ڈائٹنگ کےلیے ہفتے میں ’دو دن فاقہ‘ کرنا زیادہ بہتر ہے، تحقیق

ویب ڈیسک  جمعرات 2 دسمبر 2021
ہفتے میں پانچ دن معمول کے مطابق اور دو دن بہت کم کھانے کو میڈیکل سائنس میں ’فائیو ٹو ڈائٹنگ‘ کہا جاتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہفتے میں پانچ دن معمول کے مطابق اور دو دن بہت کم کھانے کو میڈیکل سائنس میں ’فائیو ٹو ڈائٹنگ‘ کہا جاتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لندن: کوین میری یونیورسٹی، برطانیہ کے سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ کامیاب ڈائٹنگ کےلیے روزانہ کم کھانے سے بہتر ہے کہ ہفتے میں صرف دو دن فاقہ کیا جائے جبکہ باقی پانچ دن معمول کے مطابق، صحت بخش غذائیں استعمال کی جائیں۔

ڈائٹنگ کے اس طریقے کو ’’5:2 ڈائٹ‘‘ (فائیو ٹو ڈائٹ) بھی کہا جاتا ہے جو کچھ سال پہلے ہی سامنے آیا ہے اور بہت مقبول ہورہا ہے۔

اس طریقے کے تحت ہفتے کے پانچ دنوں میں معمول کی غذاؤں سے مطلوبہ کیلوریز لی جاتی ہیں (مردوں کےلیے 2000 سے 3000 کیلوریز روزانہ جبکہ خواتین کےلیے 1600 سے 2400 کیلوریز روزانہ کو مناسب سمجھا جاتا ہے)۔

باقی کے دو دنوں میں غذا بہت کم کرتے ہوئے صرف 500 کیلوریز روزانہ تک محدود کردی جاتی ہے۔ اسے میڈیکل سائنس کی زبان میں ’’فاقہ‘‘ (فاسٹنگ) کہا جاتا ہے۔

کیا فائیو ٹو ڈائٹ واقعی میں اتنی بہتر ہے کہ جتنے اس کے بارے میں دعوے کیے جاتے ہیں؟

اس سوال کا جواب جاننے کےلیے کوین میری یونیورسٹی کی ڈاکٹر کیٹی میئرز اسمتھ اور ان کے ساتھیوں نے 300 ایسے رضاکار بھرتی کیے جو موٹاپے میں مبتلا تھے۔ انہیں تین گروپس میں تقسیم کیا گیا جبکہ ہر گروپ میں 100 رضاکار شامل تھے۔

تینوں گروپس میں شامل افراد سے چھ ہفتوں تک تین الگ الگ ڈائٹنگ پلانز پر عمل کروایا گیا۔

اختتام پر معلوم ہوا کہ اگرچہ ’’فائیو ٹو ڈائٹنگ‘‘ اور ’’روزانہ کم کھانے والی ڈائٹنگ‘‘ کے نتائج میں کوئی خاص فرق نہیں تھا لیکن رضاکاروں کی بڑی تعداد نے ’’فائیو ٹو ڈائٹنگ‘‘ پلان کو زیادہ آسان محسوس کیا اور مطالعے کے اختتام تک اس معمول کو جاری رکھا۔

یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے ملنے جلنے والوں کو بھی موٹاپے کے علاج میں ’’فائیو ٹو ڈائٹنگ‘‘ تجویز کرنا شروع کردی۔

آن لائن ریسرچ جرنل ’’پی ایل او ایس ون‘‘ کے تازہ شمارے میں اس تحقیق کی مکمل تفصیلات شائع ہوئی ہیں جن میں ماہرین نے واضح کیا ہے کہ ’’فائیو ٹو ڈائٹنگ‘‘ اگرچہ زیادہ تر لوگوں کےلیے مفید ہے لیکن 18 سال سے کم عمر افراد اور حاملہ خواتین کو فائدے کے بجائے نقصان پہنچا سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔