حقوقِ نسواں

مولانا محمد الیاس گھمن  اتوار 28 نومبر 2021
اسلام، خواتین کو خُوش گوار، پُرسکون اور راحت بخش زندگی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ فوٹو : فائل

اسلام، خواتین کو خُوش گوار، پُرسکون اور راحت بخش زندگی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ فوٹو : فائل

اﷲ تعالیٰ قرآن کریم کی سورۃ النساء میں ساری انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم : ’’ اے لوگو! اپنے رب (کی نافرمانی اور عذاب) سے ڈرو جس رب نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا اور اسی سے اس کی زوج کو پیدا فرمایا پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور بہت ساری خواتین کو (ساری دنیا میں ) پھیلا دیا اور اس اﷲ سے ڈرتے رہو جس کا واسطہ دے کر تم اپنے باہمی حقوق مانگتے ہو۔ اور رشتہ داریوں کے بارے میں اﷲ سے ڈرتے رہو۔ یقیناً اﷲ تمہارا نگہبان ہے۔‘‘ ( سورۃ النساء )

اﷲ رب العزت مختلف انداز میں خطاب فرماتے ہیں، کبھی اہل ایمان کو بہ طور خاص خطاب فرماتے ہیں اور طرز یہ اختیار فرماتے ہیں: اے ایمان والو! اور کبھی تمام انسانوں سے عمومی خطاب فرماتے ہیں اور انداز یہ اختیار فرماتے ہیں: اے لوگو! مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اﷲ رب العزت عمومی خطاب فرما رہے کہ اے لوگو! اپنے رب کی نافرمانی اور اس کے عذاب سے ڈرو۔ کسی بھی معاشرے میں اس وقت تک استحکام نہیں آسکتا جب تک اس کا خاندانی نظام درست نہ ہو، اور خاندان کی تربیت میں عورت کا کردار بنیادی حیثیت کا ہوتا ہے۔

بہ طور خاص ماں ہونے کے ناتے اولاد کی پرورش، اخلاقی و تعلیمی تربیت اور اچھی تہذیب اسی کے دم سے ہوتی ہے۔ اس لیے قرآن کریم میں خواتین کے لیے تفصیلی احکام نازل فرمائے بل کہ مستقل طور پر ایک سورۃ کا نام ’’نساء‘‘ رکھا گیا، جس کے اندر زمانۂ جاہلیت میں خواتین کے ساتھ معاشرتی اور جبری تشدد کی نشان دہی کرکے ان کے خاتمے کی ہدایات دی ہیں اور حقوق نسواں کے بارے احکامات ذکر کیے گئے ہیں۔

اسلام سے پہلے عورت کی زندگی اجیرن تھی، اس دور میں عورت کا وجود محض ایک کھلونے کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا۔ عورت معاشرے میں نہ صرف یہ کہ مظلوم تھی بل کہ سماجی و معاشرتی عزت و توقیر اور ادب و احترام سے بھی محروم تھی۔ پھر ہدایت کا نیّر تاباں جلوہ فگن ہوا اور ساری انسانیت کے لیے احترام کا دستور لایا۔ اسلام نے عورت کو وہ مقام بخشا کہ جس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ توقیر، عورت کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے۔

اسلام نے عورت کو بے جا غلامی، ذلت اور ہتک آمیز رویوں سے نجات دلائی۔ اسلام، صنف نازک کے لیے نوید مسرت بن کر آیا اور عورت کے لیے احترام کا پیام بر ثابت ہوا، اب اگر یہی عورت ماں بن جائے تو اس کے قدموں میں جنّت کو بسا دیا، بیٹی ہو تو نعمت عظمیٰ، اگر رشتہ بہن کا ہو تو احترام کا پیکر اور اہلیہ ہو تو اس کو خوش گوار گھریلو زندگی کا ضامن قرار دیا۔

اسلام، عورت کو حقوق کے تحفظ کے ساتھ پُرامن، خُوش گوار، پُرسکون ، راحت بخش اور اطمینان والی زندگی گزارنے کی ضمانت فراہم کرتا ہے جن کی بہ دولت اس کی عزت و آبرو، عفّت و حیا اور پاک دامنی محفوظ رہتی ہے۔ رسول اکرمؐ نے عورت کے سماجی، تمدنی، معاشی، تعلیمی اور سب سے بڑھ کر انسانی حقوق کو اپنے عملی رویوں سے ایسا واضح کیا ہے کہ تا صبح قیامت وہ ہدایت کے چراغ بن کر راہ نمائی کرتے رہیں گے۔

اسلام سے پہلے عرب کے بعض قبائل بچیوں کو زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کی لڑکی پیدا ہو وہ نہ تو اسے زندہ دفن نہ کرے اور نہ ہی اس کے ساتھ بُرا سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اﷲ تعالیٰ اسے جنّت میں داخل کرے گا۔
(سنن ابی داؤد)

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، انہیں (اخلاقی و معاشرتی) ادب سکھلایا، ان کی (اچھی جگہ) شادی کی اور (بعد میں) ان کے ساتھ حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔

جب سے اﷲ تعالی نے انسانیت کو وجود بخشا اسی وقت سے مرد و عورت لازم و ملزوم کی حیثیت سے برابر چلے آرہے ہیں۔ مرد کو اﷲ تعالی نے خارجی امور کا ذمے دار قرار دیا اور عورت کو امور خانہ داری کے فرائض سونپے۔ مرد گھر سے باہر کے تمام معاملات کا نگہبان ہے اور عورت کو گھر کے اندر کے سارے امور تفویض ہوئے ہیں۔ چوں کہ مرد و زن دونوں ہی معاشرے میں اپنی الگ حیثیت کے حامل ہیں اس لیے دونوں کو اسلامی ہدایات و احکامات کا مکلف بنایا گیا ہے، ان پر عمل دونوں کے لیے ضروری ہے۔

اب دوسری طرف یہ بات اپنی جگہ پر مسلّم ہے کہ عمل کا مدار علم پر ہے۔ علم صحیح ہوگا تو عمل بھی درست ہوگا اور اگر علم صحیح نہ ہوا تو عمل بے کار ہوگا۔ اس تناظر میں جیسے مرد کی تعلیم اس کی ضرورت ہے ایسے ہی خاتون کی تعلیم بھی اس کی زندگی کا جزو لاینفک ہے۔

اگر مرد تعلیم کے حصول کے بغیر زندگی گزارے گا تو معاشرے کے لیے وبال اور سراسر خسارے اٹھانے والا ہوگا۔ اسی طرح اگر عورت تعلیم حاصل نہیں کرے گی تو زمانے پر بوجھ بنے گی۔ معلوم ہوا کہ مرد کی طرح عورت کی تعلیم بھی ناگزیر ہے۔ یہاں تک تو سب اس پر متفق ہیں، اس سے آگے جھگڑا شروع ہوتا ہے۔

اسلام کے نظام ِتعلیم میں عورت کی محض تعلیم ہی نہیں بل کہ اس کی حیاء، تقدس اور عزت و شرافت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے کہ یہ تعلیم تو بہ ہر حال حاصل کرے ہی لیکن اسلام کے مقرر کردہ دائرے کے اندر رہتے ہوئے، ایسی تعلیم جس سے اس کی دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی۔ بچیوں کو اپنی عزت و آبرو، حیا، وقار اور شرافت کی حدود میں رہ کر تعلیم حاصل کرنی چاہیے تاکہ اس کی عفت ، پاک دامنی، اسلامی تمدن و تہذیب پامال نہ ہونے پائے۔

اﷲ کے رسول ﷺ نے جیسے مردوں کی تعلیم و تربیت فرمائی ہے اسی طرح خواتین کی تعلیم و تربیت فرمائی ہے۔ مضبوط معیشت اچھی معاشرت کا سنگ میل ہوتی ہے اس لیے رسول اکرمؐ نے خواتین کی اچھی معیشت کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ عورت کے حیاء و تقدس اور عفت و وقار کا اسلام اس قدر خیال کرتا ہے کہ اس کے کندھوں پر کمانے کا بوجھ نہیں لادتا بل کہ اس کا نان نفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمے لگاتا ہے۔

کسی دین میں عورت کو اس قدر عزت نہیں بخشی گئی جتنی اسلام نے اسے دی ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمے، بہن ہے تو بھائی کے ذمے، بیوی ہے تو شوہر کے ذمے اور اگر ماں ہے تو اولاد کے ذمے۔ شادی بیاہ ہو تو حق مہر کی صورت میں، مورث فوت ہوجائے تو میراث کی صورت میں، اسلام عورت کو معاشی طور پر خود کفیل اور خودمختار بناتا ہے اور ہر موقع پران سے حسنِ سلوک کا سبق دیتا ہے۔

آزادی نسواں کے دل فریب نعرے کی آڑ میں مغرب اور مغربی نظام نے عورت کو روزی کمانے میں لگا کر اسے تمام فطری اور اخلاقی قیود سے آزاد کر دیا ہے جس کی وجہ سے معاشرہ تباہی کے دہانے پر جا کھڑا ہوا ہے۔ انسانی زندگی میں مرد اور عورت باہم لازم ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ رسول اکرمؐ کی تعلیمات اس بارے بھی عورت کو خودمختاری فراہم کرتی ہے۔ عورت کو نکاح کے معاملے میں آزادی دی گئی ہے سن بلوغ کو پہنچنے کے بعد وہ اپنے نکاح کا فیصلہ خود کر سکتی ہے۔

مزید یہ کہ نکاح کے بعد باہمی معاملات سنگینی کی طرف جانے لگیں تو فسخ نکاح کے لیے خلع کا حق بھی اسلام نے عورت کو دیا ہے۔ لیکن اسے ایسی آزادی کی آگ میں بھی نہیں جھونکا کہ وہ خاندانی طور پر محرومی کا شکار ہو یا فسق و فجور میں مبتلا ہو جائے، ایسے وقت میں اسلام اولیاء کو نکاح کے معاملے میں دخل اندازی کی اجازت دیتا ہے تاکہ عورت کا مستقبل برباد ہونے سے بچ جائے۔

ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے دوران خطبہ خواتین کے مہنگے حق مہر کے بارے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا تو ایک عورت نے کہا: اے عمرؓ! آپ ہمارے مہروں کو کس طرح کم کرسکتے ہیں، حالاں کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں سونے کے ڈھیر تک مہر لینے کا حق دیا ہے۔ اور سورۃ النساء کی آیت بھی تلاوت کی۔ حضرت عمرؓ اس پر بہت خوش ہوئے اور خواتین کے اظہار رائے کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے فرمایا: مدینہ کی خواتین عمر سے زیادہ دین کی سمجھ رکھتی ہیں۔ ہر گھر میں عورت کے چار روپ نظر آتے ہیں۔ ماں ، بہن ، بیوی اور بیٹی۔ چاروں کے بارے احادیث مبارکہ حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ایک شخص رسول اکرمؐ کی خدمت میں آیا اور عرض کی: اے اﷲ کے رسولؐ! سب سے زیادہ میرے حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: آپ کی والدہ۔ اس نے عرض کی کہ پھر کون ہے؟ آپؐ نے (دوسری بار) فرمایا: آپؐ کی والدہ۔ اس نے عرض کی پھر کون ہے؟ آپؐ نے (تیسری بار بھی یہی) فرمایا: آپ کی والدہ۔ سائل نے جب چوتھی بار سوال دہرایا تو آپؐ نے فرمایا کے آپ کے والد۔ (بخاری)

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا پھر دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اس نے ان کی اچھی تربیت کی ہو اور ان کی حق تلفی کے بارے اﷲ سے ڈرتا رہے تو اس کے لیے جنّت ہے۔ (جامع ترمذی)

ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: تم میں سب سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں اور میں تم میں اپنی بیویوں کے ساتھ بہترین برتائو کرنے والا ہوں۔
(جامع ترمذی)

اﷲ تعالیٰ ہمیں رسول اکرمؐ کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔