خواتین پر تشدد کی روک تھام کیلئے ذہن سازی کی ضرورت ہے!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 29 نومبر 2021
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شرکاء کا ’’خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو : ایکسپریس

مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شرکاء کا ’’خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو : ایکسپریس

25 نومبر کو دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور اس دن سے 16 روزہ بین الاقوامی آگاہی مہم کا آغاز بھی ہوجاتا ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں خواتین پر ہونے والے تشدد پر آواز اٹھانا، لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی دینا اور تشدد کی روک تھام کیلئے اقدامات کرنے پر زور دینا ہے۔

پاکستان میں بھی نہ صرف یہ دن منایا جاتا ہے بلکہ 16 روزہ عالمی مہم کے تحت سرکاری و نجی سطح پر مختلف پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں خواتین کی حالت زار ، ان پر ہونے والے تشدد اور اس کی روک تھام کیلئے حکومتی اقدامات کا جائزہ لینے کیلئے ’’خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم ‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

کنیز فاطمہ چدھڑ
(چیئرپرسن پنجاب وویمن پروٹیکشن اتھارٹی)

ماضی کی نسبت خواتین کی نمائندگی میں بہتری آئی ہے اور ان کی آواز قدرے مضبوط ہورہی ہے۔ اب پارلیمنٹ سمیت دیگر اداروں میں خواتین کی نمائندگی نظر آتی ہے،  بعض اہم اداروں میں خواتین فیصلہ ساز عہدوں پر بھی فائز ہیں اور بہترین کام کر رہی ہیں۔ خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے بہت سارے معاملات بہتر ہوئے ہیں تاہم ابھی بھی بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے جس پر کام جاری ہے۔

2016ء میں پنجاب میں خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے قانون سازی ہوئی جس میں بہتری لائی جارہی ہے۔ خواتین کے تحفظ کو یقینی اور آسان بنانے کیلئے محکمہ پولیس میں جینڈر کرائم سیل قائم کیے گئے ہیں جہاں خواتین پولیس آفیسرز تعینات ہیں جس کی وجہ سے خواتین کو کسی بھی افسوسناک واقعہ کو رپورٹ کرنے میں اور دوران تفتیش بھی آسانی ہوتی ہے۔

اسی طرح پنجاب سیف سٹیز اتھارتی کی جانب سے خواتین کے تحفظ کیلئے خصوصی ’ایپ‘ قائم کی گئی جس سے خواتین ہراسمنٹ و کسی اور مشکل کی صورت میںآن لائن رپورٹ کرسکتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ ’وکٹم بلیمنگ‘ ہے جو افسوسناک ہے۔ جب کسی ادارے میں بڑے عہدے پر فائز شخص ایسا کرتا ہے تو وہ نہ صرف اپنی بلکہ ادارے کی ساکھ بھی متاثر کرتا ہے لہٰذا ہمیں ایسے رویوں کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔

ہراسمنٹ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ خواتین جھوٹے کیسز کراتی ہیں جو درست نہیں۔ ممکن ہے کہ کوئی اکا دکا واقعہ غلط ہولیکن آج تک میرے پاس ہراسمنٹ کا کوئی بھی جھوٹا کیس نہیںآیا، ہم خواتین کو اعتماد دیتے ہیں، انہیں قانونی مدد فراہم کرتے ہیں، ان کی کونسلنگ کرتے ہیں جس سے وہ اپنا کیس درست طریقے سے پیش کر پاتی ہیں۔ عمومی طور پر متاثرہ خواتین کو تفتیش و دیگر مراحل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اس حوالے سے اداروں میں موجود افراد کی گرومنگ اور کپیسٹی بلڈنگ کرنا ہوگی تاکہ خواتین کیلئے آسانیاں پیدا کی جاسکیں۔

2017ء میں پنجاب وویمن پروٹیکشن اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا، میں نے 2019ء میں اس کا چارج سنبھالا اور ادھار کے دفتر میں کام کا آغاز کیا۔ پنجاب وویمن پروٹیکشن اتھارٹی نے خواتین کے حقوق و تحفظ اور آگاہی کیلئے بین الاقوامی این جی اوز اور مقامی اداروں کے ساتھ معاہدے کیے ہیں، ان کے تعاون سے خواتین کو قانونی امداد و دیگر سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، ہم نے سرکاری خزانے پر اضافی بوجھ ڈالے بغیر سول سوسائٹی، آئی این جی اوز اور تعلیمی اداروں کے تعاون سے بیسیوں آگاہی سمینارز اور کپیسٹی بلڈنگ ورکشاپس کا انعقاد کیا ہے جن سے لوگوں کی تربیت اور ذہن سازی کرنے میں مدد ملی ہے۔

ان اداروں کے تعاون سے خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے 16 روزہ عالمی آگاہی مہم کا حصہ بن کر بڑے پیمانے پر آگاہی مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ہم نے محکمہ پولیس کے ساتھ بھی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت دونوں اداروں کے نمائندے ایک دوسرے کے پروگراموں میں شرکت کریں گے، مل کر کام کریں گے۔میرے ادارے کی جانب سے خواتین کے مسائل کے حوالے سے پولیس کی تربیت بھی کی جارہی ہے، اب تک 6 اضلاع میں پولیس کی تربیت ہوچکی ہے، پنجاب کے تمام اضلاع میں یہ تربیت دی جائے گی۔

خواتین کو ایک ہی چھت تلے تحفظ کی تمام سہولیات فراہم کرنے کیلئے پنجاب کے تمام اضلاع میں وائلنس اگینسٹ وویمن سینٹرز قائم کیے جارہے ہیں۔ پہلے صرف ملتان میں یہ سینٹر موجود تھا، ہم نے لاہور سمیت 4 اضلاع میں یہ سینٹرز قائم کیے ہیں جبکہ اب دیگر اضلاع کے حوالے سے بھی تیاری کی جارہی ہے۔

خواتین کو تعلیم، تنخواہ، ملازمت و دیگر حوالے سے مسائل درپیش ہیں جن کے حل کیلئے کام کیا جا رہا ہے، تمام اداروں میں ہراسمنٹ کمیٹیاں قائم کی جا چکی ہیں ، خواتین کو سازگار ماحول فراہم کیا جا رہا ہے تاکہ وہ اچھی زندگی گزار سکیں۔ بھٹہ مالکان خواتین کا استحصال کرتے ہیں، لہذا خواتین کی تنخواہ و دیگر حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کیا جارہا ہے، 2,3 بڑے مگر مچھوں کو ہاتھ ڈالا گیا ہے، خواتین کا استحصال کرنے والوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔ اداروں میں کووارڈینیشن کے مسائل ہیں،جنہیں دور کیا جا رہا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ خواتین کے مسائل کا حل اکیلے ممکن نہیں، ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

تیزاب گردی کے ایک کیس میں متاثرہ بچی نے ہسپتال سے ڈریسنگ نہ کروانے کا کہا کیونکہ ایک مرد اس کی پٹی کرتا تھا، معلوم کرنے پر پتا چلا کہ ہسپتالوں میں لیڈی ڈریسرز موجود نہیں، تیزاب گردی و دیگر کیسز میں مرد ہی خواتین کی ڈریسنگ کرتے ہیں جو درست نہیں، اس بارے میں وزیر صحت سے بات کی ہے کہ ہسپتالوں میں خواتین ڈریسرز بھرتی کریں، امید ہے اس پر جلد کام کیا جائے گا۔

ایک اور افسوسناک بات اس فورم میں سامنے آئی ہے کہ زیادتی کی شکار خاتون کے میڈیکل کیلئے سرکاری ہسپتالوں میں متاثرہ خاتون سے ہی 500 روپے فیس وصول کی جاتی ہے جو ظلم ہے،اس پر آواز اٹھائوں گی اور وزیر صحت سے بات بھی کروں گی۔

بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی)

خواتین پر تشدد کے خاتمے کے حوالے سے آگاہی کیلئے 16 روزہ بین الاقوامی مہم دنیا بھر میں جاری ہے ۔ پاکستان میں بھی سماجی تنظیموں نے خود کواس مہم کے ساتھ جوڑا ہے اور ہر سال وسیع پیمانے پر آگہی سیمینار، ورکشاپ، واک و دیگر پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ 8 مارچ (خواتین کا عالمی دن) ہو یا 25 نومبر(خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن)، ہم نہ صرف یہ دن مناتے ہیں بلکہ حالات اور اقدامات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے مطالبات بھی سامنے رکھتے ہیں۔ دنیا میں تبدیلیاں آرہی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ نئے نئے چیلنجز پیدا ہورہے۔

لہٰذا ایسے میں ہمیں نئے اقدامات کرنے کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے۔میرے نزدیک انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی روک تھام کیلئے ہر دن اہم ہے۔ جرم یا تشدد کا ہر ایک واقعہ توجہ طلب ہوتا ہے لہٰذا ہم نے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہوئے ہر صورت وہ راستے بند کرنے ہیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور تشدد کی طرف جاتے ہیں۔  یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب بھی میڈیا، ریاستی اداروں اور حکومتی نمائندوں نے ہمیں سپورٹ کیا حالات میں بہتری آئی ہے۔

آج ماضی کی نسبت اداروں میں خواتین کی نمائندگی نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کیلئے خصوصی ادارے بھی بنائے گئے ہیں جنہیں خود خواتین چلا رہی ہیں۔ شعبہ صحت، پولیس و دیگر محکموں میں بھی خواتین کی نمائندگی پہلے سے بہتر ہوئی ہے تاہم ابھی بہت کام باقی ہے ۔ صنفی مساوات کے حوالے سے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو ورلڈاکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق جینڈر گیپ انڈیکس میں پاکستان 156 ممالک میں سے 153 ویں نمبر پر ہے، خواتین کی تعلیم کے حوالے سے 144، صحت کی سہولیات میں 153، سیاسی شمولیت میں 98 جبکہ معاشی حالت کے حوالے سے 152 ویں نمبر پر  ہے جو الارمنگ ہے، اگر اسی رفتار سے کام ہوا تو جینڈر گیپ پورا کرنے کیلئے 267 برس درکار ہونگے۔

یہ ایک طویل عرصہ ہے جس میں خواتین کا استحصال ہوتا رہے گا لہٰذا انہیں تعلیم، صحت، روزگار، انصاف سمیت تمام انسانی حقوق فراہم کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا، اس حوالے سے اداروں میں اصلاحات لانا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی ذہن سازی، تربیت اور کپیسٹی بلڈنگ کرنا ہوگی۔ خواتین پر تشدد کے واقعات افسوسناک ہیں۔ پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن کی رپورٹ کے مطابق 2019-20ء میں خواتین پر تشدد کے 8 ہزار 797 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں ریپ کے 3 ہزار 773 اور گینگ ریپ کے 219 واقعات رپورٹ ہوئے جو افسوسناک ہے۔

خواتین سے زیادتی کے واقعات میں معاشرے کا وہ چہرہ دکھاتے ہیں جو مرد کی طاقت کی سوچ کو ظاہر کرتا ہے، مرد خود کو طاقتور اور مضبوط سمجھتے ہوئے عورت پر ظلم و جبر کرتا ہے، ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔ پنجاب میں خواتین کے حوالے سے موثر اور پروگریسیو قانون سازی ہوئی ہے اور یہاں خواتین کے حقوق و تحفظ کے ادارے بھی اچھا کام کررہے ہیں۔ 2016ء کی قانون سازی کے بعد پنجاب وویمن پروٹیکشن اتھارٹی بنائی گئی جو خواتین کے تحفظ کیلئے اچھے اقدامات کر رہی ہے۔

یہ حوصلہ افزاء ہے کہ خواتین کے حقوق کی تحریک آگے بڑھی ہے، اب تنہائی میں بات نہیں ہوتی بلکہ خواتین کے مسائل پر تمام ادارے مل کر کام کرتے ہیں۔ جہاں ہمیں اس چیز کا اعتراف کرنا ہے کہ خواتین محروم ہیں اور تشدد کا شکار ہیں وہیں ہمیں مسائل پر بھی نظر رکھنی ہے جن کی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے، ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ خواتین کا تعلق کسی بھی رنگ، نسل، مذہب سے ہو، اس سے تفریق نہ کی جائے بلکہ آئین و قانون کے مطابق سب کو برابر حقوق دیے جائیں۔

آئندہ مالی بجٹ کے حوالے سے ابھی سے بات چیت شروع ہوگئی ہے لہٰذا وائلنس اگینسٹ وویمن سینٹرز اور خواتین کے دیگر اقدامات کیلئے درکار بجٹ پر کام کا آغاز کر دینا چاہیے تاکہ آئندہ مالی بجٹ میں یہ وسائل فراہم کر دیے جائیں جن سے معاملات کو آگے بڑھایا جاسکے۔

صدف رشید
(انچارج جینڈر کرائم سیل)

پاکستان میں ہر 3 میں سے 1 خاتون ڈومیسٹک وائلنس کا شکار ہورہی ہے جو الارمنگ ہے۔ افسوس ہے کہ اس جدید دور میں بھی خواتین کومساوی حقوق اور ترقی کے برابر مواقع نہیں مل رہے۔ انہیں تعلیم، صحت، تحفظ و دیگر حوالے سے مسائل کا سامنا ہے جس سے ان کی زندگی میں مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔ ہراسمنٹ و زیادتی کی صورت میں خواتین واقعہ رپورٹ کرنے سے گھبراتی ہیں، اس معاملے میں ان کی عزت کا مسئلہ سب سے اہم ہے۔ کیس رپورٹ کرنے کیلئے خاتون کو اپنے خاندان اور معاشرے کے خلاف کھڑا ہونا پڑتا ہے اور اسے سکینڈل بننے کا خوف بھی ہوتا ہے۔

اس میں ایک بڑی وجہ ’وکٹم بلیمنگ‘ اور معاشرتی رویہ ہے جسے بدلنا انتہائی اہم ہے۔ خواتین کے تحفظ کے حوالے سے محکمہ پولیس میں انقلابی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ہر ڈویژن میں جینڈر کرائم سیل قائم کیا گیا ہے جس میں خواتین موجود ہیں اور ’ایس پی‘ کو اس کا انچارج بنایا گیا۔ ان سیلز کے قیام سے خواتین کو کافی آسانی ملی ہے اوراب انہیں کیس رپورٹ کرنے میں مشکل کا سامنا نہیں ہوتا۔  زیادتی کے کیس میں 24 گھنٹے کے اندر اندر ایف آئی آر درج کی جاتی ہے، متاثرہ خاتون کا فوری میڈیکل ہوتا ہے اور پھر ڈی این اے کرایا جاتا ہے۔

ایک افسوسناک بات قابل ذکر ہے کہ ملزمان کو سزا کی شرح انتہائی کم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ 70فیصد کیسز میں عدالت کے باہر ہی تصفیہ کر لیا جاتا ہے، اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے عوامل ہیں جن پر غور کرنا ہوگا اور جہاں بہتری کی ضرورت ہے وہاں کام کرنا ہوگا۔ ہم خواتین کو ایف آئی آر کرنے میں تو مدد دیتے ہیں مگر اس کی مالی امداد یا قانونی معاونت نہیں کرتے، یہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں ہے مگر خواتین کو اس کی ضرورت ہوتی ہے، اس حوالے سے میکنزم بنانا چاہیے۔

زیادتی کی شکار خاتون کے میڈیکل کیلئے سرکاری ہسپتال میں 500 روپیہ فیس متاثرہ خاتون سے لی جاتی ہے جو افسوسناک ہے، وہ پہلے ہی ایک مشکل سے گزر رہی ہوتی ہے لہٰذا اسے میڈیکل کی مفت سہولت فراہم کرنی چاہیے۔ متاثرہ خواتین کو ماہر نفسیات کی ضرورت ہوتی ہے مگر وہ بھی سرکاری ہسپتالوں میں نظر نہیں آتے، خواتین کو ان کا خاندان بھی سپورٹ نہیں کرتا اور مجبوراََ انہیں دارالامان یا ایدھی سینٹر جانا پڑتا ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ خواتین کو حوصلہ دیا جائے، ان کی بات پر یقین کیا جائے اور ان کے ساتھ کھڑے ہوکر ہر ممکن مدد فراہم کی جائے۔

فاخرہ ارشاد
(ڈپٹی ایگزیکٹیو آفیسر پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی)

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کی جانب سے قائم کردہ ’ویمن سیفٹی ایپ‘ خواتین کو تحفظ اور مشکل کی صورت میں فوری مدد فراہم کرنے کیلئے بہترین قدم ہے۔ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں اس ایپ سے کال کی جائے گی تو لوکیشن ہونے کی وجہ سے خاتون کو فوری طور پر مدد فراہم کی جاسکے گی، اس میں خاندان کے کسی فرد کا نمبر اور ای میل درج کرانے کا آپشن بھی موجود ہے۔ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں متعلقہ اداروں کے ساتھ ساتھ خاندان کے فرد کو بھی فوری طور آگاہ کر دیا جائے گا، اس طرح پولیس اور خاندان دونوں بیک وقت خاتون کو ریسکیو کر سکیں گے۔

اس ایپ میں خواتین کے حقوق و تحفظ سے منسلک اداروں کو لنک کیا گیا ہے، جس طرح کا مسئلہ ہو اس سے متعلقہ ادارہ متحرک ہوجاتا ہے، اگر پولیس کی مدد چاہیے تو معاملہ پویس کو ریفر کر دیا جاتا ہے، اگر مشورہ یا رہنمائی درکار ہو تو پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن کی ہیلپ لائن 1043 پر ریفر کر دیا جاتا ہے۔

اس میں لوکیشن ریویو کا آپشن بھی موجود ہے، اگر کسی خاتون کو کوئی جگہ غیر محفوظ محسوس ہو تو وہ اپنی رائے دے سکتی ہے، اس سے ایپ پر تفصیل آجائے گی اور دیگر خواتین بھی اسے چیک کرسکیں گی۔ ہماری ٹیم 24 گھنٹے رہنمائی کیلئے موجود ہوتی ہے، ویمن سیفٹی ایپ کے حوالے سے آئی جی پی کی ہیلپ لائن 1787 پر شکایت کی جاسکتی ہے۔

خواتین کی رہنمائی کیلئے پی ٹی اے، فون بلاکنگ، دارالامان، خاتون محتسب کا ادارہ و دیگر حوالے سے بھی تفصیلات دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اس ایپ پر خواتین کی رہنمائی کیلئے قانونی دستاویزات اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں موجود ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔