آئیے کہاوتیں یاد کریں

سہیل احمد صدیقی  اتوار 28 نومبر 2021
جانوروں کے نام لے لے کر بہت سی کہاوتیں اور محاورے گھڑے گئے ۔ فوٹو : فائل

جانوروں کے نام لے لے کر بہت سی کہاوتیں اور محاورے گھڑے گئے ۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی 125

کہاوت یا ضَربُ المَثل (جمع ضرب الاِمثال) کی اہمیت سے کوئی ذی شعور اِنکار نہیں کرسکتا، خواہ معاملہ عربی، ترکی، فارسی اور اردو جیسی مشرقی زبانوں کا ہو، دیگر علاقائی /مقامی زبانوں اور بولیوں کا یا انگریزی سمیت تمام مغربی زبانوں کا۔ ’’پڑھے لکھے جُہَلاء‘‘ اکثر یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ محاورے [Idiom] اور کہاوت [Proverb/Saying] کی کیا ضرورت ہے ، اتنی مشکل ہوتی ہے، سمجھنے میں، سیدھی سیدھی بات کرو، مگر یہ بات وہ اپنی ’’فادری‘‘ زبان کے متعلق نہیں کہتے، حالانکہ وہ اس زبان کے محاورات و ضرب الاِمثال سے بھی عموماً ناواقف ہوتے ہیں۔

ایک محاورہ استعمال کرکے دیکھ لیں، کوئی سا بھی، جواب میں سننے کو ملے گا: ”O’ sir, you are speaking too difficult English”۔ خاکسار نے ماقبل بھی ’’زباں فہمی‘‘ میں محاوروں اور کہاوتوں کے موضوع پر طبع آزمائی کی ہے، مگر یہ موضوع مختلف جہات لیے ہوئے ہے اور کسی ایک کتاب میں ان کا احاطہ کرنا مُحال ہے، چہ جائیکہ یہ کالم۔ اس باب میں ایک بات یہ بھی اہم ہے کہ جب ہم کسی قدیم کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایسے ایسے الفاظ، تراکیب، محاورے اور کہاوتیں ہمارے سامنے آکھڑی ہوتی ہیں کہ بعض اوقات کسی مستند لغت میں بھی ان کا مطلب ملنا مشکل ہوجاتا ہے۔

یہ وہ لسانی سرمایہ ہے جسے کسی بھی دور میں، بہ یک جنبشِ قلم مسترد نہیں کیا جاسکتا، کہیں نہ کہیں ان کی افادیت بھی مُسَلّم ہے۔ متروک الفاظ وغیرہ (خصوصاً اردو کے) کا ذخیرہ بھی ایک ایسا موضوع ہے جس پر کوئی محقق قلم اٹھائے تو محض کتابی علم سے کافی وشافی مواد جمع نہیں کرپائے گا۔ اس موضوع پر مواد کی تلاش، جمع وتدوین کے لیے اہل علم بزرگوں کی صحبت اختیار کرنی ہوگی اور سینہ بہ سینہ محفوظ معلومات کو باقاعدہ منضبط کرنا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ غالباً یہ موضوع بھی ابھی تک ہمارے یہاں پی ایچ ڈی یا ایم فِل کے کسی مقالے کے لیے زیرِغور نہیں لایا گیا۔ چلیے آج کچھ قدیم و (نسبتاً) جدید ضرب الامثال کی بات کرتے ہیں۔

اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ اس قدیم کہاوت کا مطلب کیا ہے ، ’’کال کے ہاتھ کمان، بچہ بچے نہ جوان‘‘، تو آپ کیا کہیں گے؟ قیاس کریں، تُکّہ لگائیں، اندازہ لگائیں ….خیر ، ہم بتاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موت کسی کو نہ چھوڑے گی، یعنی وہی بات جو شعراء نے اس قسم کے اشعار میں رنگ بدل بدل کر کہی:

؎ موت سے کس کو رُستگاری ہے

آج وہ، کل ہماری باری ہے

یہاں ہندی الاصل لفظ ’کال‘ سے مراد موت ہے۔

ایک اور عجیب سی کہاوت ملاحظہ فرمائیں، ’’ہاتھ میں لیا کانسہ، تو روٹی کا کیا سانسہ‘‘۔ اس کا مفہوم شاید بہت سوں کو چونکادے گا۔ مطلب یہ ہے کہ جب کسی شخص نے گدائی اختیار کی یعنی بھیک مانگنے کو اپنا شعار بنالیا تو پھر اُسے روٹیوں کی کیا کمی، بڑی تعداد میں مل جائیں گی اور کبھی فکر نہ کرنی پڑے گی۔ یہ لفظ کانسہ، اب کاسہ اور کشکول کہلاتا ہے جو بعض لوگ اکثر توڑنے کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے، مگر حیرت انگیز طور پر، اُن کا، کاسہ یا کشکول کبھی بھرتا بھی نہیں۔ اب ذرا دوسری مثال دیکھیے۔ لفظ ’کال‘ کا استعمال یہاں مختلف ہے: ’’اناج کال نہیں، راج کال ہے‘‘ یعنی ملک میں گرانی درحقیقت حکومت ِوقت کی اپنی پیدا کردہ ہے۔

یہ بہت ہی معنی خیز کہاوت ہے ;پہلے حصے میں لفظ ’کال‘ کا مطلب ہے قحط، جبکہ دوسرے حصے میں اسی لفظ سے مراد ہے مہنگائی…..یہ بھی ہمیں ہندی اردو لغت (مرتبہ راجہ راجیسور راؤ اصغر) سے معلوم ہوا۔ معانی ومفاہیم میں ایسی وسعت، یہ حسن، یہ تنوع کسی اور زبان میں ملنا محال ہے۔ (معنی خیز یعنی جس سے معنی نکلیں، مطلب نکالا جائے۔ یہ ذومعنی یا ذی معنی کا مترادف ہے جسے ہمارے یہاں عوام النّاس سے لے کر مشاہیرِادب تک، غلط استعمال کرتے ہیں اور اپنے طور پر فرض کرتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے، دُہرا /دومعنی والا، حالانکہ یہ سرے سے عربی اصطلاح یا مرکب نہیں۔ عربی میں اگر کسی کو دو صفت، صلاحیت یا چیزوں کا حامل، مالک/والا کہنا ہو تو پھر یوں کہیں گے:

ذوالنورین (ذُن نُورَین) یعنی دو نور والا (سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ‘ کا لقب)، ذواللسانیین (دوزبانیں جاننے والا) اور اسی طرح کی بے شمار مثالیں۔

اناج کے ذکر پر یاد آیا کہ ایک اور متروکہ کہاوت ہے، ’’کوٹھی اَناج، کوتوالی راج‘‘۔ اب اس کا مفہوم ملاحظہ فرمائیں: غریب کو اگر اپنے اناج سے کوٹھی یعنی ذخیرہ گاہ کو بھرنے کا موقع مل جائے تو اُس کے لیے یہی کافی ہے، بلکہ گویا اُس کے لیے یہی اِمارَت یا اَمیری کے مترادف ہے۔ اسی طرح غربت کے حوالے سے ایک اور کہاوت ہے، مگر نسبتاً جدید اور بہت مشہور،’’غریب کی جورو، سب کی بھابھی‘‘….اس کا پورا متن ہے: ’’زبردست کی جورو، سب کی دادی، غریب کی جورو، سب کی بھابھی‘‘۔ ہرچندکہ موجودہ دور میں اس کا استعمال عموماً منفی (اور مبتذل) انداز میں ہوتا ہے، بہرحال اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ غریب کی سماج میں کوئی حیثیت نہیں، اُسے ہر کوئی دبالیتا ہے۔

جانوروں کے نام لے لے کر بہت سی کہاوتیں اور محاورے گھڑے گئے۔ کسی نے کہا،’’بھیڑ بھی کالی، بھینس بھی کالی‘‘ یعنی انسان بظاہر کتنا ہی ادنیٰ یا اعلیٰ ہو، درحقیقت اس کی قدروقیمت دوسروں سے مختلف نہیں، سارے انسان برابر ہیں۔ بھیڑ کے لیے تو ’بھیڑچال‘ مشہور ہی ہے، ویسے ایک اور قدیم کہاوت دریافت ہوئی ہے جس کا موازنہ مابعد مشہور ہونے والی ایک مبتذل کہاوت سے کیا جاسکتا ہے: ’’مَرتی بھیڑ، خواجہ خضر (علیہ السلام) کی نیاز‘‘ یعنی جب کوئی بُرا وقت آپڑا، تباہی سر پر آپہنچی تب جاکر صدقہ، خیرات کی سُوجھی۔ مزید وضاحت یوں کی جاتی ہے کہ جب کسی نے مال اپنے ہاتھ سے جاتے دیکھا تو ایسا نیک عمل کردیا۔ ’’حمایتی گدھی، عراقی گھوڑے کے (کو) لات مارتی ہے‘‘ یعنی اگر کسی کمزور کو کسی کی مدد حاصل ہوجائے، سہارا مل جائے تو وہ اپنے سے زیادہ طاقتور کا مقابلہ بھی کرسکتا ہے۔

عراقی گھوڑا اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی ایک قسم ہے۔ آن لائن تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ سترہویں صدی سے یہاں خالص عرب نسل کے گھوڑے لاکر اُن کی افزائش کی گئی اور آج یہ قسم گھُڑدوڑ کے لیے بہت معروف ہے۔ گھوڑے کے متعلق ایک اور پرانی کہاوت دریافت ہوئی: ’’مفت کے گھوڑے کے دانت کیا پوچھنا‘‘، یعنی کوئی چیز مفت ہاتھ آجائے تو پھر اس کی خوبی خرابی کیا دیکھنا، بس فائدہ اٹھالو۔ یہ بھی کہا جاتا تھا،’’دانہ نہ گھاس، گھوڑے تیری آس‘‘ یعنی کسی کو کچھ دیے دِلائے بغیر ہی اُس سے فائدے کی آس امید رکھنا۔ ایک اور کہاوت ملاحظہ کیجئے: ’’رانڈ کا سانڈ، سوداگر کا گھوڑا، کھائے بہت، چلے تھوڑا‘‘۔ مفہوم یہ ہے کہ سُست اور کاہل لوگ، کام چور ہوتے ہیں اور خواہ انھیں کتنا ہی کھلاؤ پِلاؤ، کچھ حاصل نہیں۔ یہاں سانڈ کا بھی ذکر آگیا جو بیل سے مشابہ ایک جانور ہے۔

جب گھوڑے کا ذکر ہو تو کیا حرج ہے کہ ہم گدھے کو بھی یاد کرلیں جو اِن دنوں ہمارے بچوں میں، ایک ٹی وی چینل کے طفیل پہلے سے زیادہ مشہور ومقبول ہوچکا ہے، یہ الگ بات کہ بے چارے کو قومی زبان میں ’’گدھاراجہ‘‘ نہیں کہا جارہا۔ گدھے کے متعلق عرض ہے کہ ’’گدھے کو گدھا ہی کھُجلاتا ہے‘‘ یعنی کسی بھی ذی روح کی خدمت کا وقت ہو تو اُس کا ہم جنس ہی اُس کے کام آتا ہے۔

ایسا نہیں ہوتا کہ گدھے کی خدمت کُتّا کرے۔ ہمیں ویسے بھی فارسی کہاوت بہت یاد رہتی ہے:’’کُنَد ہم جنس باہَم جنس پرواز، کبوتر با کبوتر، باز با باز‘‘ یعنی ہم جنس تو ہم جنس کے ساتھ ہی پرواز کرتے ہیں، جیسے کبوتر، اپنے ساتھی کبوتروں کے ساتھ اور باز، بازوں کے ہمراہ۔ اور یہ دیکھیے صاحب، گدھے بلکہ اس کی مؤنث کی شان میں کیسی گستاخی کی گئی: چاہت کے نام سے گدھی نے بھی کھیت جانا چھوڑ دیا تھا۔ مفہوم: جس سے الفت کا اظہار کیا جائے، خواہ وہ بدشکل ہی ہو، مغرور ہوجاتا ہے۔

ایسے موقع کے لیے یہ بھی کہتے تھے کہ مرغوب کبھی مرعوب نہیں ہوتا۔ قدیم فارسی الاصل اردو کہاوتوں میں یہ بھی شامل ہے: ’’یِک لقمہ ٔ صَباحی، بہتر زِ مُرغ وماہی‘‘ یعنی تھوڑا سا ناشتا بھی صحت کے لیے مفید ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ ڈٹ کر مرغ اور مچھلی جیسی بھرپور غذا ہی کھائی جائے۔ (یہاں پائے نہاری، چھولے، حلوہ پوری کا ذکر نہیں ….اس لیے ہمیں کوئی نہ روکے ٹوکے)۔ مرغی کے لیے یہ بھی کہا جاتا تھا: بے فیض سے مرغی بھلی جواَنڈ ے دیوے بیس، سالگ رام سے چکّی بھلی جو دنیا کھاوے پیس۔ مفہوم: کسی بے فیض اور خودغرض آدمی کی مثال سالگ رام جیسے چکی نما بُت کی سی ہے جو ظاہر ہے۔

اجناس پیسنے والی چکی سے ہرگز بہتر نہیں، یعنی جو فیض اور فائدہ پہنچائے، اسے اہم سمجھو۔ مرغ کے متعلق یہ کہاوت بھی ہے کہ جہاں مرغ نہیں ہوتا، وہاں کیا صبح نہیں ہوتی یعنی کوئی بھی کام کسی کے ہونے نہ ہونے سے مشروط اور موقوف نہیں ہوتا، جیسے تیسے ہو ہی جاتا ہے۔ ایک بہت مشہور کہاوت ہے،’’ہاتھی مرا ہوا بھی سَوا لاکھ کا ہوتا ہے‘‘، (ہمیں فرہنگ آصفیہ بتاتی ہے کہ اصل میں یوں تھا: ’’ہاتھی ہزار لُٹے تو بھی سَوا لاکھ ٹکے کا‘‘)، اس کے مقابلے میں یہ پرانی کہاوت ملاحظہ ہو:’’لاٹھی کو لاکھ گھُن کھا جائے، ہنڈیا توڑنے کو کافی ہے‘‘ یعنی طاقتور شخص خواہ عارضی، وقتی طور پر کتنا ہی کمزور ہوجائے، اُس کا ایک وار کمزور کو بھاری پڑتا ہے یا اُسے کافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

پرانے طرزِسخن میں اس کا مفہوم یوں بیان کیا گیا،’’زبردست کیسا ہی ہارا ہو، زیردست کے ستانے کو کافی ہے‘‘۔ ہاتھی کے لیے یہ بھی کہا جاتا تھا: اندھا ہاتھی اپنی ہی فوج کو کچلے۔ مطلب واضح ہے۔ ہاتھی کے لیے کبھی کسی زمانے میں یہ بھی کہتے تھے:’’ہاتھی اپنی ہتھیائی پر آجائے تو آدمی بھُنگا ہے‘‘۔ ہتھیائی سے مراد، ہاتھی کی طاقت اور بھُنگا وہ ننھا سا، کسی جرثومے کے مانند، بہت چھوٹاسا کیڑا ہے جو اِنجیر کے خاندان کے ایک پھل گُولر میں، بڑی تعداد میں، خفیہ طور پر چھُپا ہوتا ہے اور اگر کوئی اس سمیت پھل کھالے تو بینائی تیز ہوتی ہے، مگر جونہی پھل کاٹیں، فوراً کھالیں، ورنہ سارے بھُنگے اُڑجائیں گے۔ اب اس کہاوت کا مفہوم یہ ہوا کہ اگر ہاتھی اپنی طاقت دکھانے پر آجائے یا گویا تُل جائے تو اِنسان کی حیثیت اُس کے آگے، ایک حقیر کیڑے، بھُنگے جیسی ہے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ سائنسی تحقیق کی رُو سے انسان ہاتھی کو اس لیے قابو کرنے میں کامیاب رہتا ہے کہ وہ ہاتھی کی نظر میں اُس سے بڑا اور طاقت ور ہوتا ہے، اُس کی آنکھوں کے عدسوں کی اپنی خاصیت کے سبب۔ مثل مشہور ہے، ’’ہاتھی پھِرے گاؤں گاؤں، جس کا ہاتھی، اُس کا ناؤں‘‘ یعنی جو چیز جس کے قبضے اور ملکیت میں ہو، اُسی کی کہلاتی ہے، اُسی کا نام چلتا ہے۔ وہ جو کہتے ہیں نا، ’’قبضہ سچا، دعویٰ جھوٹا‘‘۔ بعینہ ایسا ہے جیسا کہ ہمارے یہاں کسی بھی عمارت پر کوئی بھی ناجائز، غیرقانونی قبضہ کرلے اور وہی مالک کہلائے، بجائے حقیقی مالک کے۔ ہاتھی صاحب اتنے مہان ہیں کہ ان کے نام سے بہت ساری کہاوتیں جُڑی ہیں اور آج بھی رائج ہیں، ورنہ بہت سے جانوروں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ بِلّی کے نام پر بھی بہت سے محاورے اور کہاوتیں مشہور ہیں۔

ایک پرانی، متروک کہاوت کچھ یوں ہے:’’گُردوں کی تسبیح ڈھلی، بی بِلّی حج کو چلی‘‘، مفہوم یہ بیان کیا گیا کہ ظالم کی (مصنوعی) پارسائی یا اُس کے بے جا اظہار سے بھی اُس کا ظلم ظاہر ہوتا ہے۔ کہیے وہی یاد آیا،’’نوسو [900] چوہے کھاکر بِلّی حج کو چلی‘‘۔ بات جب بلی چوہے کی ہورہی ہے تو بے چارے چوہے کا کیا قصور کہ اُسے یاد نہ کیا جائے۔ ایک متروک کہاوت یوں ہے،’’آٹے کے چراغ، اندرچوہے، باہر کاخ(محل)‘‘ یعنی خطرہ ہر حال میں دَرپیش ہوسکتا ہے ، کہیں بھی، کوئی بھی جائے پناہ نہیں ملتی۔ جانوروں کا ذکر کچھ دیر کو موقوف کرکے یہ دیکھیں کہ آٹے کا ذکر یوں بھی ہوتا ہے، ’’آٹا بیچ کر گاجر کھائیں‘‘ یعنی کسی موقع پر اَہم، ضروری چیز ضایع کرکے اُس کے بدلے کوئی غیرضروری شئے لینا۔ ہم اپنے موجودہ ماحول پر نظر ڈالیں تو ایسی مثالیں عام نظر آتی ہیں۔

یہاں بھی چوہا موجود ہے:’’کورے گھڑے میں چوہا‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ کھایا نہ پیا، کوئی فائدہ نہ اٹھایا اور خواہ مخواہ مصیبت میں گرفتار ہوگئے۔ یہ لفظ کورا بمعنی نیا، غیراستعمال شدہ اب کم کم سننے پڑھنے میں آتا ہے، اس کا سمبندھ ہے لفظ کُنوارہ اور کُنوَر (شہزادے) اور کُنواری سے۔ ہماری والدہ مرحومہ ’’کُواری‘‘ کہا کرتی تھیں، ہندی لغت سے معلوم ہوا کہ یہ تلفظ بھی زمانہ قدیم سے موجود ہے، نیز اُسی عظیم ماہرِلسان ہستی سے ’کورا لَٹھّا ‘ اور ’کورا کپڑا‘ سنا جس کی تصدیق مابعدلغات سے ہوئی۔

بلی چوہے کے تعلق سے یہ بھی اہم ہے: خداواسطے، بلی بھی چوہا نہیں مارتی، یعنی ہر کوئی اپنا مفاد پہلے دیکھتا ہے، یونہی کسی کا کام نہیں کرتا۔

اونٹ کے لیے یہ بھی ایک کہاوت تھی، کبھی: سستا اونٹ، مہنگا پٹّہ/پٹّا، یعنی کسی چیز پر حقیقی لاگت سے زیادہ اس کے متعلق سامان یا جزوی چیزوں پر زیادہ خرچ ہونا۔ کہاں اونٹ، کہاں کُتّا، مگر کہاوت میں دونوں یکجا ہوچکے ہیں: ’’اونٹ کی پکڑ، کتے کی جھپٹ‘‘ یعنی یہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ خطرناک ہیں۔ یہاں ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ بظاہر بہت شریف نظر آنے والا جانور، اونٹ، جب شدید غصے کی حالت میں انتقام لینے پر آتا ہے تو انسان کو گردن سے پکڑلیتا ہے۔ ’’شُتر کِینہ‘‘ (اونٹ کا کینہ ، بغض، دشمنی) یونہی تو مشہور نہیں۔ کُتّے کا ذکر یہاں ذرا منفرد ہے:’’سب کتے کانشی (بنارس) گئے تو ہَنڈیا کس نے چاٹی؟‘‘۔ مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی مخصوص واقعے میں، موقع پر موجود تمام افراد ہی نیک، شریف اور سیدھے سادے ہیں تو پھر بدمعاشی کس نے کی۔

{یہ کانشی یا کاشی/کاسی (مخصوص بولی کے لہجے میں)، بنارس کا پرانا نام ہے جسے اَب ’’وَرناسی‘‘[Varanasi] کہا جاتا ہے، مگر یہ نام عوام النّاس میں بنارس کی جگہ نہیں لے سکا۔ بنارس ناصرف ہندومَت کی مذہبی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل ہے، بلکہ اسے قدیم اردو، ہندی او ر بھوج پوری کے مراکز میں بھی نمایاں حیثیت حاصل ہوئی۔ بھکتی تحریک کے نامور رہنما، سَنت کبیر 1389ء میں یہیں پیدا ہوئے تھے}۔ ہم نے ہمیشہ سنا، ’’مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سکھائے‘‘، آج پتا چلا کہ اس کا قدیم متن یوں تھا: ’’مچھلی کے جائے، کِن تیرائے‘‘ یعنی جس کی فطرت یا سرشت ہی میں کسی کام کا سیکھنا سکھایا موجود ہو، اُسے الگ سے تعلیم دینے کی کیا ضرورت؟ بات فارسی کی ہورہی تھی تو یہاں ایک فارسی الاصل قدیم اردو کہاوت دُہراتے چلیں: ’’خَر باش، خُرد مَباش‘‘، اسے اکثر یوں لکھا ہوا دیکھا:’’برادرِ خُردمَباش!‘‘ یعنی چھوٹا ہونا بھی ایک مصیبت ہے، ہر کوئی بہ آسانی دبالیتا ہے۔

لغوی مطلب بھی دیکھتے چلیں کہ چھوٹے مت بننا (نیزچھوٹا بھائی مت بننا)، خواہ گدھا ہی کیوں نہ بننا پڑے۔ گائے کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ اس کے لیے کہا گیا،’’دُدّھِیَل (دودھیل یعنی دودھ دینے والی) گائے کی دو لات بھلی‘‘ یعنی جس سے کوئی فائدہ پہنچتا ہو، اُس کی بری بات بھی سہنی پڑتی ہے۔ اب اس سے ہٹ کر یہ بھی دیکھیے:’’دِیمَک کے دانت، سانپ کے پاؤں اور چیونٹی کی ناک کسی نے نہیں دیکھی‘‘ یعنی ایسے جانور، کیڑے مکوڑے بھی کام کرجاتے ہیں جن کے بظاہر اعضاء نہیں ہوتے، مفہوم یہ ہوا کہ کسی کو بے حیثیت اور بے وقعت نہ جانو، کوئی بھی کارآمد ہوسکتا ہے۔

شہد کی مکھی یا بھِڑ کے لیے کہا جاتا تھا، ’’سُونا گھر، بھِڑوں کا راج‘‘ یعنی جہاں جگہ خالی ہو، وہاں تو بظاہر کسی کا خطر ہ نہیں، مگر ہوتا پھر بھی ہے، جیسے فارسی میں کہا گیا،’’خانہ خالی را دیوان می گیرند‘‘۔ آج بس اسی پر اکتفا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔