پیر چناسی، گشتابہ اور دو روپے والی گلی

آصف محمود  منگل 30 نومبر 2021
پیرچناسی کا اصل نام پیر شاہ حسین بخاریؒ ہے۔ (فوٹو: فائل)

پیرچناسی کا اصل نام پیر شاہ حسین بخاریؒ ہے۔ (فوٹو: فائل)

سانپ کی مانند بل کھاتی سڑک، اطراف میں خوبصورت سرسبز پہاڑ، گہری کھائیاں اور مسلسل بلندی… ہماری منزل پیر چناسی کا مقام تھا، جسے مظفرآباد کے پہاڑی سلسلے میں سب سے اونچا مقام سمجھا جاتا ہے۔ یہ جگہ سطح سمندر سے تقریباً ساڑھے 9 ہزار فٹ کی بلندی پر ہے۔

گاڑی سست روی کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی اور ہماری منزل قریب آتی جارہی تھی۔ میں لاہور سے اپنے چند صحافی دوستوں کے ساتھ مظفرآباد میں ایگری کلچر کے حوالے سے منعقدہ تربیتی ورکشاپ میں شرکت کے لیے گیا تھا۔ ہم لوگ رات ساڑھے بارہ بجے ریل کار کے ذریعے لاہور سے راولپنڈی کےلیے روانہ ہوئے۔ منتظمین نے ہمارے لیے کیبن بک کروائے ہوئے تھے تاہم مجھ سمیت دیگر ساتھیوں کا بھی ٹرین کے ذریعے سفر کا تجربہ کوئی اتنا اچھا نہیں تھا۔ صبح پانچ بجے کے قریب ہم لوگ راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے جہاں فجر کی نماز ادا کی گئی اور یہاں گاڑی ہمیں ہماری منزل کی طرف لے جانے کےلیے تیار تھی۔

لاہورسے راولپنڈی اور پھر آگے مری، بھوربن تک کا سفر تو متعدد بار کرچکا تھا لیکن مری سے آگے مظفرآباد کی جانب یہ پہلا سفر تھا۔ آزاد کشمیر کی حدود میں داخل ہونے کے بعد مظرآباد تک زیادہ سفر دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ تھا۔ دریا کا صاف اور شفاف پانی دعوتِ نظارہ دے رہا تھا۔ انتطامیہ کی جانب سے جگہ جگہ تنبہیہ کے بورڈ آویزاں ہیں کہ فوٹوگرافی کےلیے دریا کے قریب مت جائیں، یہاں کئی حادثات ہوچکے ہیں۔ فلک شگاف اونچے پہاڑوں پر سفر کرتے دریائے جہلم ایک چھوٹے سے برساتی نالے کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ بعض مقامات پر اس کی چوڑائی زیادہ اور پانی بھی گہرا ہے۔

مظفرآباد سفر کے دوران راستے میں ایک جگہ چند منٹ قیام کے دوران چائے اور کشمیری باقرخانی کھانے کا موقع بھی ملا۔ ہم لوگ تقریباً ساڑھے 9 بجے پی سی ہوٹل مظفرآباد پہنچ گئے، جہاں کمروں کی الاٹمنٹ کے بعد ناشتے پر ہاتھ صاف کیے۔ ہمارا آج کا سارا دن فری تھا، تربیتی ورکشاپ اگلے دن شروع ہونا تھی۔ اس لیے دوستوں نے فارغ وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی قریبی سیاحتی مقام کی سیر کا پروگرام بنایا اور قرعہ فال پیر چناسی کے نام نکل آیا۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے پیرچناسی کا نام پہلی بار سنا تھا، اس لیے تھوڑا اشتیاق تھا کہ وہ جگہ کیسی ہوگی۔ ہوٹل سے روانگی سے قبل دوستوں نے مشورہ دیا کہ گرم کوٹ، جیکٹ پہن لی جائے کیونکہ پیرچناسی میں سردی زیادہ ہوتی ہے۔

اب ہماری منزل پیرچناسی تھی۔ ڈرائیور بھی مقامی تھا، اس نے بتایا کہ پہلے مظفرآباد سے پیرچناسی تک سڑک بہت خراب تھی لیکن اب خوبصورت سڑک بن چکی ہے۔ راستے میں ایک، دو مقامات پر لینڈسلائیڈنگ کی وجہ سے بڑے بڑے پتھر سڑک پر گرنے سے سڑک ٹوٹ چکی تھی اور اس کی مرمت کی جارہی تھی لیکن مجموعی طور پر سڑک کی حالت بہت بہتر ہے۔ مظفرآباد سے تقریباً 30 کلومیٹر کا سفر دو گھنٹوں میں مکمل ہوا۔ ڈرائیور کے مطابق یہاں چند روز پہلے برف باری ہوئی تھی، اس وجہ سے اب بھی یہاں چند ایک مقامات پر برف کے آثار موجود تھے۔ چناسی ٹاپ سے کچھ پہلے سراں ہے۔ یہاں ایک ریسٹ ہاؤس اور پیراگلائیڈرز پوائنٹ ہے۔ سراں تا ایئرپورٹ ہوا کے دوش پر تیرتے شوخ و شنگ پیراشوٹس مظفرآباد کی فضاؤں کو رنگین بناتے ہیں۔

بالآخر ہم پیرچناسی پہنچ گئے۔ یہاں پاک فضائیہ کی کچھ دفاعی تنصیبات بھی ہیں۔ بلند ترین پہاڑ کی چوٹی پر ایک مزار ہے، اس کے سامنے کے حصے کو احاطے کی شکل دی گئی ہے۔ ایک چھوٹا سا بازار بھی ہے جہاں مقامی چائے، قہوے، پکوڑوں اور گرم کپڑوں کی دکانیں ہیں۔ چند دکانوں کے باہر مختلف قسم کی جنگلی جڑی بوٹیاں پڑی تھیں۔ دکاندار نے بتایا کہ ان میں کچھ جڑی بوٹیاں شوگر، بلڈپریشر، پیٹ کے امراض اور زخموں پر لگانے کےلیے ہیں۔ تاہم ان کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔

پیرچناسی کا اصل نام پیر شاہ حسین بخاریؒ ہے۔ مقامی روایت کے مطابق یہ بزرگ بلوچستان کے علاقے سے 350 سال پہلے ہجرت کرکے تبلیغ اسلام کے سلسلے میں یہاں آکر بس گئے تھے۔ پیروں، فقیروں، صوفیوں، سنتوں اور ولیوں نے زیادہ تر چلہ گاہوں کےلیے پہاڑی چوٹیوں کو پسند کیا، جن میں سے ایک پیر چناسی ہے۔ ویسے بھی کئی بزرگ حقیقت حق کی تلاش میں آبادیوں سے دور جنگلوں، بیابانوں اور پہاڑوں میں ڈیرے ڈالتے تھے تاکہ دنیا سے دور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرسکیں۔

نزدیکی آبادی بھی خاصی نیچے پائی جاتی ہے۔ اس کے ایک طرف پیر سہار کو راستہ جاتا ہے، جہاں پیدل جانا پڑتا ہے۔ دوسری طرف نیلم کا خوبصورت پہاڑی سلسلہ اور وادی کاغان کے پہاڑ مکڑا کا نظارا ہوتا ہے۔ یہاں انتہائی سرد ہوائیں چل رہی تھیں۔ بادل نیچے رہ گئے تھے، اوپر کا آسمان انتہائی صاف اور نیلگوں دکھائی دے رہا تھا۔ تیز ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے ایسے لگ رہا تھا جیسے ہمارے یہاں دسمبر اور جنوری کی سردیوں میں ٹھنڈی ہوائیں چلیں تو قلفی جما دیتی ہیں۔ ہم نے مزار پر فاتحہ خوانی کی۔ مزار کے اندر حضرت شاہ حسین بخاریؒ کی قبر مبارک کے علاوہ ایک اور قبر بھی ہے، تاہم اس پر کوئی کتبہ نظر نہیں آیا۔ ہماری طرح کئی اور سیاح اورعقیدت مند بھی یہاں موجود تھے جنہوں نے یہاں فاتحہ خوانی کی اور پھر فوٹوگرافی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ چناسی کی فضاؤں میں سیاہ و سرخ علم اور سبز جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ کئی عقیدت مند یہاں من کی مرادیں پانے کےلیے کپڑوں کے ٹکڑے باندھ دیتے ہیں۔

ہم دوستوں نے ایک ڈھابے سے سبز چائے پی، جو واقعی مزیدار تھی لیکن سرد ہواؤں کی وجہ سے چائے بہت جلد ٹھنڈی ہوگئی۔ کچھ دوستوں نے یہاں سے اخروٹ اور جڑی بوٹیاں خریدیں۔ پیرچناسی کی طرف جاتے ہوئے ہمیں کئی مقامات پر سیاحتی پولیس بھی نظر آئی۔ پیرچناسی کے مقام پر تین، چار سیاحتی پولیس کے اہلکار موجود تھے۔ انہوں نے ہمیں اس مقام کے بارے میں معلومات فراہم کیں اور یہ بھی بتایا کہ آزادکشمیر حکومت نے سیاحتی پولیس میں گریجویٹ نوجوان بھرتی کیے ہیں جو سیاحوں کو گائیڈ کرنے کے علاوہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں انہیں ریسکیو کرنے میں بھی معاونت کرتے ہیں۔

مظفرآباد میں قیام کے بعد اگلے دن تربیتی ورکشاپ میں شرکت کی۔ پہلے روز کے سیشن کے بعد مظفرآباد میں اپنے دوست کی معاونت اور میزبانی میں مظفرآباد شہر، آزادی چوک، اور وہ مقام جہاں دریائے جہلم نیلم گلے ملتے ہیں، مظفرآباد پریس کلب کی نئی زیرتعمیرعمارت دیکھنے کا موقع ملا۔ یہاں قریب ہی سیکریٹریٹ، سپریم کورٹ سمیت دیگر سرکاری عمارتیں ہیں۔

مظفرآباد کے علاقہ اپراڈہ میں واقع مدینہ مارکیٹ اور یہاں کے مشہور پاکستان ہوٹل میں کشمیر کی خاص سوغات گوشتابہ کھانے کا موقع ملا۔ گوشتابہ کوفتوں کی طرح کی ڈش ہے، تاہم اس میں جو شوربہ بنایا جاتا ہے وہ سفید ہوتا ہے، شاید دہی کا زیادہ استعمال کرتے ہیں جس طرح وائٹ قورمہ بناتے ہیں۔ اس کے ساتھ کئی تہوں والا پراٹھا اور ساتھ میں چائے۔ کشمیرکی روایتی ڈش کھانے کے بعد چہل قدمی کےلیے مدینہ مارکیٹ کا رخ کیا۔ یہ ہمارے شاہ عالم یا انارکلی بازار کی طرح کی مارکیٹ ہے، زیادہ بڑی اور کھلی نہیں ہے۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں 8 اکتوبر 2005 کو آنے والے زلزلے نے سب سے زیادہ تباہی مچائی تھی۔ یہاں موجود مسجد کا بلند و بالا مینار بھی گرگیا تھا جس سے بڑے پیمانے پر لوگ جاں بحق ہوئے۔ حکومت کی طرف سے ریلیف ملنے کے بعد یہاں نئی دکانیں، بازار اور گھر بنائے گئے ہیں۔

مدینہ مارکیٹ کے اندر کئی چھوٹے بازار بھی ہیں۔ ان میں سے ایک بازار دو روپے والی گلی بھی ہے۔ گلی کے نام کی وجہ تسمیہ جاننے کےلیے ایک دکاندار سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ برسوں پہلے یہاں ایک بزرگ نے دکان کھولی تھی اور وہ ہر چیز دو روپے میں دیتے تھے، اس وجہ سے گلی کا نام ہی دو روپے والی گلی پڑگیا۔ میں نے ان سے پوچھا کیا آج اس گلی میں کوئی چیز دو روپے میں بکتی ہے؟ تو وہ ہنس پڑے اور بولے دو کے ساتھ دو صفر لگالیں تو پھر شاید کوئی چیز مل بھی جائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

آصف محمود

آصف محمود

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ 2009 سے ایکسپریس میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاک بھارت تعلقات، بین المذاہب ہم آہنگی اورسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں۔ بلاگر سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔