاں، اس کے لمبے چوڑے گارڈ کلاشنکوف یا رائفل اٹھائے اسے گاڑی میں بٹھاتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو دنیا کا سب سے اہم فرد سمجھ رہا ہوتا ہے۔ جو مخلوق خدا اس کے پروٹوکول کا مشاہدہ کر رہی ہوتی ہے وہ ویسے ہی اس کے رعب اور دبدبے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی اور پھر اپنے چھوٹے موٹے سرکاری کاموں کےلیے اس کے ڈیرے پر آکر اپنی عرضیاں پیش کرنے لگتی ہے۔ پھر مقامی، صوبائی، قومی اور مذہبی تہواروں پر ان پروٹوکول والے ڈیروں پر تقریبات منعقد ہوتی ہیں جہاں پر لوگوں کا رش ہوتا ہے۔ یہاں سے ان کے پروٹوکول کو چار چاند لگ جاتے ہیں اور پھر یہ لوگ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے۔

پھر جو کونسلر کا الیکشن لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ اس میں حصہ لیتا ہے۔ کوئی صوبائی، قومی اور سینیٹ کی سیٹ کےلیے جان کے ساتھ پیسہ بھی لڑاتا ہے اور پھر جتتی کسی کی ہمت اور سکت ہوتی ہے وہ وہاں تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن ان سب میں ایک بات مشترک ہوتی ہے کہ یہ سب ’’پروٹوکول‘‘ کے مرض میں ایسے مبتلا ہوجاتے ہیں کہ پھر ان کےلیے ساری زندگی اس مرض سے نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ پروٹوکول کے جس مرض کی بات ہورہی ہے وہ صرف سیاست دانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ سرکاری افسران کے پروٹوکول کا اپنا ایک نشہ ہے اور عسکری افسران کے پروٹوکول کی ایک الگ ہی بات ہے۔ کہیں کوئی پٹواری اپنا دفتر کھولے بیٹھا ہو تو اس کے سامنے زمیندار اور جاگیردار ایسے بیٹھے ہوتے ہیں جیسے یہ اس پٹواری کے قرض دار ہیں۔ اسی طرح ہر لیول کے افسر کا اپنا پروٹوکول ہے، جس کی بدولت وہ عوام سے ممتاز ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ پروٹوکول کا حامل ہر شخص اپنی گردن میں لوہے کا سریا رکھتا ہو لیکن بہرحال یہ بات طے ہے اس پروٹوکول کے مرض نے عام آدمی کی تکلیف اور پریشانی میں اضافہ ہی کیا ہے، کمی نہیں۔

پروٹوکول کے حامل شخص کے ساتھ وابستہ لوگوں کا گھیراؤ اپنی محبوب شخصیت کے ساتھ ایسی ایسی صفات جوڑ دیتا ہے کہ عام آدمی کےلیے وہ شخص ایک مافوق الفطرت مخلوق بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جس سے چھٹکارے کی خواہش اس کے مریض کے سینیے میں بھی کبھی نہیں جاگتی اور یہ مرض اس کےلیے ایک نشے کی کیفیت میں ڈھل جاتا ہے جس کا کوئی علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا۔

ایک دوسرا مرض جس کا جادو آج کل سر چڑھ کر بول رہا ہے، وہ ہے ’’ریٹنگ‘‘۔ آئیے پہلے پروٹوکول اور ریٹنگ کے مابین فرق کو سمجھ لیں۔ پروٹوکول کا نشہ ایسا ہے جس میں مبتلا ہونے کےلیے کسی کے پاس مال پیسے کی فراوانی کا ہونا ضروری ہے یا پھر کوئی مقابلے کا امتحان پاس کرکے کسی بڑے عہدے کی کرسی پر براجمان ہو، اسی صورت میں وہ پروٹوکول کے مزے لے سکتا ہے۔ لیکن ریٹنگ اور فالوورز بڑھانے کےلیے یہ چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔

اس مرض کا شکار ہونے والوں میں سے زیادہ کا تعلق ٹی وی، میڈیا چینلز اور پرنٹ میڈیا سے ہے۔ اس میں بھی زیادہ دوڑ مختلف ٹی وی چینلز پر نشر کیے جانے والے ڈراموں اور شوز کے درمیان پائی جاتی ہے۔ ٹی وی ڈراموں میں مقابلہ تو جنگی صورتحال اختیار کیے ہوئے ہے۔ ہر ٹی وی چینل اپنے ڈرامے کی ریٹنگ اور ویورز کی تعداد باقاعدہ اپنی نیوز بلیٹن میں پیش کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ فلاں ڈرامہ یا شو کو کتنے لاکھ مرتبہ دیکھا جاچکا ہے اور نہ جانے کون کون سے ریکارڈ توڑ دیے گئے ہیں۔ اور پھر اس ہوش ربا خبر کے بعد وہ معصوم اور بھولے بھالے ناظرین جو ڈرامے اور شو کو دیکھنے کے سعادت سے پہلے محروم ہوتے ہیں ان کے دل میں بھی خواہش انگڑائی لیتی ہے اور اسی وقت یا پہلی ہی فرصت میں وہ بھی انٹرنیٹ کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس ڈرامے اور شو کو دیکھنے کے بعد اپنا نام ریکارڈ ہولڈرز کی فہرست میں لکھوا لیتے ہیں اور ٹی وی ڈرامے اور شو کی ریٹنگ کو مزید بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اب چاہے اسے وہ ڈرامہ یا شو دیکھنے کے بعد پسند بھی آیا ہو یا نہیں اور اس نے اپنا وہ وقت ضائع ہی کیا ہو۔

اسی طرح اگر کوئی چینل کسی سنگر کا گانا آن ایئر کرتا ہے تو اس کے ویوز بڑھانے کےلیے بھی اسے اپنی نیوز اور پروموشن اشتہار کے ذریعے کچھ اس طرح سے پروموٹ کرتا ہے کہ ہر شخص اسے سب سے پہلے انٹرنیٹ پر سرچ کرنے کی سعادت حاصل کرنا ایک اعزاز سمجھتا ہے۔

چلیے ہم نے مان لیا کہ شوبز ستاروں کی دنیا ہے اور اس کا کام ہی انٹرٹینمنٹ ہے اور وہ اپنے ناظرین کی تعداد بڑھا کر اپنی پرفارمنس کو دوسرے چینلز کے مقابلے میں بہتر کرنا چاہتا ہے جو کہ اس کا حق ہے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن ہمارا سوال یہ کہ اس سارے قصے میں ڈرامے یا شو کا معیار کدھر ہے؟ ہماری اقدار کی اہمیت کیا ہے ؟ ٹی وی دیکھنے والے کروڑوں ناظرین کی حقیقی انٹرٹینمنٹ کہاں ہے؟ ان سب ڈراموں اور شوز کو دیکھ کر ہمارے معاشرے کی کیا صورت بنتی جارہی ہے؟ اس بارے میں اکثریت کا یہی خیال ہے کہ آج کل کے ڈراموں میں نہ مذہبی اقدار کا خیال رکھا جارہا ہے اور نہ ہی ہمارے معاشرتی اور ثقافتی طور طریقوں کو پروموٹ کیا جارہا ہے، بلکہ ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں سب کچھ کیا جا رہا ہے۔

اس حوالے چند دن پہلے محترمہ زنیرہ ضیاء صاحبہ نے خاص طور پر ایک ڈرامہ ’’خدا اور محبت‘‘ کے بارے میں بڑا اچھا بلاگ اسی ویب سائٹ کی زینت بنایا۔ آج کل بالکل ویسی ہی صورتحال ہے جس کا نقشہ انہوں نے بڑی خوبصورتی سے کھینچا۔

یہاں ہمارا سوال یہ ہے کہ ڈراموں کو آن ایئر کرنے سے پہلے کیا کوئی سنسر بورڈ کی طرح کا کوئی ادارہ نہیں ہے؟ شاید پیمرا کی ذمے داری میں ضرور آتا ہوگا کہ وہ کوئی بھی مواد آن ایئر جانے سے پہلے اس کے مندرجات چیک کرے اور پھر مذہب اور اپنی مشرقی روایات کو مدنظر رکھ کر اجازت دے۔ لیکن عملی طور پر ہمیں ایسی کوئی صورتحال نظر نہیں آتی اور یہ معاملہ صرف ٹی وی ڈراموں اور مارننگ شوز تک محدود نہیں بلکہ آج کل نہ جانے کس کس نام اور طرح کے پروگرامز اور شوز چل رہے ہیں جن کا نہ کوئی سر ہے اور نہ پیر۔ مطلب جن کا کوئی تعمیری مقصد کم از کم ہماری سمجھ سے باہرہے۔ ان ڈراموں، شوز اور پروگرامز میں استعمال کیے جائے والے لباس، زبان، لہجے اور رویوں پر ناظرین کی ایک بہت بڑی تعداد کو جائز اعتراضات ہیں، جن کا نوٹس لیا جانا بہت ضروری ہے۔

اگر بات معیار کی ہو تو کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں، اپنے پی ٹی وی کا 1970 سے 2000 کا دور دیکھ لیا جائے۔ پی ٹی وی پر پیش کیے جانے والے ڈراموں کا معیار، معلوماتی اور مذہبی پروگراموں کی تعداد اور مشرقی روایات کی پاسداری میں ان ڈراموں نے لوگوں کے دل جیت لیے۔ اچھائی اور برائی کی موجودگی ہر جگہ اور ہر وقت ہوسکتی ہے لیکن جب بات بحیثیت مجموعی کی جائے تو بلاشبہ پی ٹی وی کا اپنا پہلا 25 سے 30 سالہ دور ایک اچھی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔

یہاں بس گزارش یہی ہے کہ آپ بے شک پروٹوکول اور ریٹنگ کی دوڑ میں شامل رہیں لیکن خدارا اپنی مذہبی اور معاشرتی اقدار کا گلا نہ گھونٹیں اور نئی نسل کو اچھی، صحت مند اور معلوماتی تفریح مہیا کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ مشورہ ہے کہ پروٹوکول اور ریٹنگ کے بجائے لوگوں کو دلوں میں گھر کریں کہ یہی سب سے بڑی ریٹنگ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد مشتاق ایم اے

محمد مشتاق ایم اے

بلاگر ایک کالم نگار، سیاسی، سماجی اور کاروباری تجزیہ کار ہیں۔ سیاست، مذہب، تعلیم اور دوسرے سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان ہی پر زیادہ لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی @MMushtaq28 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔