پاکستان میں برطانوی جمہوریت کی کوئی گنجائش نہیں

غلام محی الدین  اتوار 9 فروری 2014
 سابق وفاقی وزیر و چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن روفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کے ساتھ ایک نشست  ۔ فوٹو : وسیم نذیر

سابق وفاقی وزیر و چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن روفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کے ساتھ ایک نشست ۔ فوٹو : وسیم نذیر

اسلام آ باد:  سابق وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین اور پرائیڈ آف پرفارمنس ڈاکٹر عطاء الرحمٰن بنیادی طور پر آرگینک کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔

ملک کے اندر اور باہر تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے حوالے سے ان کی خدمات ہمیشہ قابل تحسین رہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کے ان پودوں اور جڑی بوٹیوں کے کیمیائی اجزاء پر تحقیق کی، جن سے دوائیں بنائی جا سکتی ہیں اس کے علاوہ 425 نئے قدرتی اجزا دریافت کیے۔ مؤقر عالمی مجلوں میں تاحال ان کے 380 تحقیقی کالم شائع ہوچکے ہیں۔ 1987 میں ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کو سائنسی خدمات کے اعتراف میں کیمبرج یونی ورسٹی نے ڈاکٹر آف سائنس کی ڈگری پیش کی۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان میں کام کرتے ہوئے یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے سائنس داں ہیں۔

انھوںنے 51 کتابیں تحریر و تصحیح کے مراحل سے گزاریں۔ کیمسٹری پر پاکستان کی وہ پہلی کتاب، جو بیرون ملک چھپی اور خریدی گئی، ان ہی نے تصنیف کی۔ ان کی تحقیقات کی بہ دولت کئی پاکستانی طلبہ نے پی ایچ ڈی کے مقالے مکمل کیے۔ پروفیسر صاحب کو سائنس دانوں کی اس کتاب میں دست خط کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے جس میں نیوٹن اور آئن سٹائن جیسے سائنس دانوں کے دست خط شامل ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کامسٹیک کے کو آرڈی نیٹر جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ حال ہی میں پاکستانی سائنس دانوں نے جنییاتی مادے کا نقشہ تیار کرکے اس علم کی تاریخ میں نیا کارنامہ سرانجام دیا، اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب کا جینوم ڈی کوڈ کیا گیا ہے۔ گذشتہ دنوں روزنامہ ایکسپریس نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، ان سے ہوئی گفت گو وہ حاضر خدمت ہے۔

ایکسپریس: چیئر مین ہائر ایجوکیشن کمیشن کا عہدہ چھوڑنے کے بعد آپ کی کیا مصروفیات رہیں؟
عطاء الرحمٰن: جی میں اس عرصہ میں یک سر فارغ نہیں بیٹھا بل کہ بہت سارا ایسا کام کیا جو میں پہلے نہیں کر سکتا تھا مثلاً، پاکستان میں معیاری تعلیم کے حوالے سے سب سے بڑی مشکل قابل اساتذہ کی کمی ہے، میں نے معروف عالمی تعلیمی اداروں سے اجازت لے کر اس مسئلے کا ایک حل یہ نکالا کہ دنیا بھر کی معروف اور ٹاپ یونی ورسٹیوں کے مفت انٹرنیشنل آن لائین کورسز ایک مخصوص ویب سائٹ ’’ایل ای جے فور‘‘ (لطیف ابراہیم جمال نیشنل سائنس انفارمیشن سینٹر) کے نام سے اکٹھے کر دیے ہیں، جس کو ’’LEJ. Knowledge Hub‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اب ان کورسز کی تلاش نہایت آسان ہو چکی ہے، یہاں پر ہر قسم کی تعلیم کے قریباً ہر سطح کے کورسز موجود ہیں، کراچی میں صدر پاکستان کے ہاتھوں ان کورسز کی لانچنگ بھی ہو چکی ہے۔ اب پاکستان دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے دنیا بھر کے مفت اور بہترین آن لائین کورسز کے لیے ایک سرچ انجن تیار کر لیا ہے۔ ایم آئی ٹی اور ہارورڈ جیسے ممتاز اداروں کے مفت کورسز سے نہ صرف پاکستان بل کہ دیگر ترقی پذیر ممالک کے ہزاروں لاکھوں طلبہ بھی مستفید ہوں گے۔

اب ہمارے بچے آن لائین کورسز کے لیکچر سن اور دیکھ کر اپنی کلاسوں میں جانے کے قابل ہو سکیں گے۔ میرے دوسرے کام کا آغاز 17 فروری 2014 سے ہو رہا ہے۔ پاکستان میں چینی زبان کی ترویج کے لیے یو نی ورسٹی سطح پر 4 ماہ کا ایک کورس شروع کیا جارہا ہے، جو مفت ہو گا، پہلے مرحلے میں اسلام آباد اور کراچی کے کنفیوشس سینٹرز کے زیر انتظام اس کورس سے ملک بھر کی یونی ورسٹیوں کے 500 سے زیادہ نام زد طلبہ چینی زبان سیکھ سکیں گے۔ میں نے اس پروگرام کے حوالے سے 30 کے قریب وائس چانسلروں کو خطوط بھیجے ہیں۔ اس پروگرام کو بہ تدریج کالج اور اسکول کی سطح تک لایا جائے گا، پہلے مرحلے کے طلبہ کو امتحان کے بعد سرٹیفیکیٹ جاری ہوں گے، یہ پروگرام مستقل بنیادوں پر شروع کیا جا رہا ہے تاکہ ہماری نئی نسل کو چین کی تعمیر و ترقی کو سمجھنے کا موقع ملے۔ اِس ضمن میں جو تیسری ڈیویلپمنٹ ہوئی ہے، وہ کراچی یونی ورسٹی میں میرے والد صاحب کے نام پر قائم سینٹر میں جینیٹک کے شعبے میں ہوئی، اس مرکز کی تعمیر کے لیے میں نے اپنی ذاتی بچت سے کافی رقم فراہم کی ہے، ’’جمیل الرحمٰن جینومیکس ریسرچ سینٹر‘‘ اِس کا نام ہے۔

اِس مرکز میں کام کرنے والے کوالی فائیڈ ماہرین نے سب سے پہلے میرا ’’جنیٹک کوڈ میپ‘‘ تیار کیا، اس مرکز کی عمارت مکمل ہو چکی ہے اور جدید آلات بھی درآمد کیے جا چکے ہیں، اِس مرکز کو چین کے جینیٹک مرکز کی معاونت حاصل ہے۔ چین کی اکیڈیمی آف سائنسز نے 10 جنوری 2014 کو بیجنگ میں ایک تقریب کے دوران مجھ کو انٹرنیشنل کوآپریشن ایوارڈ دیا، یہ پہلا موقع ہے کہ یہ ایوارڈ ترقی پذیر ملک سے تعلق رکھنے والے کسی سائنس دان کو ملا۔ آج کی دنیا علم کی دنیا ہے، وہی ملک آگے ہیں جن کی افرادی قوت علم و دانش رکھتی ہے۔ ان ممالک نے سائنس اور ٹیکنالوجی کو ترجیح دی مگر بدقسمتی سے پاکستان دنیا کے ان 8 ممالک میں شامل ہے، جو تعلیم پر سب سے کم خرچ کر رہے ہیں، ہم اپنے جی ڈی پی کا صرف 1.9 فی صد تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے کابینہ سے اس کو 7 فی صد تک منظور کرایا مگر کیا کچھ بھی نہیں، موجودہ حکومت نے اپنے منشور میں 5 فی صد کا وعدہ کیا ہوا ہے مگر ابھی تک اِس پر عمل درآمد نہیں کیا، تعلیم کے معیار کو بہتر کیے بغیر پاکستان سے غربت ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کو نالج اکانومی کی اشد ضرورت ہے۔

ایکسپریس: آج کی صورت حال کے تناظر میں پاکستان کا مستقبل کیا ہے؟
عطاء الرحمٰن: آپ تیس پینتیس سال کا تجزیہ کر لیں، ہر آنے والا سال گزرنے والے سال سے خراب ہی گزرا، آپ ان برسوں کو چاہے کسی بھی پیمانے پر پرکھیں، حالات برے ہی نظر آئیں گے، حال آںکہ ہمارے پاس ٹیلنٹ کی کمی نہیں، نئی نسل بہت باصلاحیت اور ذہین ہے مگر مشعل راہ کسی کے پاس نہیں۔ موجودہ حکومت سے مجھے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں، کابینہ میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں مگر وہ کچھ کرکے دکھائیں تو بات بنے۔ کوئلے کی بنیاد پر توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں کا اعلان بہت اچھا ہے گو کہ یہ قدم ہمیں 40 سال پہلے اٹھانا چاہیے تھا، آج پاکستان کوئلے سے 5 فی صد، بھارت 50 فی صد اور چین 65 فی صد سے زیادہ توانائی حاصل کر رہا ہے مگر ماضی میں ہم نے کرپشن کی وجہ سے توانائی کا حصول تیل پر شفٹ کر دیا جو 50 روپے فی یونٹ تک پہنچ چکا ہے۔

ایکسپریس: آپ اچھے سائنس داں، ماہر تعلیم یا اچھے منتظم ہیں، خود کو بہتر کہاں پاتے ہیں؟
عطا الرحمٰن: میں تو خود کو ہر فیلڈ میں بہت کم زور سمجھتا ہوں، جب بھی کتاب اٹھاتا ہوں تو اپنی نااہلی کا احساس شدت سے ہوتا ہے، بس خود کو بہتر کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں، کہاں تک کام یاب ہوں؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں لیکن مجھے تحقیق کے شعبے میں بہت لطف آتا ہے، نئی چیزیں دریافت کرنا اور ان کی کھوج لگانا اور عالمی سطح پر ایجادات کے اثرات دیکھنا میرا شوق ہے، میں علم کی حدود کے پار جانا چاہتا ہوں، ایچ ای سی کے منتظم کی حیثیت سے میں نے جو کام کیا اُس پر بھارت کی تشویش، میری کام یابی کا واضح ثبوت ہے، ایچ ای سی کے تحت پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ہونے والی شان دار ترقی کے بارے میں بھارتی وزریر اعظم کو ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی تھی، جو بھارت کے ایک بڑے انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز میں23 جولائی 2006 کوشائع ہوئی، اس کا عنوان ’’بھارتی سائنس کو پاکستان سے خطرہ‘‘ تھا، جس کے بعد بھارت نے اپنے UGC کو بند کرنے اور HEC کی طرز کا ادارہ ’’نیشنل کمیشن آف ہائر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ‘‘ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ایکسپریس: آپ کے جانے کے بعد ایچ ای سی کی زبوں حالی کی کہانی کو آپ سن ہی رہے ہوں گے؟
عطا الرحمٰن: میری مدتِ ملازمت کے جب دو سال باقی تھے تو میں نے اکتوبر 2008 میں یہ عہدہ اس لیے چھوڑا کہ پاکستان سے 5 ہزار کے قریب جو بچے باہر پڑھنے گئے ہوئے تھے، ان کے فنڈ روک کر پیپلز پارٹی کی حکومت نے ان بچوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ میں بڑی آسانی سے آنکھیں بند کرکے اپنی مدت پوری کر سکتا تھا مگر مجھ سے ایسے ہو نہیں پایا، زرداری صاحب کو پیغام بھجوایا کہ یا تو یہ مسئلہ حل کیا جائے یا میرا استعفیٰ حاضر ہے، انہوں نے میرا استعفیٰ قبول کرنے کا پیغام بھیجا۔ پھر میرے بعد ایک خاتون آئیں، ان کے بعد جاوید لغاری صاحب آئے لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ میرے چھوڑے ہوئے راستے پر سفر، بعد میں آنے والوں نے جواں مردی سے جاری رکھا۔ ان کو حکومت نے حکم دیا کہ عطاء الرحمن کی کرپشن کے ثبوت باہر نکالو مگر آڈیٹروں کو کچھ نہ ملا، میں نے ہمیشہ ایچ ای سی کا عالمی اداروں سے آڈٹ کرایا تھا اور کرپشن کا سارا کلچر ہی ختم ہو چکا تھا۔ زبوں حالی کی اصل وجہ جاوید لغاری کی بی بی بے نظیر صاحبہ سے محبت اور زرداری صاحب سے دوری بھی تھی مگر لغاری صاحب نے نہایت جرأت سے کام کیا، پھر 200 کے قریب ارکان اسمبلی کی جعلی ڈگریوں نے رہی سہی کسر ہی نکال دی، اندازہ کریں کہ وقاص اکرم کی اپنی ڈگری جعلی تھی مگر وہ وفاقی وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز ہوئے، یہ بات گنیز بک آف ریکارڈ کا حصہ بننا چاہیے۔ پی پی پی کے دور میں مزے لوٹنے کے بعد اب وہ مسلم لیگ (ن) کی وکالت کرتے ہیں، کوئی ایسے لوگوں کو پوچھنے والا نہیں، وہ اب بھی میڈیا پر دھڑلے سے آتے ہیں، یہ ہی لوگ شروع سے چھائے ہوئے ہیں۔

ایکسپریس: جنیٹک میپ سے کیا انسان کے مستقبل کی پیش گوئی ممکن ہے؟
عطاء الرحمٰن: ہر انسان میں 3 ارب کے قریب جینیٹک لڑیاں ہوتی ہیں، جنہیں ہم عام زبان میں ’’موتی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ یہ تین سے چار رنگ کے ہوتے ہیں، ان موتیوں کی ترتیب سے البتہ یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ آپ کے خدوخال کیا ہو سکتے ہیں۔ بالوں، جلد اور آنکھوں کا رنگ کیسا ہوگا، یہ اللہ تعالیٰ کا انسان کے اندر نصب کیمیاوی سافٹ ویئر ہے۔

ایکسپریس: کیا انسان کی پسند ناپسند بھی جین کی ترتیب کے تابع ہے؟
عطاء الرحمٰن: اس کا مجھے علم نہیں البتہ انسان کے رجحانات کا اِس ترتیب سے علم ہوسکتا ہے لیکن یہ کسی ماحول میں رہتے ہوئے کس طرح پروان چڑھتے ہیں؟ وہ ایک الگ کہانی ہے مثلاً، جارحیت (ایگریشن) اور جرائم وغیرہ، یہ سب وہ رجحانات ہیں، جو جینیٹک اسٹرکچر کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ جدید سائنس نے اِن کو پہچان لیا ہے مثلاً، موٹاپے کا قبل از وقت علم ہوسکتا ہے مگر احتیاط اور ماحول سے اسے کنٹرول میں رکھا جاسکتا ہے تاہم اس پر ابھی بہت کام ہونا باقی ہے۔ جین کی پوری لڑی کا کون سا حصہ کس کام، اہلیت، بیماری یا رجحان کو کنٹرول کرتا ہے، اِس پر کام ہو رہا ہے اور بہت جلد اس میں کام یابی ممکن ہے، طب کے میدان میں اِس پر بڑی کام یابیاں متوقع ہیں، اِس میدان میں اب اتنی ترقی ہو چکی ہے کہ صرف 10 دنوں میں 5 ہزار ڈالر مالیت سے آپ کی ساری جینیٹک کیمسٹری سامنے آ جاتی ہے لیکن مستقبل قریب میں نینو ٹیکنالوجی کے ذریعے اب یہ ہی کام چند سوڈالر میں، پندرہ سے بیس منٹ میں ہو جایا کرے گا۔ اسی حوالے سے اب پودوں اور فصلوں پر بھی بہت کام ہو رہا ہے، اب ’’جینیٹک موڈی فائیڈ‘‘ فروٹ اور فصلیں سامنے آرہی ہیں، مستقبل میں ان کی مزید ورائٹیز سامنے آئیں گی، جن کی پیداواری صلاحیت بھی بہت زیادہ ہو گی۔

ایکسپریس: آپ خود اسی شعبے کے ماہر ہیں، آپ کی دل چسپی کس شعبے میں ہے؟
عطاء الرحمٰن: میں ’’سالٹ ٹالرنس جینز‘‘ کی تلاش میں ہوں یعنی ایسے جین جو نمک کی شدت کو برداشت کر سکیں مثلاً، جو پودے سمندری پانی میں نشو و نما پاتے ہیں، ان میں وہ کون سا جین ہے، جو انہیں نمکین پانی میں بھی زندہ رکھتا ہے؟ اگر ان سے یہ جین حاصل کرکے ہم گندم یا دوسری فصلوں میں ڈال دیں تو ہم کلرزدہ زمینوں میں بھی فصلیں اگا سکیںگے، ہمارے پاس سمندری پانی کا بہت بڑا خزانہ ہے، ہم اسے استعمال میں لا سکیں گے۔ یہاں وضاحت ضروری ہے کہ دنیا میں پانی کی کمی نہیں، مسئلہ نمک کا ہے، جو اس کو ناقابل استعمال بنا دیتاہے۔

ایکسپریس: اگر یہ جین مل جاتا ہے؛ تو پھر فشار خون پر کنٹرول بھی ممکن ہے؟
عطا الرحمٰن: بالکل ممکن ہے، آپ نے درست سوچا، اس سے تو دل کی بیماریوں کے علاج میں انقلاب آ جائے گا، میرے خیال میں یہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔

ایکسپریس: کیا یہ درست ہے کہ فکشن اور سائنس کے درمیان ربط دھیرے دھیرے بڑھ رہا ہے؟
عطا الرحمٰن: بڑھ نہیں رہا بل کہ بہت زیادہ بڑھ چکاہے، اب تو سائنس، فکشن سے زیادہ حیرت افزا ہو چکی ہے، اِس کی میں بہت سی مثالیں دے سکتا ہوں، آپ ہیری پوٹر کی کہانیاں پڑھیں، اُس میں لکھا ہے کہ آپ ایک لبادہ اوڑھ لیں تو آپ غائب ہو جائیں گے، سائنس نے آج یہ ممکن کر دیا ہے، یہ لبادہ میٹامٹیریل کہلاتا ہے، اس پر جب روشنی پڑتی ہے تو وہ گھوم کر پیچھے کی طرف چلی جاتی ہے، اگر آپ کے اوپر اس میٹریل کی چادر ڈال دی جائے تو آپ کا جسم غائب اور آپ کے جسم کے آر پار نظر آئے گا، یہ سائنس کا تازہ کرشمہ ہے۔ آج ٹینکوں، جہازوں اور آب دوزوں کو اس میٹریل سے ڈھانپ کر رکھا جارہا ہے؛ جگنو کے اندر چمکنے والے مادے کے جین کو اب پھولوں میں ڈال دیا گیا ہے، جو رات کو بھی نظر آتے ہیں، ایسے ہوائی جہاز بن چکے ہیں جن کو فیول کی ضرورت نہیں، ان کو ’سیکریم جیٹ‘ کہا جاتا ہے، جب یہ آواز کی رفتار سے بارہ گنا زیادہ پر سفر کرتے ہیں تو ان کے اندر خود بہ خود ہوا سے فیول بننے لگتا ہے، کام یاب تجربے ہو چکے ہیں، نینو ٹیکنالوجی سے کاغذ سے بنی ہوئی بلٹ پروف جیکٹ تیار ہو چکی ہیں، یہ کاغذ، لوہے سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے، آج اندھے لوگ اپنی زبان سے دیکھنے کے قابل ہو رہے ہیں، ان کے منہ میں ایک لولی پاپ کی طرح کا سکینر ان کے دماغ پر تصویر بنا دیتا ہے، جو ان کی عینک سے تصویر لے کر ٹرانسفر کرتا ہے، یہ سکینر ’’وائی کیپ کمپنی‘‘کمرشل بنیادوں پر تیار کر رہی ہے، اسی طرح آج آپ اپنی سوچ سے چیزوں کو حرکت دے سکتے ہیں، آپ جب سوچتے ہیں تو دماغ سے نکلنے والے چار طرح کے سگنلز میں سے ایک کمانڈ سگنلز کو سر پر رکھی ٹوپی سے کنٹرول کرکے کمپیوٹر کو فراہم کیا جاتا ہے، جو چیزوں کو حرکت دے سکتا ہے، سوچ سے گاڑی چلانے کا تجربہ ہوچکا ہے، مستقبل میں مزید حیرت انگیز باتیں سامنے آنے والی ہیں۔

ایکسپریس: دہشت گردی کے خلاف کیا جدید سائنس کچھ مدد کر سکتی ہے؟
عطا الرحمٰن: بالکل کرسکتی ہے مثلاً، جارحیت کی وجہ بننے والے جین کی پہچان سے لوگوں میں اِس رجحان کو پہچانا جا سکتا ہے، اگرایک جارح میں سے یہ جین ختم کر دیا جائے یا پھر اس کو بچے پیدا کرنے سے ہی روک دیا جائے تو یہ جین آنے والی نسل میں ٹرانسفر نہیں ہوگا، جارحیت کے جینز پر روس میں کتوں پر کام یاب تجربات کیے جاچکے ہیں، دہشت گردی کو جینیٹک ٹیکنالوجی سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس: پولیو قطروں کے متعلق آئندہ نسل کوکنٹرول کرنے کے بارے میں جو ابہام پھیلایا جا رہا ہے، اسے بھی کیا اِس تناظر میں سچ کہاجاسکتاہے؟
عطا الرحمٰن: یہ ابہام نہیں بل کہ پاگل پن ہے، ایسی باتیں کرنے والے پڑھے لکھے لوگ، پڑھے لکھے جاہل ہو تے ہیں۔ ایسوں ہی کی وجہ سے ہم کئی دہائیوں سے نقصان اٹھاتے چلے آ رہے ہیں، ایسے لوگ حکومت اور حکومت سے باہر ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، بہ حیثیت سائنس داں میں یقین دلاتا ہوں کہ پولیو کے قطرے انسانیت کی فلاح کے لیے ہیں۔

ایکسپریس: ملک میں جی ایس ایم کے بعد تھری جی ٹیکنالوجی آ رہی ہے، جب کہ دنیا فور جی پر پہنچ چکی ہے، آپ کیا کہتے ہیں؟
عطا الرحمٰن: کیا کہوں، رونے کا مقام ہے کہ یہ ٹیکنالوجی بہت پہلے آ جانی چاہیے تھی لیکن مجھے تو اب بھی لگتا ہے کہ مزید دیر ہو جائے گی۔ حکومت کو اب تھری جی کے بہ جائے براہ راست فورجی پر جانا چاہیے، تھری جی کا زمانہ لد چکا۔

ایکسپریس: سائنس دانوں کے متعلق مشہور ہوتا ہے کہ یہ بہت ’بور لوگ‘ ہوتے ہیں مگر آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ خاصے حسن پرست واقع ہوئے ہیں، کیا ایسا ہی ہے؟
عطا الرحمٰن: کیا میں آپ کو بور شخصیت لگتا ہوں؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں حسن پرست ہوں، مجھے قدرت کی خوب صورتی اچھی لگتی ہے۔ سائنس دانوں میں بھی ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں مگر ہر اچھے سائنس داں میں چند مشترک باتیں ضرور ہوتی ہیں مثلاً، وہ حد سے زیادہ محنتی ہو گا، ذہین تو وہ ہوتے ہی ہیں، پھر ان میں سچ کی تلاش کی لگن بہت زیادہ ہو گی، تیسری مشترک بات یہ کہ وہ لکھی ہوئی چیز کو قبول نہیں کرتے، ہر شے پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں، بڑے سے بڑے رستم زماں کی بات پر بھی آمنا و صدقنا کہنے سے گریز کرتے ہیں، ان کی یہ ہی سوچ انہیں علم کے نئے محاذوں پر کھڑا کرتی ہے۔ یہ تصورات کو بدلنے والے ہوتے ہیں، سوچ میں غرق رہنا ان کی عادت ہوتی ہے، دنیا کے تمام بڑے اور اچھے سائنس داں کھوئے کھوئے سے نظر آنے والے تھے اور اب بھی ایسے ہی ہیں، میں خود بھی اِس کیفیت سے کئی بار گزرا ہوں، کئی مرتبہ آئینے میں خود کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اِن صاحب سے کہیں ملاقات ہوئی ہے؛ یہ طے ہے کہ کچھ پانے کے لیے خود کو کھونا پڑتا ہے۔ آپ نے کہا یہ حسن پرست نہیں ہوتے، ایسا نہیں یہ بھی حسن پرست ہوتے ہیں مگر ان کی حسن پرستی میں ایک خاص قسم کا تجسس ہوتا ہے، جو عام لوگوں میں نہیں ہوتا مثلاً، یہ ہے، تو کیوں ہے؟ کیسی ہے؟ مثلاً، میں چیزوں میں، ماحول میں، اپنے اردگرد قدرت کے کیمیائی حسن کو دیکھتا رہتاہوں، مالیکیول کے ادغام کا حسن میرے لیے حسن کی معراج ہے، یہ حسن ہی مجھے تحقیق پر اکساتاہے، علم تو پیاز کے چھلکوں کی طرح ہوتا ہے، ایک کو اتارو، دوسرا پھر تیار! یہ حسن در حسن کا سفر ہے۔

ایکسپریس: حسن در حسن کا یہ سفر اگر علم کا سفر ہے تو علم کے پانچ دروازوں، کب، کہاں، کون، کیسے اور کیوں، میں آپ نے سب سے مشکل دروازہ کون سا پایا، جو کھلتا نہیں؟
عطا الرحمٰن: دروازے تو سارے ہی مشکل ہوتے ہیں، ایک دروازہ کھولو تو اُس کے پیچھے ایک اور دروازہ ہوتا ہے، میں نے پیاز کے چھلکے کی مثال اسی لیے دی ہے کہ علم کی کوئی حد نہیں ہے۔

ایکسپریس: مگر کہا جاتا ہے کہ ’’کیوں‘‘ والا دروازہ بہت کم ہاتھوں سے کھلتا ہے؟
عطا الرحمن: (سوچتے ہوئے) آپ کہہ سکتے ہیں کیوںکہ اِس درکے کا تعلق فلسفے کے ساتھ ہے، یہاں سائنس اور فلسفہ متصادم ہو سکتے ہیں، اس لیے مشکل پڑتی ہے۔

ایکسپریس: اس مشکل کو فلسفی حل کر سکتا ہے یا سائنس داں؟
عطا الرحمن: یہاں پہنچ کر فلسفی سائنس دان اور سائنس داں فلسفی ہوجاتا ہے مگر آج کل سائنس دان ہی شاید اس دروازے کو کھولنے پر مامور ہیں۔ دراصل یہ وہ سائنس دان ہیں، جو طے شدہ راستوں سے ہٹ کر نئی راہ نکالنے کا حوصلہ اور ہمت رکھتے ہیں مثلاً، آج فزکس کے نوبیل انعام یافتہ پروفیسر ہگس اور ان کے ساتھی نے جو کام کیا، وہ نئی راہ ہے، یہ دونوں عظیم سائنس دان اسی راستے کے مسافر ہیں۔

ایکسپریس: آپ نے اپنے ایک کالم میں سوال اٹھایا تھا کہ مشرف کا 1999 میں اٹھایا گیا قدم صیحیح تھا اور وہی قدم 2007 میں غلط کیسے ہو سکتا ہے؟ اس پر کیا آج بھی آپ قائم ہیں؟
عطا الرحمٰن: پرویز مشرف کے ضمن میں آج کل جو ڈراما بازی ہو رہی ہے یہ صرف ڈھائی سے تین ماہ کا عرصہ ہے۔ 3 نومبر 2007 کو جب یہ قدم اٹھایا گیاتھا اُس وقت کے قانون کے مطابق یہ عمل قابل گرفت نہیں تھا۔ کئی سال بعد یعنی 18 ویں ترمیم کے بعد جب نیا قانون بنا تو وہ قابل گرفت تھا، آپ نئے قانون کی بنیاد پر ماضی کے قانوں کے تحت کیے گئے عمل کو کیسے قابل گرفت قرار دے سکتے ہیں۔ قانونی طور پر مشرف پر غداری کا مقدمہ بنتا ہی نہیں۔ 1999 میں جو کچھ ہوا، وہ سپریم کورٹ کے مطابق بالکل درست تھا، اِس لیے کہ اس وقت سب ’’موٹے موٹے لوگ‘‘ اِس میں شامل تھے، چیف جسٹس سے لے کر سیاست داں اور جنرل سب ہی، یہ تو سب کے گلے کا پھندا ہے، ہمت کر کے یہ پھندا ڈالیے، بعد والے عمل میں تو صرف مشرف کے گلے میں پھندا فٹ ہوتاہے، اِس لیے سارا زور اب اسی پھندے پر ہے۔ یہ مقدمہ سپریم کورٹ قائم نہیں کر سکتی بل کہ یہ اختیار تو حکومت کا ہے۔ میرے نزدیک صرف مشرف کو اب ٹارگٹ کرنا غیرقانونی ہے، پکڑنا ہے تو پھر 1999 سے شروع کیجیے۔ پاکستان کے آئین میں صدر کی حیثیت تو محض رسمی ہوتی ہے، پاکستان کا اصل چیف ایگزیکٹیو تو وزیرِاعظم ہوتا ہے ۔

اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو سب ہی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ سمجھ میں آنے والی بات صرف اتنی ہے کہ 1999 میں جو قدم اٹھایا گیا وہ تو سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ نے جائز قرار دے دیاتھا اور اس کے تحت 2007 تک حکومت ہوتی رہی لیکن جب یہ ہی قدم نومبر 2007 میں 3 ماہ کے لیے اٹھایاگیا اور 18فروری 2008 کو الیکشن ہو گئے تواس کو غدّاری کہ کے پرویز مشرّف کے خلاف غدّاری کا مقدمہ دائر کردیا گیا، یہ مدّنظر رکھنا ضروری ہے کہ 3نومبر 2007 کے اقدام کو سپریم کورٹ پاکستان 24 نومبر 2007 کو جائز قرار دے چکی ہے بعد میں مگر آ ئین میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آئین کو معطل کرنا غیر قانونی قرار دے دیا گیا لیکن یہ ترمیم تو بہت بعد میں نافذ ہوئی، جس وقت صدر مشرف نے 3نومبر 2007 کو ایمرجینسی نافذ کی، اس وقت یہ غیر قانونی نہیں تھا۔ پھر یہ بھی مدّ نظر رکھنا ہوگا کہ یہ معاملہ صرف دو مہینے کا ہے کیوںکہ الیکشن 8 جنوری 2008 کو ہونے والے تھے لیکن 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹّو کے قتل کی وجہ سے ان کو 14 فروری 2008 تک ملتوی کرنا پڑا، اِس وقت مشرف کے خلاف جو بینڈ بج رہا ہے وہ صرف تین مہینے کی ہنگامی حالت لاگو ہونے پر مبنی ہے جب کہ اس سے پہلے آٹھ برسوں کو یعنی 1999سے 2007 کی شان دار کاوشو ں کو فراموش کیاجا رہا ہے۔ پرویز مشرّف کے خلاف لوٹ مار کا کوئی الزام نہیں جب کہ ان سے پہلی حکومت نے جس انداز سے اس ملک کو لوٹا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ہمیں پرویز مشرف کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ڈوبتے ہوئے پاکستا ن کو 1999میں اندھیروں سے نکال کر ’’Next 11‘‘ ممالک میں لاکھڑا کیا تھا، جو حقائق میں نے یہاں پیش کیے، ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر یہاں انصاف کہاں؟ پچھلی حکومت کے حکم راں ہزاروں ارب روپے لے کر باہر چلے گئے، انہیں کوئی نہیں پوچھتا، جس کے نتیجے میں آج پورا ملک غربت کے اندھیرے میں ڈوب رہاہے۔ مشرف کے دونوں اقدام صحیح تھے یا دونوں غلط ؟ اگر صحیح ہیں تو پرویز مشرّف کوآزاد کر دینا چاہیے اور اگر غلط ہیں تو پھر 1999کا سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط تھا اور اس کے لیے ججوں کو بھی دوسروں کے ساتھ سزاوار ہونا چاہیے۔

ایکسپریس: مشرف کے وکیل اِس نکتے کو سپریم کورٹ میں کیوں نہیں لے جاتے؟
عطا الرحمن: ہو سکتا ہے لے گئے ہوں، مجھے اس کا علم نہیں مگر حکومت کو چاہیے کہ سب کے خلاف چارج لگائے۔

ایکسپریس: جو بات چوہدری شجاعت نے خود کواور پرویز الٰہی کو پکڑنے کی کہی تھی، کیا وہ درست تھی؟
عطا الرحمن: بالکل۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے درست کہا تھا، اب سب ڈھکوسلے بازی ہو رہی ہے، ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ علامہ طاہر القادری صاحب نے اس الیکشن سے پہلے جو کچھ کہا تھا، وہ آج وقت نے درست ثابت کر دیا ہے کہ جب تک الیکٹیورل ریفارمز نہیں ہوں گی، ملک کے حالات درست نہیں ہوں گے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ ہم نے برطانیہ سے جو جمہوری نظام مستعار لیا ہے، وہ پاکستان کے لیے سود مند نہیں ہے۔ ہماری ساٹھ سالہ تاریخ اِس بات کی گواہ ہے، ہمارے آدھے سے زیادہ لوگ پڑھنا لکھنا جانتے ہی نہیں، باقی آدھے لوگوں کا نصف صرف دست خط کرنا جانتے ہیں، جمہوری نظام وہاں چلتا ہے جہاں کے لوگ سیاسی جماعتوں کے منشور کو ان کی ساکھ کو پرکھ سکیں اور مقابلہ کر سکیں۔ میں نے ایک اپنی اصطلاح وضع کی ہے کہ پاکستان میں’’فیوڈوکریسی‘‘ ہے، جو جاگیرداروں، وڈیروں اور ان جیسے لوگوں پر مشتمل ہے جو اِس نظام کو ڈیموکریسی کہتے ہیں، جب تک فیوڈوکریسی رہے گی ملک میں کبھی سول اور کبھی ملٹری حکومت کی باریاں لگتی رہیں گی، غریب مزید غریب ہوتا رہے گا اور لوٹ کا بازار گرم رہے گا، میں تو یہ کہتا ہوں کہ ان پڑھ لوگ پارلیمنٹ میں آئیں تو ان کو کیبنٹ میں نہیں آنا چاہیے۔

ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے ان کی کابینہ میں کم از کم ماسٹر اور پی ایچ ڈی لوگ شامل ہیں، کابینہ میں میرٹ کی بنیاد پر لوگ آنے چاہئیں۔ علامہ طاہرالقادری نے جب الیکشن کمیشن کے ممبران پر اعتراض کیا تو اُس وقت کی حکومت نے ان کے ساتھ ڈراما رچایا، اُس کے بعد علامہ طاہر القادری کے خدشات کے عین مطابق الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی، ہزاروں غلط انگوٹھوں کا اسکینڈل سامنے آچکا ہے، نیب کو کنٹرول کیا جارہا ہے۔ میں پھر کہوں گا کہ اِس ملک میں شفاف الیکشن کے لیے آپ کو یہاں جمہوری صدارتی نظام لانا پڑے گا، یہاں برطانوی جمہوریت کی گنجائش ہے ہی نہیں۔ صدارتی جمہوریت کے تحت آپ ایک آدمی کو منتخب کریں جو اپنی ٹیم بنائے، وہ ٹیم ماہرین پر مشتمل ہو، ٹیم کے رکن اپنے شعبے میں قابلیت اور اہلیت رکھتے ہوں، ہر وزارت کا سیکریٹری اُس وزارت کے اصل کام اور اس کی روح کو سمجھنے کا ماہر ہونا چاہیے۔ جاہل اور ان پڑھ افراد قانون سازی نہیں کر سکتے، عوامی نمائندوں کے انتخاب کے لیے بی اے نہیں، ایم اے کی شرط ہونا چاہیے۔ تعلیم کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے ملک اس حال کو پہنچا۔ تعلیمی شعبے پر مجموعی قومی پیداوار کا صرف ایک اعشاریہ تین فی صد خرچ کیا جارہا ہے، جو خطے میں سب سے کم ہے۔ ملکی ترقی کے لیے حکومت تعلیمی شعبے کے اخراجات میں اضافہ کرے اور تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کا دس فی صد تک بڑھائے۔ سابق دور حکومت میں پانچ غیرملکی جامعات کو پاکستان میں کام کی اجازت دی گئی تھی، جو اب تک ممکن نہیں ہوسکا، حکومت غیرملکی یونی ورسٹیاں پاکستان میں کھولنے کے لیے سنجیدگی سے کام کرے۔

ایکسپریس: صدارتی جمہوری نظام کی مدت کیا ہونی چاہیے؟
عطا الرحمن:کم از کم 10 سے 15 سال تک یہ نظام رہے گا تو ملک کی ساکھ بحال ہو سکے گی یا پھر یہ نظام اتنا عرصہ رہے کہ آپ کا تعلیمی لیول تبدیل ہو جائے، ملک میں شرح خواندگی 80 سے 90 فی صد ہوجائے، اُس کے بعد بے شک کوئی بھی جمہوریت کو لے آئیں۔ اب دوسری جانب آ جائیں اسلام کے اندر جمہوریت نام کی کوئی بیماری ہے ہی نہیں، اسلام میں تو شوریٰ کا نظام ہے اور یہ شوریٰ بھی فہم والوں سے حاصل کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ سورۂ انعام کی 115 سے 116 ویں آیات میں واضح حکم ہے کہ ’’ اور پوری ہے تیرے رب کی بات سچ اور انصاف میں، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور وہی سنتا اور جانتا ہے۔۔۔۔۔اور اے سننے والے زمین میں اکثریت میں وہ ہیں کہ تو ان کے کہے پر چلے تو تجھے اللہ کی راہ سے بہکا دیں، وہ صرف گمان کے پیچھے ہیں اور نری اٹکلیں دوڑاتے ہیں {‘‘، واضح ہوا کہ اللہ نے فہم والوں سے مشورے کا حکم دے رکھا ہے۔

جمہوریت کے نظام میں ہم اُس وقت تک غوطے کھاتے رہیں گے جب تک اِس نظام میں بنیادی تبدیلیاں نہیں لائیں گے، اس کے لیے کوئی بھی تیار نہیں لیکن یہ بھی یاد رکھا جائے کہ اب بھی ہم نے عقل کے ناخن نہ لیے تو پھر خونی انقلاب آئے گا، جو بہت سے لوگوں کو بہا لے جائے گا۔ عاصمہ جہانگیر جیسے لوگ بھی یہ ہی کہ رہے ہیں، حکومت سمجھ رہی ہے کہ ایک جنرل کو سزا دے کر دوسرے جنرل کو سبق سکھانے کی کوشش خام خیالی ہے، اب جو بھی آئے گا، ہو سکتا ہے وہ پکڑنے والوں کو پہلے ختم کرے، چھوڑے گا نہیں، اِس لیے بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے اور غالباً یہ بات حکومت کی سمجھ میں آ چکی ہے اور وہ جنرل مشرف کو یہاں سے جانے دے گی۔ یہ ہمت کرنے والے نہیں کیوںکہ فوج واقعی اندر سے بہت ناراض ہے، ابھی وہ خاموش ہے، اس لیے دانش مندی یہ ہی ہے کہ فوج کو خاموش ہی رہنے دیا جائے، آپ کے پاس ایک ہی تو ادارہ محفوظ ہے آپ اُس کو بھی تباہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ آپ ایک طرف دہشت گردی کی جنگ اِسی فوج کے ساتھ لڑنا چاہتے ہیں تو دوسری جانب اسی فوج کی چولیں بھی ہلا رہے ہیں میں اِس کو دانش مندی قرار نہیں دے سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔