اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق؛ بہت دیر کی مہرباں…

علی احمد ڈھلوں  منگل 23 نومبر 2021
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

17نومبربروز بدھ تحریک انصاف کی حکومت کا ایک ایسا ’’خوش قسمت ترین دن تھاکہ اس دن حکومت نے پارلیمنٹ سے ریکارڈ 33بل منظور کروائے۔ یہ بالکل ایسے تھا جیسے کورونا کے دنوں میں اسکول و کالج کے بچوں کو دھڑا دھڑ پاس کیا گیا! اس دن اپوزیشن نے روایتی نورا کشتی جاری رکھی، جس سے عام پاکستانی ’’سہم‘‘ گیا کہ نہ جانے اب اپوزیشن کونسا پہاڑ توڑ دے گی۔

چند پیپر پھاڑ کر اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف ایسے پھینکے گئے جیسے اُن پر خوشی کے عالم میں کسی نے ’’پھولوں‘‘ کی بارش کر دی ہو۔ اور پھر اپوزیشن نے نورا کشتی میں ٹوئسٹ اُس وقت پیدا کیا جب انھوں نے احتجاجاً اسمبلی سے واک آؤٹ کرکے حکومت کو پورا موقع فراہم کیا۔ خیر جیسے بھی ہوئے مگر بل پاس ہو گئے ان بلز میں سے کئی بل بہت بہتر بھی تھے، جیسے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیزپاکستانیوں سے متعلق بل جس میں انھیں ووٹ کاسٹ کرنے کا حق دے دیا گیا ہے۔

اس حق کو ملنے کے بعد ویسے تو90فیصد عوام خوش نظر آرہے ہیں مگر چند سیاستدان اس بل کو سپریم کورٹ تک لے جانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اُن کا بڑا اعتراض یہ ہے کہ نیویارک میں بیٹھے شخص کو کیسے علم کہ ملتان کے حالات کیسے ہیں؟ حالانکہ یہ عذر درست نہیں ہے۔ بادی النظر میں ایک عام ووٹر سے زیادہ شعور اوورسیز پاکستانیوں کو ہوتا ہے۔ جب کہ ان کی نسبت اوور سیز پاکستانیوں کا وژن بہتر ہوتا ہے، سب سے بڑھ  کر اُن کا ایکسپوژر عام پاکستانی سے زیادہ ہوتا ہے۔

میں خود ہر سال ایک دو مرتبہ بیرون ملک سفر کرتا ہوں تومجھے بطور عام پاکستانی اُن چیزوںکا علم نہیں ہوتاجن کے بارے میں وہ علم رکھتے ہیں، حتیٰ کہ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں ایک ضمنی الیکشن کے بارے میں بھی وہ عام پاکستانیوں سے زیادہ آگہی رکھتے ہیں۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ وہ اپنے وطن سے دور انھیں جب وطن کی یاد آتی ہے تو وہ پاکستان کے بارے میں زیادہ چیزیں جاننے کے لیے نیٹ ’’سرفنگ‘‘ زیادہ کرتے ہیں۔ پھر اوور سیز پاکستانیوں میں سے زیادہ تعداد پڑھے لکھے اور باشعور افراد کی ہے جو ریسرچ پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔

آپ خود تحقیق کر لیں کہ ہمارے عام شہریوں کی بڑی تعداد کو یہ تک علم نہیں ہوتا ہے کہ ہمارے صدر کا کیا نام ہے، یا کون کون سی وزارت کس کے پاس ہے؟ حتیٰ کہ ماس کمیونیکیشن کے طلباء تک کو یہ باتیں پتہ نہیں ہوتیں۔ جب کہ اوور سیز پاکستانیوں کو ان وزیروں مشیروں کے بارے میں زیادہ علم ہوتا ہے۔

ایک طرف تو ہمارے معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر اوورسیز پاکستانی نہ ہوتے اور وہ پیسہ اپنے آبائی وطن میں نہ بھیجتے تو نہ جانے پاکستان کا کیا حال ہوتا۔ شایدملک دیوالیہ ہو چکا ہوتا۔ جب کہ دوسری طرف جب ووٹ کاسٹ کرنے کی باری آتی ہے تو ہمارا مشہور ڈائیلاگ ہوتا ہے کہ ’’انھیں کیا پتہ؟‘‘میرے خیال میں یہ ظلم ہے! بتایا جائے کہ کونسی جماعت اُن سے پیسے نہیں لیتی ؟ کیا ہر جماعت کے سیاسی ونگز نہیں بنے ہوئے؟ کیا وہ اس لیے ہیں کہ یہ لیڈرز جب باہر جائیں تو انھیں پروٹوکول دیا جا سکے۔ ان کے آگے پیچھے دو چار لوگ ہوں جو ان کے لیے ضیافتوں کا اہتمام کر سکیں۔

لہٰذاہمیں ان سب چیزوں سے نکلنا ہوگا، ہمیں دنیا کو دیکھنا ہوگا کہ وہ اس بارے میں کیا کر رہی ہے، آپ کو شاید یہ سن کر حیرت ہو کہ دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک اپنے بیرون ملک رہنے والے شہریوں کو کسی نہ کسی حوالے سے ملک میں ووٹ ڈالنے کا حق دیتے ہیں۔ برطانیہ کا کوئی شہری اگر ملک سے باہر رہتا ہے تو وہ انتخابات میں ووٹ ڈال سکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ بیرون ملک رہنے والے برطانوی شہری کے طور پر رجسٹرڈ ہو اور ایسا وہ 15سال ملک سے باہر رہنے تک ہی کر سکتا ہے۔

امریکا میں بھی ایک ریاست کا قانون دوسری ریاست سے مختلف ہے لیکن زیادہ تر ریاستوں نے بیرون ملک رہنے والوں کو ملک میں ووٹ ڈالنے کا حق دیا ہوا ہے۔انڈیا نے بھی بیرون ملک رہنے والے شہریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ دہری شہریت نہ ہو۔ مغربی ممالک میں فرانس وہ واحد ملک ہے جس نے کبھی بھی بیرون ملک شہریوں کے ملک میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے کوئی شرائط نہیں رکھیں اور بیرون ملک رہنے والا ہر فرانسیسی شہری ملک میں ووٹ ڈالنے کا حق رکھتا ہے۔

اگر اطالوی شہری کسی ایسے ملک میں رہ رہا ہے جہاں اطالوی حکومت کا کوئی سفارتی نمایندہ نہیں ہے تو اسے اٹلی آ کر ووٹ ڈالنا ہوگا اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اطالوی حکومت اس کے سفر کے 75 فیصد اخراجات برداشت کرتی ہے۔اور پھر ہم نے بھی تو یہ طریقہ کشمیر الیکشن میں اپنے ملک کے اندر ہی رائج کر رکھا ہے جیسے ہمارے ہاں جب آزاد کشمیر کے الیکشن ہوتے ہیں تو کشمیر سے باہر یعنی پاکستان کے دوسرے صوبے میں بھی حلقے بنائے جاتے ہیں، کہ وہ کشمیر کے حالات کو مدنظر رکھ کر ووٹ کاسٹ کر سکتے ہیں۔

قصہ مختصر کہ جب پاکستان میں موجودہ مخصوص شہریوں کو دو ووٹ ڈالنے کا حق ہے تو 90لاکھ سے زائد اوور سیز پاکستانیوں کو اس حق سے محروم کیوں رکھا جائے۔ اگر ہمارے سسٹم میں اوورسیز پاکستانیوں کو لے کر ووٹ ڈالنے میں تکنیکی مسائل ہیں تو بھائی! انھیں حل کروانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

اسی لیے اس وقت جو سب سے بڑا کام کرنے والا ہے وہ یہ ہے کہ یہ کیسے ہو گا؟ کیا ایسا کرنے کے لیے کوئی آئینی تبدیلیاں کرنا ہوں گی یا حکومت ان کے بغیر ہی ایسا کروا لے گی۔اگر کروالے گی تو اس کام کوبلاتاخیر آگے بڑھایا جائے تاکہ ہم اوور سیز پاکستانیوں کو مزید اعتماد میں لیں اور صحیح قیادت چننے میں وہ ہماری مدد کر سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔