عزیز احسن کا تخلیقی ہنر

شکیل فاروقی  منگل 23 نومبر 2021
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

میں اُس کا نام نہ لوں اور لوگ پہچانیں کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔

قارئینِ کرام مندرجہ بالا شعر کا حوالہ دینے کا مقصد ایک ایسی شخصیت کو متعارف کرانا  ہے ، جس کے بارے میں اِس سے زیادہ ممکن نہیں کہ موصوف ہیں نابغہ یعنی One and only۔ اِن کا اسمِ گرامی ہے عبدالعزیز خان لیکن ادبی حلقوں میں انھیں عزیز احسن کے نام سے پہچانا جاتا ہے، درحقیقت یہ اسمِ بامسمیٰ ہیں۔ ڈاکٹر عزیز احسن نہ صرف حمدونعت کی تخلیق کے حوالے سے خاص پہچان رکھتے ہیں بلکہ نعتیہ ادب کی تنقید کے ناتے سے بھی تخصص کے حامل ہیں۔

اردو نعت کا انتقادی سرمایہ ہو یا اس کے اسالیبِ جدید، نعت کی تخلیقی نزاکتیں ہوں یا اس ہنر حیرت کی لطافتیں، ڈاکٹر عزیز احسن کی تصنیفات میں نعت کے جملہ اسرار و رموز موضوع بنے ہیں۔ اپنی تنقیدی سرگرمی کو وہ خود بھی کمٹ منٹ سمجھتے ہیں تاہم کسی مخصوص نظریہ یا ازم سے وابستگی کو درست نہیں مانتے۔

ڈاکٹر عزیز احسن بھی اُن لوگوں میں سے ہیں جو تخلیقی ہنر کو مسلسل جاری اور متحرک حسنِ عمل خیال کرتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر عزیز احسن ’’ زندگی کا ہر مظہر جواز کی اساس پر ہی قائم رہ سکتا ہے‘‘ شاعری کے جواز کے لیے تو شعری زبان، محاورہ اور خصوصاً استعارہ اور علامت کا استعمال ہی بہت ہے۔

غالبؔ نے انھی کے استعمال سے ایسا طلسم باندھ دیا تھا جسے آج تک باطل نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ہر لفظ واقعتا ’’گنجینہ معنی کا طلسم‘‘  ہے۔ جس کی طلسم کشائی پر بڑے بڑے شارحین بھی عاجز نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر عزیز احسن نے استعارہ کو شعری زبان اور محاورے کی بنیاد قرار دیا ہے اور وہ حالیؔ کے اِس خیال سے متفق نظر آتے ہیں کہ محاورات کی بنیاد استعارے پر قائم ہے۔

وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ ’’جس استعارے کے معنی کا تعین تکرار یا کثرتِ استعمال نے کردیا ہو وہ استعارہ مردہ ہوجاتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر عزیز احسن نے ’’گلشنِ رازِ جدید‘‘ سے بھی اپنے موقف کی تائید میں بہت سی مثالیں پیش کی ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ تمام دیے گئے فارسی اشعار کا ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔ جس کا لب لباب یہ بتایا گیا ہے کہ’’ جمہوریت کی تلوار میں ہلاکت کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مضمون باندھتے ہوئے ڈاکٹر عزیز احسن کے ذہن میں جمہوریت کا خاکہ بھی ضرور موجود رہا ہو گا۔

اِسی لیے تو وہ اسلام کے شورائی نظام کی حمایت میں یہ کہنا نہیں بھولتے کہ’’ پاکستانی جمہوریت میں ہر حکمران کا چھوٹے سے چھوٹا وفادار بھی قانون سے بالاتر ہے۔‘‘ اُن کا یہ کہنا کہ ’’تصوف نظری نہیں بلکہ عملی علم ہے۔ اس کوچے میں قدم رکھنے والے لوگ قال کے نہیں حال کے قائل ہیں۔‘‘ (تبصرہ کتاب ’’منزلِ مقصود‘‘)یہ سب مضامین ڈاکٹر عزیز احسن کے مطالعے کی متنوع جہات کا پتا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عزیز احسن ایک عملیت پسند مسلمان ہیں۔ وہ محض گفتار کے نہیں کردار کے بھی غازی ہیں۔ اُن کے ہاں احکاماتِ خداوندی کی پابندی اور پیروی رسول ﷺ کے سوا کسی اور بات کی ذرا سی بھی گنجائش نہیں۔

وہ اقبال کے اس موقف کے حامی ہیں کہ

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اللّہ اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت و پیروی اُن کی زندگی کا محور ہے جو اُن کی روح پرور حمدوں اور نعتوں سے صاف ظاہر ہے۔ اُن کا ظاہر اور باطن ایک ہے اور یہی اُن کا مقصدِ حیات بھی ہے۔ اِس معاملہ میں ہمارا اور اُن کا موقف ایک ہی ہے یعنی: شکوہ نہ گلہ کرنا، راضی با رضا رہنا۔ بے شک یہی راہِ عافیت و نجات ہے۔شاعری کے حوالے سے اُن کا موقف بالکل واضح اور آئینہ کی طرح صاف و شفاف ہے۔

وہ کہتے ہیں’’ شاعری محض اوزان و بحور کی پابندی کا نام نہیں ہے۔ اِس کے لیے کچھ اور چاہیے یہی کچھ اور ذرا ٹیڑھی کھیر ہے۔ ‘‘ شاعری اور اچھے شاعر کے کلام کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ اُس کا ابلاغ آسان اور وسیع سے وسیع تر ہو تاکہ وہ عام آدمی کی سمجھ میں باآسانی آسکے اور اِس طرح عوام کی غالب اکثریت اُس سے مستفید ہو سکے۔ وضاحت کے لیے میر کا یہ شعر ہی کافی ہے:

شعر میرے ہیں خواص پسند

مجھ کو نسبت مگر عوام سے ہے

مثال کے طور پر خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی انتہائی مشہور و مقبول نعت کے اشعار:

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا

اور ایک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

یا پھر مثال کے طور پر ابوالاثر حفیظؔ جالندھری کے اشعار:

سلام اُس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی

سلام اُس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی

سادگی، سلاست، فصاحت اور بلاغت اِن اشعار کی انتہائی مقبولیت کی بنیادی وجہ ہے۔ عصرِ حاضر میں اِس قبیل کے نعت گو شعراء کرام کی طویل فہرست میں ایک نمایاں نام مظفرؔ وارثی (مرحوم) کا بھی شامل ہے۔ برسبیلِ تذکرہ اِس خاکسارِ غیر معروف نعت گو کی ایک نعت کا یہ مطلع بھی ملاحظہ فرمائیں:

عالم اگر ہوجائے ثناء خوانِ محمد

ہوگی نہ بیاں تابہ ابد شانِ محمد

قصہ مختصر اِس محدود کالم میں عزیزاحسن کی ذات اور صفات کا احاطہ کرنا ساگر کو گاگر میں بند کردینے کی کوشش کے مترادف اور ناممکن کی جستجو سے کم نہ ہوگا۔ عزیز احسن تہہ دار شخصیت کے حامل اور وسیع المطالعہ ہیں۔ وہ بہ یک وقت شاعر بھی ہیں، ادیب بھی ہیں اور تنقید نگار بھی جس کی بِناء پر اگر انھیں مینی سائیڈیڈ جینیس کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ انھیں اردو ہی نہیں فارسی اور عربی پر بھی دسترس حاصل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔