بھارتی کسانوں کی جیت اور ہماری ’’پی ڈی ایم‘‘

علی احمد ڈھلوں  جمعرات 25 نومبر 2021
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

یہ 1931کی بات ہے جب امریکا کے شہر شکاگو میں بہت سے کسان سڑکوں پر تھے ، وہ حکومت سے نالاں تھے کہ اُن پر اضافی ٹیکس ڈال دیا گیا ہے، کسان اکٹھے ہوئے اورحکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا، حکومت نے اسے اپنے خلاف دھمکی قرار دے کر کسانوں کو حوالات میں بند کرنا شروع کردیا۔

اپنے کسان بھائیوں کو گرفتار ہوتے دیکھ کر دیگر شہروں سے کسان شکاگو پہنچنا شروع ہوئے اور کم و بیش 30ہزار کسان اکٹھے ہوئے اور حکومتی پارلیمان کے سامنے عارضی خیمے لگا لیے۔

حکومت نے اکا دکا بار کسانوں پر تشدد بھی کیا جس سے چند افراد مارے گئے۔ کسانوں کا احتجاج چونکہ جائز تھا لہٰذا اُن کی تعداد بڑھتے بڑھتے ایک لاکھ تک پہنچ گئی اور احتجاج بھی طویل ہوتا گیا۔ یہ لوگ مخصوص وقت کے لیے سڑکوں پر نکلتے اور دوبارہ خیموں میں جا بیٹھتے۔ حتیٰ کہ یہ سلسلہ 3سال تک جاری رہا ، جس کے بعد بالآخر حکومت کوگھٹنے ٹیکنا پڑے اور کسان کامیاب ہوگئے۔

اس احتجاج کے کم و بیش 80سال بعد 2020 میں بھارت نے بھی اسی قسم کی ٹیکس اصلاحات اپنے کسانوں پر بھی نافذ کیں یعنی 14 ستمبر 2020 کو بھارتی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں زراعت کے تین بل پیش کیے گئے۔17 ستمبر 2020کو لوک سبھا میں بل پاس ہوا۔جسے 20 ستمبر 2020 کو بل راجیہ سبھا میں بھی منظورکیا گیا۔

اس قانون سازی پر بھارتی کسانوں کو سخت قسم کے تحفظات تھے،جس پر انھوں نے 24ستمبر کو پنجاب میں تین روزہ ریل بند کرنے کا اعلان کیا۔احتجاج بڑھتا گیا، جس نے پورے بھارتی پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیاجب کہ یہ احتجاج آج بھی جاری ہے۔

یہ اپنی نوعیت کا بالکل منفرد احتجاج تھا جس میں 800ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں۔ اور اب لگ یہ رہا ہے کہ کسانوں کی یہ تحریک کسانوں پر سے زرعی قوانین کے خاتمے کے بعد ختم ہونے جا رہی ہے۔ کیوں کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا واضح اعلان کردیا ہے۔

وزیراعظم مودی نے کہا کہ ہم کسانوں کو قوانین پر اعتماد میں لینے میں ناکام رہے جس پر معافی مانگتا ہوں، ہم نے پوری کوشش کی؛ تاہم کسان راضی نہیں ہوئے،قوانین کی واپسی کے لیے آئینی عمل اسی ماہ شروع ہوجائے گا ،کسانوں سے درخواست ہے کہ گھروں کو واپس لوٹ جائیں۔

بنیادی طور پر ان 3 بلوں میں زرعی منڈیوں کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی اور نجی کمپنیوں کو زرعی منڈیوں کے نظام میں شامل کیا گیا۔ موجودہ منڈی کے نظام میں حکومتی شمولیت کی وجہ سے کسانوں کو کم از کم ان کی فصل کا بہتر معاوضہ مل رہا تھا جب کہ حکومت کی رائے میں نئے قانون کے ذریعے آزاد منڈیوں سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس بل کے مطابق:زرعی اجناس کی فروخت کے طریقہ کار، مقررہ قیمت اور ذخیرہ کرنے کے نئے اصول بنائے گئے تھے۔

اس قانون کے تحت پرائیویٹ پارٹیوں کو منڈی سے باہر ہی باہر فصل خریدنے کی آزادی ہوگی۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پرائیویٹ پارٹی کسان کو مجبور کرسکتی ہے کہ وہ صرف اس کی مقرر کردہ فصل اگائے۔لیکن کسان سمجھتے ہیں کہ ان کا بنیادی حق ہے کہ وہ منڈی میں اپنی فصل کی خود قیمت لگائیں۔ خریدار سے اس بارے میں بات کریں اور اسے اپنی مقرر کردہ قیمت کی ادائیگی کے لیے راضی کریں۔

کسانوں کا مقصد واضح تھا، اُنہیں منزل کا علم تھا، اُنہیں علم تھا کہ مذکورہ قوانین واقعتاً اُن کی آنے والی نسلوں کو مقروض بنا دیں گے اس لیے اُنہوں نے جانیں بھی قربان کیں اور پھر کامیاب بھی ہوئے۔ لیکن اس کے برعکس جس تحریک کے پیچھے کوئی نظریہ نہ ہو، اور منظم سیاسی طاقت/ جماعت نہ ہو، ایسی تحریک زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ نتائج پیدا نہیں کرسکتی۔

جذباتی عوام ایسی تحریک سے متاثر ہوتے ہیں، اور استعمال ہوجاتے ہیں۔جیسے ہماری حالیہ حکومت کے خلاف بننے والی ’’پی ڈی ایم‘‘ ہی کی مثال لے لیں وہ تین سال سے حکومت کے غلط فیصلوں اور عام آدمی پر بوجھ بننے والی پالیسیوں کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت نہیں کر سکی، ایسا اس لیے ہے کہ پی ڈی ایم میں موجود تمام 9سیاسی جماعتوں کی نیت ہی صاف نہیں ہے، وہ عام آدمی کے مسائل کو حل کرنے کا کہتی ہیں مگر اپنے اقتدار کی بات کر کے نہ جانے کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔