میرا حال مت پوچھو

اطہر قادر حسن  بدھ 1 دسمبر 2021
atharqhasan@gmail.com

[email protected]

فی الحال ملک کی بات کریں تو اس حکومت کے ساتھ اتنا کچھ ہو رہا ہے کہ اس کے ردعمل میں یہ توقع کی جارہی تھی کہ ہمارے حکمران اپنی پالیسیوں کا جائزہ لے کر اصلاح کرنے کی کوشش کریں گے لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں پر پشیمان نہیں ہیں اور اپنی ان پالیسیوں کو جاری رکھنا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے اس ملک کے عوام پر زندگی عذاب بنا دی گئی ہے اور میرا حال مت پوچھو، میری صورت دیکھو والا محاورا زندہ صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

سب کچھ اتنا واضح اوراتنا خطرناک ہے کہ ملک کے وہ طبقے جو آسودہ زندگی بسر کر رہے تھے، وہ بھی ملک سے نکلنے کے چکر میں ہیں کہ فقر و غربت کا یہ سیلاب کہیں ان کے محفوظ گھروں کا رخ نہ کر لے کیونکہ جب سیلاب آتا ہے تو وہ جھونپڑیوں اور پختہ گھروں میں تمیز نہیں کرتا ہے۔ کہنے کو بس اب یہی کچھ رہ گیا ہے کہ ہر پاکستانی کو اس کا حال معلوم ہے۔ مہنگا آٹا ہے اور روٹی پکانے کے لیے گیس کی راشن بندی ہے۔ ملک میں کاروبار کی کوئی واضح شکل و صورت نظر نہیں آرہی ،آئے روز کی گرانی نے کاروباری دنیا کو پریشان کر رکھا ہے۔

کارخانے چلانے کے دعوے تھے مگر وہ ابھی تک بند پڑے ہیں، غریب اور درمیانے طبقے کا اﷲ ہی وارث ہے۔ ان حالات میں اگر آج تعجب ہے تو کل حیرت ہو گی کہ ہم زندہ کیسے ہیں اور یہ سب کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے جس کو خدا نے اپنی نعمتوں سے بھر دیا تھا مگر جس کو اس کے بندوں نے ان نعمتوں سے محروم کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کچھ عرصے سے کسی خاص منصوبہ بندی کے تحت اس ملک کو کنگال کر دیا گیا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے قرضوں میں ان کی شرائط پر اضافے پہ اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں اور ان شرائط کے جھٹکے عوام کو لگ رہے ہیں۔

ان دگر گوں حالات کا ذمے دار جو کوئی بھی ہے، عوام وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار پر دیکھ رہے ہیں۔ وزراء اور مشیران عوام کے زخموں پر جو نمک چھڑک رہے ہیں،خلق خدا کو زچ کر دیا گیا ہے ،مزید مہنگائی کا اعلان مشیر خزانہ کر رہے ہیں، کیا دنیا میں ایسا ہوتا ہے ۔

عمران خان نے کئی بار وزیر اور مشیر بدلے ہیں ، انھیں اختیار ہے کہ وہ جسے چاہئیں اپنا وزیر بنادیں اور جسے چاہئیں اپنا مشیر مقرر کر لیں لیکن یہ خود ان کے مفاد میں ہے کہ وہ کوئی ذمے داری ان لوگوں کے بھی سپرد کریں جو اس کو پورا کرنے کے اہل ہوں ان کی ٹیم میں زیادہ تر لوگ ایسے شامل ہیں جن کا سیاست اور حکومتی معاملات کو چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور نہ ہی ان ناتجربہ کار لوگوں نے گزشتہ تین برس میں تجربہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ وہ وزیر اعظم سے مخلص ضرور ہوں گے لیکن ان کی یہ قابلیت اور اہلیت نہیں ہے کہ وہ عوام کے مفاد کی خاطر اپنی پالیسیوں میں سب سے پہلے عوام کی سہولت اور قوت برداشت کو ذہن میں رکھیں ۔

اب تو یہ واضح ہو چکا ہے کہ ہماری حکومت کے حساب کتاب کرنے والے وہ لوگ ہیں جو وزراء ٹیکس وصولی کہلانے چاہئیں جن کا فرض اور ڈیوٹی صرف یہ ہے کہ وہ قرض فراہم کرنے والوں کے قرضوںکی ادائیگی کا بندو بست بھی ساتھ ہی کرتے جائیں، خواہ اس میں عوام کی انتڑیاں بھی باہر کیوں نہ نکل آئیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ جو قرض لینے کو لعنت قرار دیتے تھے آج وہی قرض ملنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور اسے زرمبادلہ میں اضافے کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

یہ وہی قرضے ہیں اور وہی لوگ اس کے مدارالمہام ہیں جو گزشتہ حکومتوںکے وزیر اور مشیر بھی رہے ہیں۔

ان قرضوں کی خبریں عوام تک پہنچتی ہیں لیکن قوم کویہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ غیر ملکی قرضے کہاں چلے جاتے ہیں؟ عوام تک تو ان کی ایک پائی بھی نہیں پہنچتی لیکن ان کی وصولی عوام سے ضرور کی جاتی ہے۔ جو ایک ریاستی جبر اور دھاندلی ہے۔ حکومت روز مرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں بڑھا نے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکی ہے جس کی وجہ سے وہ عوام کی حمایت کھو رہی ہے۔

وزیر اعظم قوم سے براہ راست مخاطب ہوتے ہیں لیکن ان کی ٹیم ان کا ساتھ نہیں دے رہی اور شایداب ساتھ دینے کا وقت بھی گزر چکا ہے جس طرح کی حکومت وہ چلانا چاہتے تھے اس کے لیے وہ قابل ٹیم فراہم نہیں کر سکے جس کی وجہ سے معاملات بگاڑ کی جانب چلے گئے اور نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔

بے مثل دانشور ابن خلدون نے کہا تھا کہ کسی کاروباری شخص اور تاجر کو اقتدار مت دو۔ ہم نے اور دنیا نے جب بھی ایسی حرکت کی اس نے خطا کھائی ۔ امریکا جیسے سرمایہ ادارانہ نظام کے مرکز میں بھی جب کاروباری لوگ حکومت میں آئے تو ایسے گھپلے کر گئے کہ قوم روتی رہ گئی، ہم اپنا حال دیکھ لیںاگر کسی کو یاد ہو تو ہمارے گزشتہ حکمران یہ کہہ گئے تھے کہ آیندہ جو بھی حکومت بنائے گا وہ انتہائی مشکل میں ہو گا اور یہ مشکل وقت وہ باہر بیٹھ کراورہم پاکستان میں موجود رہ کر دیکھ رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔