کیا کوپ 26 ناکام ہوئی؟

محمود عالم خالد  جمعـء 26 نومبر 2021
mehmoodenv@gmail.com

[email protected]

پیرس میں ہونے والے تاریخی معاہدے کو ترتیب دینے والی لارنس ٹوبیانا نے کہا ہے کہ کوپ 26 تکلیف سے گزرنے والوں کو ریلیف دینے میں ناکام رہی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوئرس نے کہا ’’ یہ کافی نہیں ہم ماحولیاتی تباہی کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ اس معاہدے سے مایوس ہوئے ہیں لیکن ہم اپنی زندگیوں کی جنگ لڑرہے ہیں یہ جنگ ہمیں جیتنا ہوگی۔‘‘

تحفظ ماحول کی عالمی شہرت یافتہ کارکن گریٹا تھمیرگ کا کہنا تھا کہ ’’ بات چیت میں آئیں، بائیں، شائیں سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کیا گیا‘‘

کیا کوپ 26 ناکامی سے دوچار ہوئی؟ اگر ہم اس کانفرنس کے حاصل کردہ اصل اہداف کا جائزہ لیں تو جواب یقیناً ہاں میں ہی ہوگا۔ بڑے صنعتی اور امیر ملکوں کو چھوڑ کر دنیا کے غریب پسماندہ ، ترقی پذیر ممالک ، سائنس دان ، ماحولیاتی ماہرین ، ماحولیاتی کارکن ، تنظیمیں سب اس بات پر یک آواز ہیں کہ وہ نہیں ہواجس کی امید کی جارہی تھی۔ اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹوں میں بتایا گیا کہ موجودہ صورتحال میں دنیا 2.7 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی طرف گامزن ہے۔

کانفرنس میں کاربن کے اخراج میں کمی کے حوالے سے چند ملکوں نے جو وعدے کیے ہیں اگر وہ پورے کر بھی لیے جائیں تو بھی دنیا 2.4 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت تک پہنچے گی۔ عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا ہماری آنکھوں کے سامنے تبدیل ہو رہی ہے۔ دنیا 19 ویں صدی کے اختتام پر جتنی گرم تھی اب اس سے کہیں زیادہ یعنی 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہے اور پوری دنیا میں اس کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے جارہے ہیں۔

کوپ 26 کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ 2050 تک زہریلی گیسوں کے اخراج کو ’’ نیٹ زیرو ‘‘ پر پہنچایا جائے ، ترقی یافتہ ممالک نے 100 ارب ڈالر کی فنڈنگ جو امیر ملکوں نے غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فراہم کرنی تھی ، جس کے وعدے وہ پچھلے دس سالوں سے کررہے ہیں کے حصول کو یقینی بنایا جائے اور پیرس معاہدے پر عملدرآمد کروانے کے لیے ٹھوس قواعد بنائے جائیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ہدف حاصل نہیں کیا جاسکا۔

معاہدے کے ابتدائی مسودے میں کوئلے کے استعمال کو’’ بتدریج ختم ‘‘ کرنے کا کہا گیا۔ ہندوستان نے چین اور جنوبی افریقا کے ساتھ مل کر مسودے کی تکمیل کے آخری لمحوں میں لفظ Pase out کی جگہ Phase down یعنی ختم کی جگہ کم کرانے میں کامیاب ہوگیا۔ کانفرنس کے صدر آلوک شرما نے آبدیدہ ہوتے ہوئے کہا کہ ’’ جس انداز سے یہ عمل سامنے آیا ہے ، میں اس پر انتہائی معذرت خواہ ہوں۔

میں بہت معذرت چاہتا ہوں‘‘ اس معاہدے کو عمل میں لانے کے لیے بھرپور کردار اداکرنے والے موسمیاتی تبدیلی کے امریکی ایلچی جان کیری جنھوں نے پیرس کے تاریخی معاہدے کو کامیاب بنانے میں بھی بنیادی کردار ادا کیا تھا کہا کہ ’’ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو یہ معاہدہ نہیں ہوتا ‘‘ مندوبین ملکوں کی اکثریت سمیت ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والے تحقیقی اداروں، سائنس دانوں، رضاکاروں نے بھارت اور اس کا ساتھ دینے والوںکو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس عمل کی شدید مذمت کی۔

کوپ 26 کے اہم ترین مقاصد میں 100 بلین ڈالر کلائمنٹ فنڈ کے حوالے سے واضح روڈ میپ تشکیل دینا بھی شامل تھا۔ یاد رہے کہ کوپن ہیگن میں ہونے والے کوپ 15 (2009) میں دنیا کے امیر ملکوں نے کلائمنٹ فنانس کی مد میں غریب اور ترقی پذیر ملکوں کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے سالانہ ایک سو ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ حتمی مسودے میں سے یورپی یونین اور امریکانے ایسے تمام نکات نکلوا دیے جن میں فنڈنگ ادارے کے قیام اور اس پر واضح حکمت عملی ترتیب دینا تھا۔

اب مسودے میں اس حوالے سے صرف بات چیت کا ذکر ہے لیکن معاہدے میں انتہائی افسوس کے ساتھ اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ امیر ملکوں نے 10 سال پہلے100 ارب ڈالر دینے کا جو وعدہ کیا تھا وہ اسے دینے سے قاصر ہیں۔ جزائر مالدیپ کی وزیر ماحولیات شونا امیناتھ نے کہا کہ یہ کچھ کے لیے ایک گفتگو ہے مگر ہمارے لیے وجود کا مسئلہ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے ذمے دار ملکوں کے انتہائی غیر ذمے دارانہ رویے کے خلاف ملادی کے صدر لزا روس چکوویرا نے کہا کہ یہ کوئی خیرات نہیں ہے، ادائیگی کریں یا ہمارے ساتھ ہی ختم ہوجائیں۔

ایکشن ایڈ انٹرنیشنل کی کلائمنٹ پالیسی کوآرڈینیٹر ٹریزاینڈرسن نے کہا کہ کوپ 26 نے ان لاکھوں انسانوں کی توہین کی ہے جن کی زندگیاں موسمیاتی و ماحولیاتی بحرانوں سے تباہ ہورہی ہیں۔ کوپ 26 میں دنیا کے 120 سربراہان مملکت سمیت 197 ملکوں کے مندوبین شریک ہوئے، یاد رہے کہ دنیا کے تین اہم ملکوں چین، روس اور ترکی کے سربراہ کوپ میں شریک نہیں ہوئے۔ کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ طے شدہ شیڈول کے تحت جمعہ کی شام 6 بجے جاری کیا جانا تھا جو دوسرے دن مقامی وقت کے مطابق رات نو بجے جاری کیا گیا جس پر 197 ملکوں نے دستخط کیے۔ جمعہ اور ہفتے کی پوری رات جاری رہنے والے اجلاس میں کوشش کی جاتی رہی کہ ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ملکوں اور بڑے صنعتی ملکوں میں توازن پیدا کیا جائے۔

گلاسکو میں منعقد ہونے والی اس عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں ملکوں کے درمیان دو بڑے معاہدے بھی ہوئے۔ جنگلات کی کٹائی اور زمینی انحطاط کو روکنے اور اس حوالے سے سخت اقدامات اٹھانے کے لیے 120 ملکوں نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ، میتھین گیس کے اخراج کو 2030 تک 30 فیصد تک کم کرنے کے معاہدے پر 100 سے زائد ملکوں نے دستخط کیے۔

40 ملکوں نے کوئلے سے پیدا کی جانے والی بجلی کو مرحلہ وار ختم کرنے کا عہد کیا ، جب کہ 30 سے زائد ملکوں اور اداروں نے فوسل فیول میں سرمایہ کاری روکنے کا وعدہ کیا۔ 140 ملکوں نے 2030 تک اپنے اہداف پر مکمل عمل درآمد پر اتفاق کیا۔ 190 ملکوںنے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کو مرحلہ وار کم کرنے اور اس حوالے سے عوامی فنڈنگ ختم کرنے پر اتفاق کیا۔ واضح رہے کہ پہلی مرتبہ کوپ 26 معاہدے میں فوسل فیول کا براہ راست ذکر کیا گیا ہے۔ ’’پیرس رول بک‘‘ جس نے کاربن ٹریڈنگ کے ذریعے عالمی اخراج کی راہ ہموار کی تھی کو حتمی شکل دی گئی۔ کانفرنس کے دوران مندوبین پر دباؤ بڑھانے کے لیے پوری دنیا سے ہزاروں ماحولیاتی کارکن، ماہرین تنظیمیں، سائنس دان اور ماحولیاتی ماہرین گلاسکو میں موجود رہے۔

2 ہفتے سے زائد جاری رہنے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس ختم تو ہوگئی مگر اس میں طے پانے والے معاہدے کے حوالے سے ماحولیاتی تحفظ پر کام کرنے والے تحقیقی اداروں سمیت ماہرین ، تنظیموں ، رضاکاروں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ،کیونکہ ایک مرتبہ پھر غریب ملکوں کو وعدوں پرٹال دیا گیا ہے۔ بقول کوپ 26 کے صدر آلوک شرما ’’ یہ ایک کمزور جیت ہے، فیصلہ اس بات سے ہوگا کہ ممالک اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہیں یا نہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔