- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
جراحی کے بعد انفیکشن سے خبردار کرنے والی ’زخم والی سیلفی‘
ایڈنبرا: سرجن حضرات کی جانب سے کئے گئے ایک سروے کے بعد معلوم ہوا کہ آپریشن سے گزرنے والے مریض اگر اپنے زخم کی تصویر بھیجتے رہیں تو زخم کی ٹھیک ہونے یا بگڑنے کا بہت حد تک درست اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اسے سادہ زبان میں ’سرجری سیلفی‘ کا نام دیا گیا ہے۔
ڈاکٹروں نے مزید کہا ہے کہ اس طرح مریض بار بار ڈاکٹر کے پاس جانے سے بچ جائیں گے اور خود طبی عملے پر بھی مریضوں کا دباؤ کم ہوجاتا ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کریہ عمل انسانی جان بچانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ سرجری کے ایک ماہ کے اندر ہونے والی اموات، آپریشن سے ہلاکتوں کی تیسری بڑی وجہ ہے۔ اس میں یہ ہوتا ہے کہ گہری جراحی کے بعد زخم بگڑجاتا ہے اور یوں مریض انفیکشن سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ دوسری جانب ہسپتال میں زیادہ رہنے سے ڈاکٹروں کے پیشے اور مریضوں کے جیب پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔
اس ضمن میں جامعہ ایڈنبرا ن ے 492 مریضوں کا ایک سروے کیا جنہیں بدن کی سرجری کے لیے ایمرجنسی وارڈ میں لایا گیا تھا۔ ان تمام مریضوں سے کہا گیا کہ وہ زخم کی سیلفی لے کر بھیجتے رہیں اور ڈاکٹروں کے سوالناموں کے جوابات بھی دیتے رہیں۔
تمام مریضوں سے آپریشن کے تین دن، پھر سات دن اور پندرہ روز بعد رابطہ کیا گیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ اسمارٹ فون سے زخم کی واضح تصویر لے کر بھیجیں اور کچھ سوالات کے جوابات بھی لکھیں۔ لوگوں سے پوچھا گیا کہ زخم کیسا ہے؟ اس میں تکلیف کسطرح کی ہے اور لوگ کیا محسوس کرتے ہیں؟
اسی طرح آپریشن سے گزرنے والے مریضوں کا دوسرا گروہ ایسا تھا جن میں 269 افراد تھے اور 30 دن بعد ان کی خبر لی گئی۔
سائنسدانوں نے دونوں گروہوں میں 30 دن کے اندر اندر انفیکشن کی شناخت میں کوئی فرق نہیں دیکھا۔
اگرچہ سیلفی والے گروہ کے زخموں میں انفیکشن دوسرے گروہ سے چارگنا زائد تھے لیکن ان میں ساتویں روز ہی انفیکشن کا انکشاف ہوگیا جبکہ دوسرے گروپ میں ایسا نہ تھا ۔ اس ضمن میں اسمارٹ فون سیلفی والے گروپ نے ہسپتالوں کے چکر بھی کم کاٹے اور انہوں نے اپنے زخم کی بہتر نگہداشت کی۔ اس طرح زخم کی سیلفی کے بہتر نتائج سامنے آئے۔
ڈاکٹروں کے مطابق مریضوں میں بحالی کا دورانیہ بہت پریشان کن ہوتا ہے۔ اس ضمن میں موبائل ٹیکنالوجی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ مریضوں اور خود ڈاکٹر بھی زخم کے ہر مرحلے سے واقف نہیں ہوتے اور اسی لیے ابتدائی درجے میں ہی زخم کو دیکھ کر اس کے انفیکشن اور دیگرپیچیدگیوں کا احساس کیا جاسکتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔