آئن اسٹائن کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ’انقلابی سائنسی تحریر‘ اربوں روپے میں نیلام

ویب ڈیسک  بدھ 24 نومبر 2021
کچھ اہم تکنیکی غلطیوں کی وجہ سے آئن اسٹائن نے یہ مسودہ مسترد کردیا تھا

کچھ اہم تکنیکی غلطیوں کی وجہ سے آئن اسٹائن نے یہ مسودہ مسترد کردیا تھا

پیرس: بیسویں صدی کے عظیم ترین سائنسدان البرٹ آئن اسٹائن کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک اہم اور انقلابی تحریر گزشتہ روز 13 ملین ڈالر (2 ارب 28 کروڑ پاکستانی روپے) کی ریکارڈ مالیت پر نیلام ہوئی۔

54 صفحات کی یہ دستاویز ’عمومی نظریہ اضافیت‘ (جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی) کا سب سے پہلا مسودہ ہے جس میں کچھ تکنیکی غلطیاں بھی ہیں۔

اس دستاویز پر آئن اسٹائن نے اپنے قریبی دوست مائیکل بیسو کے ساتھ 1913 اور 1914 میں اس وقت کام کیا تھا کہ جب وہ زیورخ، سوئٹزرلینڈ میں مقیم تھا۔

دستاویز کا زیادہ حصہ آئن اسٹائن کے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے جبکہ چند مقامات پر بیسو کی دستی تحریر (ہینڈ رائٹنگ) بھی موجود ہے۔ اس دستاویز پر آئن اسٹائن کے ذاتی دستخط بھی موجود ہیں جو اس کے اصل ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔

جب یہ دستاویز مکمل ہوگئی تو آئن اسٹائن نے اس پر نظرِ ثانی کی، جس سے معلوم ہوا کہ اس میں کچھ اہم تکنیکی غلطیاں موجود ہیں۔

انہی غلطیوں کی وجہ سے آئن اسٹائن نے یہ مسودہ مسترد کردیا لیکن بیسو نے اسے سنبھال کر اپنے پاس رکھ لیا اور مرتے دم تک پوری احتیاط سے محفوظ رکھا۔

بیسو کے بعد یہ مسودہ مختلف ہاتھوں سے ہوتا ہوا بالآخر فرانسیسی نیلام گھر ’آگیوتس‘ پہنچا جس نے گزشتہ روز برطانیہ کے عالمی شہرت یافتہ ’کرسٹیز‘ نیلام گھر کے توسط سے پیرس میں اس کی نیلامی کا اہتمام کیا، جس میں دنیا بھر سے دلچسپی رکھنے والے افراد بذریعہ ٹیلیفون اور انٹرنیٹ بھی شریک ہوئے۔

ابتدائی اندازے کے مطابق، اس مسودے کو تقریباً 43 لاکھ ڈالر میں نیلام ہونا چاہیے تھا۔

بولی کا آغاز تقریباً 17 لاکھ ڈالر سے کیا گیا۔ صرف چند منٹوں میں یہ بولی ایک کروڑ ڈالر کا ہندسہ عبور کرگئی جبکہ فون پر صرف دو خریدار ہی مقابلے پر رہ گئے۔

بالآخر ان میں سے ایک نے 13 ملین ڈالر کی بولی لگا کر یہ مسودہ خرید لیا۔ کرسٹیز نے اب تک اس خریدار کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے۔

اگرچہ اس سے پہلے بھی آئن اسٹائن کے استعمال میں رہنے والی چیزیں اور دستی تحریریں بہت مہنگے داموں نیلام ہوتی رہی ہیں لیکن اس دستاویز کی مالیت ان سب سے کہیں زیادہ رہی ہے۔

یہ خبریں بھی پڑھیے:

یہی نہیں، بلکہ یہ اب تک سب سے مہنگے داموں فروخت ہونے والی سائنسی دستاویز بھی ہے۔

 

عظیم ترین سائنسی نظریہ

واضح رہے کہ عمومی نظریہ اضافیت کو بیسویں صدی کی طبیعیات (فزکس) میں اُس عظیم ترین نظریئے کا مقام حاصل ہے جس نے کائنات کے بارے میں ہماری سوچ انقلابی انداز میں بدل کر رکھ دی۔

آئن اسٹائن نے 1905 میں ’’خصوصی نظریہ اضافیت‘‘ (اسپیشل تھیوری آف ریلیٹیویٹی) کی صورت میں اس نظریئے کے ابتدائی خدوخال پیش کیے تھے جبکہ یہ کام اس نے 1915 میں مکمل کیا اور اپنے اس حتمی کائناتی نظریئے کو ’’عمومی نظریہ اضافیت‘‘ (جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی) کا نام دیا۔

تب سے آج تک ان گنت تجربات اور مشاہدات سے عمومی نظریہ اضافیت کی صداقت بار بار ثابت ہوتی آرہی ہے۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: کشش ثقل کی لہریں؛ ایک نئی فلکیات کی ابتداء

بلیک ہولز سے لے کر ثقلی موجوں (گریویٹیشنل ویوز) کی پیش گوئی اور دریافت تک، ہزاروں کائناتی دریافتیں بھی اسی نظریئے کی مرہونِ منت ہیں۔

یہی وہ تمام باتیں ہیں جو عمومی نظریہ اضافیت کے حوالے سے اوّلین مسودے کو (اس میں موجود غلطیوں سمیت) غیرمعمولی طور پر قیمتی بناتی ہیں۔

یہ مسودہ بے شک سوا دو ارب روپے میں نیلام ہوا ہے لیکن عمومی نظریہ اضافیت کی اہمیت اور مقام اتنا بلند ہے کہ یہ رقم اس کے سامنے کچھ بھی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔