ٹیم اونرز کو کرائے دار نہیں پارٹنر سمجھیں

سلیم خالق  بدھ 1 دسمبر 2021
یہ ٹیم مالکان جب کرائے داربنے تو بس ایک اجاڑزمین موجود تھی، انھوں نے اپنا وقت اور پیسہ لگاکر وہاں شاندارعمارت کھڑی کی۔ فوٹو : فائل

یہ ٹیم مالکان جب کرائے داربنے تو بس ایک اجاڑزمین موجود تھی، انھوں نے اپنا وقت اور پیسہ لگاکر وہاں شاندارعمارت کھڑی کی۔ فوٹو : فائل

’’میٹنگ شروع کرنے سے قبل مجھے ذرا یہ تو بتائیں کہ فرنچائزز کے خطوط میں قلم کس کا استعمال ہوتا ہے‘‘

رمیز راجہ نے جب یہ جملہ کہا تو خاموشی چھا گئی،جو صاحب تمام مالکان سے مشاورت کے بعد ای میلز کا ڈرافٹ تیار کرتے ہیں وہ پی سی بی کے سی ای او کی پوسٹ کیلیے بھی درخواست جمع کرا چکے تھے،لہذا یقیناً نہیں چاہتے ہوں گے کہ نام سامنے آئے، ایسے میں ایک فرنچائر کے منیجر سامنے آئے اور کہا کہ’’ہم سب ہی مل جل کر ایسا کرتے ہیں‘‘ یوں یہ معاملہ ختم ہوا، پی ایس ایل کی اس میٹنگ کا آغاز بھی اتنا اچھا نہیں تھا، رمیز راجہ کرکٹ بورڈ کے ابتر حالات دیکھ کر پریشان ہیں اور بہتری کیلیے دن رات ایک کر چکے، اسی طرح لیگ کے معاملات بھی وہ ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔

ان کی کوشش ہے کہ فرنچائزز اپنا پلیئرز بجٹ بڑھائیں تاکہ بڑے ناموں کو پاکستان لایا جا سکے،اس دن بھی ٹیم مالکان سے ان کی بحث ہو گئی،کراچی کنگز کے نمائندے سے انھوں نے کہہ دیا کہ وہ بابر اعظم کی موجودگی میں عماد وسیم کو قیادت سونپنے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں، ساتھ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو بھی طعنہ دے دیا کہ ’’آپ لوگ اپنی ہی ٹیم کھلاتے ہیں‘‘اس پر انھیں بتایا گیا کہ مذکورہ کلب کے کتنے کرکٹرز پاکستان کی نمائندگی کر چکے یا فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کا اعزاز پایا ہے، جب سرفراز احمد کی بات ہوئی تو چیئرمین کو ان کے یوٹیوب چینل کی ایک ویڈیو یاد دلائی گئی جس میں وہ کوئٹہ کی تعریف کرتے ہوئے اچھے کھیل کی وجہ سلیکشن میں تسلسل کو قرار دے رہے تھے،چیئرمین فرنچائزز سے دوٹوک انداز میں بات کر رہے ہیں۔

انھوں نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ ’’آپ لوگوں کی حیثیت کرائے داروں جیسی ہے‘‘اس پر ایک اونر سے ان کی خاصی بحث بھی ہوئی تھی، پہلی میٹنگ میں ایک اور ٹیم مالک سے بھی بات چیت زیادہ خوشگوار نہیں رہی تھی، دلچسپ بات یہ ہے کہ پی سی بی کے اپنے ہی لوگ میٹنگ کی تمام تر تفصیلات میڈیا کو بتاتے ہیں جس پر ایک ٹیم اونر نے رمیز راجہ سے شکایت بھی کی تھی، معاملہ وقتی طور پر حل ہو چکا اور فرنچائزز اس بات پر آمادہ ہیں کہ اگر بڑے کھلاڑی آئے تو ان کو زیادہ معاوضہ دینے میں کوئی قباحت نہیں ہو گی،البتہ کیا پی سی بی ایسا کر پائے گا یہ ایک اہم سوال ہے۔

امارات کرکٹ بورڈ کی لیگ کے حوالے سے میں کافی عرصے سے بتا رہا ہوں، اس کا شیڈول پی ایس ایل سے براہ راست متصادم ہے، شاید رمیز راجہ کا معاوضے بڑھانے پر اصرار اسی وجہ سے ہے کیونکہ یو اے ای کھلاڑیوں کو بڑی رقوم کی پیشکش کر رہا ہے، ساتھ دبئی میں کھیلنے کو وہ زیادہ ترجیح دیتے ہیں،فرنچائزز کی یہ دلیل بالکل ٹھیک ہے کہ جب پاکستانی کھلاڑی باہر کی لیگز میں کم معاوضے پر کھیلتے ہیں تو پی ایس ایل میں انھیں دگنی رقوم کیوں دی جائیں؟ البتہ بورڈ کااستدال ہے کہ ہمیں اپنے اسٹارز کا خیال رکھنا چاہیے،اس سے پہلے نجم سیٹھی، شہریار خان اور احسان مانی سے ڈیل کرنے والے فرنچائز مالکان کیلیے رمیز راجہ مختلف چیئرمین ثابت ہوئے ہیں، سابقہ سربراہان کرکٹرز نہیں تھے۔

رمیز سابق کپتان رہ چکے، انھیں کھیل کی باریکیوں کا مکمل علم ہے لہذا وہ اسی اندازسے بات کرتے ہیں، بابر اعظم کی قیادت والا نکتہ بالکل ٹھیک تھا، کراچی کنگز نے اگلے ایڈیشن کیلیے انھیں ذمہ داری سونپ بھی دی ہے، البتہ اس میں چیئرمین کی ہدایت کا زیادہ عمل و دخل نہیں لگتا، بابر کے کراچی کنگز سے گذشتہ سیزن میں تعلقات خراب ہو گئے تھے، ان کی نجی زندگی کے حوالے سے جب ایک اسکینڈل سامنے آیا تو فرنچائز کے ہی ٹی وی چینل نے اس پر کئی رپورٹس نشر کیں، بابر کو اس کا رنج تھا، وہ بعض تشہیری سرگرمیوں میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے لیکن اب معاملات طے پا گئے ہیں۔

پاکستان کا کپتان اگرکسی پی ایس ایل فرنچائز کی قیادت نہ کرے تو یہ واقعی عجیب سی بات تھی، اچھا ہوا کہ اب یہ معاملہ حل ہو چکا، بورڈ اور فرنچائزز کے درمیان فنانشل ماڈل پر بھی اتفاق ہو گیا ہے اور جلد ہی معاہدے پر دستخط بھی ہو جائیں گے، ٹائٹل اسپانسر شپ کا کنٹریکٹ ہو چکا البتہ تھوڑی عجیب سی بات یہ ہوئی کہ صرف ایک ہی ادارے کی پیشکش سامنے آئی، مگر ٹی وی رائٹس کے معاملے میں ایسا نہیں ہو گا، کئی کمپنیز دوڑ میں موجود ہیں، ٹینڈر آنے پراس کا علم بھی ہو جائے گا، رمیز بہتری کیلیے اپنی کوشش تو کر رہے ہیں لیکن انھیں ٹیم مالکان کو پارٹنر سمجھ کر بات کرنا ہوگی، وہ بورڈ کی تنخواہوں سے گھر چلانے والے ملازمین نہیں بلکہ ہر سال کروڑوں روپے دینے والی اپنے اپنے شعبے کی ماہر شخصیات ہیں، اگر ان کے تحفظات ہیں تو انھیں سن کر دور کرنے کی کوشش کریں۔

تلخیاں بڑھیں تو دوریاں ہوتی جائیں گی جو لیگ کیلیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں، کون کپتانی کرے گا، کسے ٹیم میں رکھنا ہے، یہ فرنچائزز کے ہی فیصلے ہیں ان میں بورڈ کو دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے، چیئرمین ری بڈنگ کی بات کر کے پہلے ہی اونرز کو ناراض کر چکے، اب کوشش کرنی چاہیے کہ تیسری میٹنگ بہت خوشگوار ماحول میں ہو، ہم یہ نہیں بھول سکتے کہ جس وقت لیگ شروع ہوئی بہت کم لوگ ٹیمیں خریدنے کو تیارتھے، ہو سکتا ہے اب زیادہ مالکان مل جائیں مگر پی سی بی کو احسان فراموشی نہیں کرنی چاہیے۔

یہ ٹیم مالکان جب کرائے دار بنے تو بس ایک اجاڑ زمین موجود تھی، انھوں نے اپنا وقت اور پیسہ لگا کر وہاں شاندار عمارت کھڑی کی جس کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر دیگر لوگ بھی آنا چاہتے ہیں مگر جنھوں نے اسے بنایا آپ انھیں کیسے بھول سکتے ہیں، اب لیگ میں دو، ڈھائی ماہ ہی باقی ہیں بورڈ کو ڈرافٹ کی تاریخ بھی فائنل کرنی چاہیے، بڑے کھلاڑیوں کو پاکستان لائے تو پی ایس ایل کامیابی سے ہمکنار ہو گی، اس کیلیے ٹیم اونرز کو کرائے دار نہیں بلکہ پارٹنرز سمجھیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔