چیلنجز سے سبق سیکھنے کی ضرورت

ایڈیٹوریل  منگل 23 نومبر 2021
عوام ان دنوں ایک جمہوری نظام میں سانس لے رہے ہیں ، حکومت نے قوم سے تبدیلی اور ترقی کا وعدہ کیا تھا۔ (فوٹو : فائل)

عوام ان دنوں ایک جمہوری نظام میں سانس لے رہے ہیں ، حکومت نے قوم سے تبدیلی اور ترقی کا وعدہ کیا تھا۔ (فوٹو : فائل)

جمہوریت کے لیے سب کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا ہوگا، ملک آئین کے تحت چلانا ہے تو تمام ادارے حدود میں رہ کر کام کریں۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ملکی جمہوریت کے تاریخی ارتقا کو سامنے رکھتے ہوئے سیاسی رہنماؤں، ماہرین قانون و آئین اور دانشوروں کی باتیں آدمی کو پاگل بنا دیتی ہیں، کیونکہ جمہوریت کی شان میں جو فصاحت وبلاغت جمہوری عمل کے لیے پیش کی جاتی ہے وہ عملی طور پر ملک میں نظر نہیں آتی ، چنانچہ عمومی طور پرعوام ہمیشہ جمہوری نظام کے حق میں رہتے ہوئے بھی اس جمہوری نظام کے حصول میں ناکام رہے۔

یوں لوگ جمہوریت کی تلاش میں تیشہ فرہاد لے کر گھر سے نکلے، پولنگ بوتھ پر اپنا ووٹ کاسٹ کیا، انتخابی منشور کا مطالعہ کیا، سیاسی تقاریر سنیں، میڈیا میں جمہوری نظام کی ترقی کے دعوے سنے، لیکن ملک کو ایک جمہوری ریاست دیکھنے کی تمنا آج بھی ہر سیاسی شعور رکھنے والے کے دل میں ہے۔

جمہوریت اس کے دل ودماغ سے نکلنے کا نام نہیں لیتی اور یہ سب سے بڑی حقیقت ہے، لیکن اس بھی بڑا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو استحکام نصیب کیوں نہیں ہوا ، سیاست دور اندیشی، خرد افروزی سے محروم کیوں ہے، سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ، قومی اداروں اور سرکاری محکموں میں ہم آہنگی نہیں، ملک میں جمہوریت اور آمریت کے مابین ایک کشمکش ہی رہی ، بے شمار سیاسی المیے رونما ہوئے ، جمہوری حکومتیں آتی رہیں، ان کے سالانہ بجٹ پیش کیے گئے۔

اقتصادی اور معاشی پروگرام تیار ہوئے، ہمارے معاشی مسیحاؤں نے قوم کو ایشین ٹائیگر بنانے اور دنیا کی دسویں سب سے بڑی مستحکم معیشت بنانے کے دعوے کیے، مگر حصول آزادی سے لے کر آج تک عوام کو آسودگی اور معاشی انصاف نہیں ملا ۔

عوام ان دنوں ایک جمہوری نظام میں سانس لے رہے ہیں ، حکومت نے قوم سے تبدیلی اور ترقی کا وعدہ کیا تھا، لوگ منتظر تھے کہ حالات بدلیں گے، لیکن انھیں جمہوریت سے ثمرات نہیں ملے، مہنگائی، غربت اور بیروزگاری نے ان کا محاصرہ کرلیا ہے، انھیں گیس نہیں ملی رہی، بجلی کے بل ادا کرنے کی طاقت نہیں رہی، آئی ایم ایف پیکیج ایک پراسرار معاملہ ہے ، عوام کو ریلیف ملنے کی کوئی امید بر نہیں آتی ، کوئی صورت نظر نہیں آتی ، حکومت عوام کو جس موجودہ جمہوری نظام کو دکھوں کا مداوا قرار دیتی ہے۔

اس نے تو لوگوں کی چیخیں نکال دی ہیں، عوام کے لیے جمہوری نظام ہی ملکی سیاست کی آخری امید رہ جاتی ہے لیکن علمبرداران جمہوریت ابھی تک اس سسٹم کے سنگ میل کو عبور نہیں کرسکے ہیں جہاں پہنچ کر عوام کو یقین ہوجائے کہ یہی وہ جمہوری نظام ہے جس کے لیے قوم منتظر رہی ، مسلم لیگ(ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا آج تاریں کاٹ کر زبان کھینچی گئی، صحافیوں پر ظلم ہوتے ہیں، ووٹ کو عزت نہیں دی جاتی، منتخب حکومتوں کے خلاف دھرنے کرائے جاتے ہیں، ججوں پر دباؤ سے اپنی پسند کے فیصلے کرائے جاتے ہیں۔

فون کر کے ضمانتیں رکوائی جاتی ہیں، انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا، ہمیں اپنی آنکھیں کھولنی چاہئیں، فوری حکمت عملی اپنانا ہو گی، مزید تاخیر کے متحمل نہیں ہو سکتے، اگر ایسا نہ کیا تو تاریخ معاف نہیں کر یگی، یہاں حکومتیں بنائی اور گرائی جاتی ہیں، پھر کہتے ہیں کہ دنیا ہم پر پابندیاں کیوں لگاتی ہے، کٹہرے میں کھڑا کیوں کرتی ہے، ججوں پر دباؤ اور بلیک میلنگ سے سیاسی مخالفین کے خلاف فیصلے لیے جاتے ہیں، کیا عدالتوں نے ڈکٹیٹروں کو آئین میں ترمیم کی اجازت نہیں دی۔

یہاں تک کہا گیا کہ آئین ایک ردی کا ٹکڑا ہے، 74سالوں سے دائروں میں سفر جاری ہے، کیا ہم بھیڑ بکریاں ہیں جن کو جب مرضی ہانک دیا جائے، پاکستان کے22کروڑ عوام کا حق ہے کہ انکو مہنگائی اور بیروزگاری سے نجات ملے، ہمارے خلاف جھوٹے مقدمات بنوا کر سزائیں دلوائی گئیں۔

سب کو جمہوریت کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ہوگا، ملک کو گہری کھائی سے نکالا جائے، ایسا نہ کیا تو تاریخ ہم سب کو معاف نہیں کریگی۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جن لوگوں نے احتساب کے قوانین بنائے وہ ان پر لاگو نہیں ہوتے، لوگ اپنی وفا داریاں تبدیل کرتے ہیں اور احتساب سے بچ جاتے ہیں، کوئی بیوروکریٹ کام نہیں کرتا، نیب کا تفتیشی افسر سیکریٹری کے سامنے دو پیپر رکھتا ہے کہ ایک وارنٹ ہوتا ہے اور دوسرا متعلقہ وزیر کے خلاف مالی کھاتوں میں تصدیق کا پیپر ہوتا ہے۔

نیب کبھی اقتدار میں موجود طاقتور طبقے کے خلاف کارروائی نہیں کرتا،80 فیصد سے زیادہ سیاستدان قومی خزانے کی دولت میں براہ راست مداخلت نہیں کرتے، گورننس کی ناکامی کی بڑی وجہ نیب ہے، تفتیش کے دوران اور عدالتوں میں کیمرے لگائے جائیں تاکہ عوام کو اصل حقائق پتہ چل سکیں۔ منی لانڈرنگ کا ریفرنس کسی کے خلاف بھی دائر کردیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ آئین کے تحت ملک چلانا ہے تو تمام ادارے حدود میں رہ کر کام کریں۔ بہت سے طاقتور لوگ اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں۔

دنیا کے کسی معاشرے میں لیکچر سے چیزیں ٹھیک نہیں ہوتیں، مسئلہ یہ ہے ہمارے ادارے کام نہیں کر رہے۔ تقسیم ہند کے وقت کچھ عقل مند لوگوں نے کہا کہ پاکستان مارشل لاؤں کی آماجگاہ بنے گا کمزور نظام اس معاشرے کو خراب کرے گا‘ بزنس ایلیٹ ملک کو لوٹے گی‘ طاقتور لوگ کرپشن میں ملوث ہوں گے اور یہ کرپشن زدہ سوسائٹی بن جائے گی۔ ہم نے ان سے اختلاف کیا لیکن 74سال بعد یہ باتیں درست ہورہی ہیں۔

ملک میں احتساب نام کی کوئی چیز نہیں۔ ہمارے ملک میں بھی ہر قسم کے قوانین موجود ہیں لیکن ان پر صحیح طرح عمل نہیں کیا جارہا۔ اگر ہمیں آئین کے تحت ملک چلانا ہے تو سارے اداروں کو آئین کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ جب تک ہر ادارے میں احتساب نہیں ہوتا صحیح معنوں میں جمہوریت نہیں آسکے گی۔ تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ آج طاقتور کا بھی احتساب ہو رہا ہے۔

ہر کوئی نیب سے ڈر رہا ہے، جس پر اعتماد کرنا چاہیے، جس طرح کی تبدیلی ہونی چاہیے تھی وہ نیب میں نہیں ہوئی۔ سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون نے کہا کہ ججز کو یہ پتا نہیں تھا کہ کس کس کو کانفرنس میں خطاب کرنا ہے، انھوں نے کہا کہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہ تھی ایک نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے بارے میں ججز کو علم نہیں تھا کہ وہ تقریر کریں گے، کیونکہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں ہر سیشن کا ایک موضوع تھا، افغان ایشو کے سیشن میں وفاقی وزیر اطلاعات و ونشریات فواد چوہدری بطور مہمان خصوصی مدعو تھے ، وہ بوجوہ نہیں آئے صدر بار نے کہا کہ ہم حکومت کے نکتہ نظر کا احترام کرتے ہیں ، مگر ہمارا اپنا بھی ایک نکتہ نظر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کو جس اسموتھ سیلنگ کی ضرورت ہے وہ اسے میسر نہیں، ملک ایک فکری بحران کا شکار ہے، سیاسی افراط وتفریط کی انتہا ہوگئی ہے، محاذ آرائی عروج پر ہے، سیاسی تناؤ ، بلیم گیم اور دشنام طرازی کے باعث سیاسی نظام نشو ونما پانے کی نظریاتی اور سیاسی تقویت پانے سے محروم ہے، ملک شفافیت ، میرٹ، مساوات اور رواداری کو ترس رہا ہے، گھناؤنے اور بہیمانہ جرائم ، غیر قانونی تعمیرات ، لاقانونیت اور قانون کی حکمرانی کا چراغ رخ زیبا ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا، کسی نے کہا ہے کہ جمہوریت میں اکثریت کی حکمرانی ہوتی ہے مگر حکما کے نزدیک جمہوری نظام اکثریت کے تحفظ اور بقا سے عبارت ہے۔

وہی جمہوری نظام قابل قدر ہوگا جو عوام کو زندگی، روزگار اور رہائش و مساوات کی آزادی کو یقینی بناتا ہو، ہم نے جمہوری سسٹم کے اصولوں سے بے وفائی کی، اداروں میں آج بھی تصادم کی صورتحال ہے، سب اسی بات پر لڑتے ہیں کہ ادارے اپنی آئینی حدود میں رہیں ، تو معاملات میں بہتری آئیگی لیکن جمہوریت کیسے فنکشنل ہوگی جب حکومت اپوزیشن سے بات چیت کی روادار نہیں، اب بھی وقت ہاتھ سے نکلا نہیں ، حکمراں جمہوری اسپرٹ اور اسپورٹس مین شپ سے کام لیں، سارے مسئلے حل ہونگے لیکن اس کے لیے قوم کو ایک رول ماڈل نظر آجائے تب ہی قومی صف کی سمت درست ہوگی، قانون و آئین پر چلنے کی بات کرنا آسان ہے لیکن قانون کے احترام کے لیے جمہوری اقدار اور اصلاحات کی پاسداری کرنا بہت مشکل ہے ۔

ملک کو چیلنجز کا سامنا ہے، ملکی تجزیہ کار سقوط مشرقی پاکستان کی یاد میں واقعات اور حالات کے نتائج پر دل گرفتہ ہوجاتے ہیں، بعض قلم کاروں نے 16  دسمبر1971 کو ایک بار پھر ڈھاکا ڈوبتے دیکھا، کیا ہم نے اس قومی سانحے سے کوئی سبق حاصل کیا۔ جمہوریت کے تجربات اور ملکی چیلنجز سے ہی کچھ سیکھ لیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔