گھونگڑی: روایتی پشتون ڈش

آصف شہزاد  جمعرات 2 دسمبر 2021
گھونگڑی مختلف اناج اور دالوں کو مکس کرکے بنائی جاتی ہے۔ (فوٹو: بلاگر)

گھونگڑی مختلف اناج اور دالوں کو مکس کرکے بنائی جاتی ہے۔ (فوٹو: بلاگر)

مختلف اقوام میں ثقافتی اور علاقائی بنیاد پر اپنے خاص روایتی کھانے ہوتے ہیں۔ گھونگڑی بھی پشتون قبائل کے چند مقبول پکوانوں میں سے صدیوں پرانی روایتی ڈش ہے جسے آج بھی بڑے ذوق و شوق سے پکایا اور کھایا جاتا ہے۔

اس ڈش کی ابتدا کے بارے میں تاحال کوئی مستند یا تاریخی حوالہ دستیاب نہیں۔ تاہم اگر برصغیر سے باہر کسی حوالے کا ذکر کیا جائے تو مصر میں اس سے ملتی جلتی ڈش زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے جس کے متعلق اگر عرب کتابوں کے حوالوں کا سہارا لیا جائے تو اس ڈش کو حضرت نوح علیہ السلام سے منسوب کیا جاتا ہے اور یوں بیان کرتے ہیں کہ طوفان کے بعد نوح علیہ السلام کے پاس جو اناج بچ گئے تھے ان سب کو ملا کر ایک پکوان پکایا گیا، جسے کچھ جگہوں پر طبخ الحبوب لکھا گیا تو کچھ تحاریر میں اس ڈش کو الحبوب کے نام سے رقم کیا گیا ہے، جس کے لغوی معنی اناج کے ہیں۔

برصغیر میں اس ڈش کے حوالے سے کوئی تاریخی دستاویزی یا مستند معلومات دستیاب نہیں تاہم اس ڈش کے اجزائے ترکیبی اور پکانے کے معروف مواقعوں سے مقامی تاریخی ماہرین کی کچھ قیاس آرائیاں ضرور ہیں، جن کے مطابق یہ امکان غالب ہے کہ شاید زمانہ قدیم میں یہ ڈش اجتماعیت، ہم آہنگی اور باہمی تعاون کے جذبے سے وجود میں آئی تھی۔ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب سرد علاقوں میں برفباری کی وجہ سے زرعی زمینیں برف سے ڈھکی رہتی تھیں تو شاید غلہ اور اناج کی قلت کی وجہ سے کمیونٹی کے ہر فرد نے اپنی طرف سے جو اناج ہاتھ لگا وہی اس ڈش کےلیے پیش کردیا اور اجتماعی بنیاد پر ایک غذا تیار ہوکر تقسیم ہونا شروع ہوئی، جسے اب ’’گھونگڑی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مذکورہ بالا قیاس آرائیوں میں صداقت کا امکان اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس ڈش کو جن مواقعوں پر تیار کیا جاتا ہے ان میں زیادہ تر صدقہ و خیرات کے جذبات نمایاں ہوتے ہیں، خصوصاً جب خشک سالی طول پکڑتی ہے تو پشتون قبائل کے بیشر علاقوں میں یہ روایت اب بھی زندہ ہے کہ محلے کے لوگ پیسے اکھٹا کرکے گھونگڑی پکاتے ہیں اور بارش کی دعا کرتے ہوئے یہ ڈش لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ بچے کی پیدائش کی خوشی اور محرم کے موقع پر بھی گھونگڑی کی تقسیم کی روایت بہت پرانی ہے۔

گھونگڑی مختلف اناج اور دالوں کو مکس کرکے بنائی جاتی ہے، جن میں گندم، چنا، مٹر، مکئی، لال لوبیا اور کچھ دیگر اناج بھی شامل ہیں، تاہم گندم اور لوبیا کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ تمام اجزا کو پہلے تمام رات پانی میں بھگوئے رکھتے ہیں اور پھر صبح برتن میں ڈال کر دھیمی آنچ پر پکایا جاتا ہے۔ جب تمام اشیا پک کر نرم ہوجاتی ہیں تو لکڑی سے ان کو گھلا دیا جاتا ہے۔ تیار ہونے کے بعد اس میں مختلف مصالحہ جات ڈالے جاتے ہیں جو اس ڈش کے ذائقے کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ ان مصالحوں میں سرخ مرچ، سوکھا جنگلی پودینہ (جس کا مقامی نام ویلنے یا وینلے ہے) سرکہ اور مقامی مصالحہ ڈمبرہ شامل ہیں۔

اس ڈش سے ملتا جلتا پکوان دیگر اقوام میں بھی تیار ہوتا ہے لیکن جو طریقہ اور اجزا پشتون قبائل میں مقبول ہیں وہ دیگر اقوام سے مختلف ہیں۔ پشتون قبائل اس ڈش میں کچھ مقامی مصالحہ جات جیسے ویلنے (جنگلی پودینہ)، ڈمبرہ اور سات قسم کے دیگر مقامی مصالحوں کا استعمال کرتے ہیں، جو کہیں اور معروف نہیں ہیں۔ گھونگڑی یوسف زئی قبیلے کے اکثریتی علاقوں میں انتہائی مقبول ہے، خصوصاً سوات، مالاکنڈ، شانگلہ، بونیر، دیر، صوابی اور مردان میں اس ڈش کو کافی شوق سے کھایا جاتا ہے۔ اگر مالاکنڈ ڈویژن کے کسی بھی ضلع میں آپ کو محلوں، اسکولوں، سڑک کنارے یا کھیل کے میدانوں میں پتیلے پر کوئی ڈش تیار ہوتی نظر آئے تو سمجھ لیجئے کہ یہ یقیناً گھونگڑی ہے۔

گھونگڑی کو عموماً کٹورے میں پیش کیا جاتا ہے اور گرم گرم کھایا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ڈش کا کئی ارتقائی عوامل سے بھی گزر ہوا جس کے مطابق کبھی گڑ کے ساتھ پکایا گیا تو کبھی نمکین، کبھی خشک کرکے پکایا گیا تو کبھی پانی زیادہ کرکے گھلایا گیا۔ اکثر علاقائی بنیادوں پر اس ڈش میں تبدیلیاں رونما ہوتی گئیں اور انہی ارتقائی تبدیلیوں کے مطابق ذائقوں کا سفر جاری رہا۔ ہمارے دور میں اس ڈش میں جو بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملی اس کے مطابق اب بیشتر لوگ اس میں سموسہ توڑ کر کھاتے ہیں جو گھونگڑی کی لذت میں بے حد اضافہ کرتا ہے۔ سموسے اور گھونگڑی کا یہ امتزاج نوجوانوں میں زیادہ مقبول ہے۔ اس لیے اب جہاں جہاں بھی گھونگڑی فروخت ہوتی ہے وہیں سموسے بھی دستیاب ہوتے ہیں۔

گو اس ڈش کو نوے کی دہائی تک یوسف زئی سمیت تمام پشتون قبائل میں کافی پسند کیا جاتا تھا اور یکساں طور پر مقبول تھی، تاہم کچھ دہائیوں سے یہ ڈش اب صرف مالاکنڈ ڈویژن کے اضلاع تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ مالاکنڈ ڈویژن کے بیشتر علاقوں میں یہ ڈش ہر محلے میں دستیاب ہے۔ تاہم اب بھی کچھ علاقوں میں بارش کےلیے دعا کے موقع پر، بچے کی پیدائش کی خوشی میں اور محرم کے موقع پر بطور نیاز یہ ڈش تیار کی جاتی ہے۔ اس ڈش کو سردیوں کے موسم میں خصوصی حیثیت حاصل ہے کیونکہ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جسم کو گرم رکھتی ہے اور عام طور پر اسے سردی کا توڑ بھی سمجھا جاتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

آصف شہزاد

آصف شہزاد

بلاگر لاء گریجویٹ ہیں۔ مختلف اخبارات اور ویب سائٹس کےلیے معاشرتی مسائل پر بلاگز اور کالم لکھتے ہیں۔ ان سے ٹویٹر ہینڈل @spinbaaz پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔