ہڑتال کا کلچر

مزمل سہروردی  جمعرات 2 دسمبر 2021
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

لاہور ہائی کورٹ نے منڈی بہاؤ الدین کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی جانب سے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو توہین عدالت میں تین ماہ قید کی سنائی جانی والی سزا کو معطل کر کے ضمانت لے لی ہے۔ تاہم حکومت پنجاب نے مذکورہ افسران کو دیگر افسران کے ساتھ منڈی بہاؤالدین سے ٹرانسفر کر دیا ہے۔

ٹرانسفر ہونے والے افسران میں ڈی پی او بھی شامل ہیں۔ میں ذاتی طور پر سزا کی معطلی اور ضمانت کو درست نہیں سمجھتا۔ کیونکہ قانونی رواج یہی ہے کہ پہلے ملزمان قانون کے سامنے سرنڈر کرتے ہیں‘ پھر اپیل میں سزا کی معطلی یا بحالی کا فیصلہ ہوتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار کے عہدیداران نے بھی اس قسم کے موقف کا اظہار کیا ہے۔ لیکن آپ فیصلہ سے متفق ہوں یا نہ ہوں لیکن فیصلہ پر عملدرآمد ضروری ہوتا ہے۔ یہی قانون پسند شہری کرتے ہیں۔

افسر شاہی کے کل پرزوں کو جیل جائے بغیر ضمانت مل گئی اور دوسری طرف منڈی بہاؤ الدین میں جج صاحب کو عدالت میں تشدد کا شکار بنانے کی وڈیوز بھی وائرل ہو گئی۔ افسوس اس بات پر ہے کہ بار عہدیداران نے منڈی بہاؤالدین میں ہڑتال کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ اب ماحول بن رہا ہے کہ جب تک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راؤ عبدالجبار کو ٹرانسفر نہیں کیا جائے گا منڈی بہاؤالدین کی عدالتوں میں ہڑتال رہے گی۔

ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا‘ پہلے بھی بار کے عہدیداران نے جب بھی ہڑتال کی ہے تو ہم نے دیکھا ہے کہ ماتحت عدلیہ نے ہی سرنڈر کیا ہے۔ اب تو چھوٹے اضلاع میں بار کے صدر اور عہدیداران کی حیثیت ماتحت عدلیہ سے اوپر ہوگئی ہوئی ہے۔ ان کی بات کوماتحت عدلیہ کے جج صاحبان ٹالنے یا نہ مانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ وکلا نے عدالتوں کی تالہ بندی بھی کی ہے‘ہم نے تو ماضی میں وکلا کی جانب سے چیف جسٹس کے چیمبر پر بھی حملہ دیکھا ہے۔ ایسا ماضی میں لاہور اور اسلام آباد میں بھی ہوا ہے۔ لیکن ہم نے وکلا کی ہی جیت دیکھی ہے۔

بار کے صدر ڈپٹی کمشنر کے وکیل تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا بطور وکیل حق ہے کہ وہ جس کا چاہیں کیس لیں۔ بار کی صدارت اس میں رکاوٹ نہیں ہو سکتی۔ لیکن کسی بھی وکیل کو اپنے موکل کے لیے جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔ مجھے نعیم بخاری کا ایک فقرہ یاد آرہا ہے کہ کیس وکیل نہیں موکل ہارتا ہے۔ اس لیے وکیل کو کیس میں اپنی بہترین پیشہ ورانہ خدمات تو دینی چاہیے لیکن کیس میں جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔

جیسے ڈاکٹر کو مریض کے ساتھ جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔ صرف علاج کرنا چاہیے۔ منڈی بہاؤالدین میں بار کے صدر کو بھی جج صاحب نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیاتھا۔جج صاحب کا یہ نوٹس جاری کرنا درست تھا یا غلط‘ اس کا فیصلہ خالصتاً قانونی طریقے سے ہونا چاہیے تھا۔ ماضی کی روایات کے تناظر میں تو یہی لگتا ہے کہ اب سیشن جج صاحب کا تبادلہ کر دیا جائے گا۔ اور پھر ہی ہڑتال ختم ہوگی۔

پاکستان میں نظام عدل کی ساکھ اس وقت تک ٹھیک نہیں ہو سکتی جب تک ماتحت عدلیہ کا وقار بلند نہیں ہوتا۔جتنا ہم ماتحت عدلیہ کو کمزور کریں گے نظام عدل اتنا ہی کمزور ہو گا۔ صرف اعلیٰ عدلیہ کو مضبوط کرنے سے عدلیہ مضبوط نہیں ہو سکتی۔ ماتحت عدلیہ بنیاد ہے اور اگر ہم دن بدن بنیاد کمزور کرتے جائیں تو عمارت مضبوط کیسے ہوگی۔ جب ماتحت عدلیہ خود کو غیر محفوظ سمجھے گی تو پوری عدلیہ ہی غیر محفوظ ہو گی۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج خود کو محفوظ قلعہ میں بند بھی کر لیں تب بھی وہ عدلیہ کی ساکھ بہتر نہیں کر سکتے۔

میں مانتا ہوں کہ بار اور بنچ عدلیہ کے دو ستون ہیں۔ دونوں ملکر ہی انصاف دے سکتے ہیں۔ دونوں کا کردار اپنی اپنی جگہ اہم ہے۔ لیکن بار اور بنچ میں بالادستی کی جنگ نے نظام انصاف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ بار مسلسل بنچ کو اپنے ماتحت کرنے کی کوشش میں نظر آتی ہے۔بار کے عہدیداران خود کو بنچ سے بالادست سمجھتے ہیں۔ بار کی صدارت کو بنچ سے اعلیٰ منصب بنایا جا رہاہے۔ جس کی وجہ سے ہمیں بنچ کمزور سے کمزور پوزیشن میں نظر آرہا ہے۔

جیسے ینگ ڈاکٹرز نے صحت کے نظام کو آلودہ کر دیا ہے۔ اسپتالوں میں ہڑتال کا کلچر پروان چڑھایا گیا ہے۔ کبھی کوئی اسپتالوں میں ہڑتال کے بارے میں سوچ بھی سکتا ہے۔ اسی طرح وکلا نے عدالتوں میں ہڑتال کا کلچر دے دیا ہے۔ عدالتوںمیں ہڑتال کا مطلب ہے انصاف چھٹی پر چلا گیا۔ اور بے انصافی کا راج شروع ہو گیا۔

اب منڈی بہاؤالدین  میں بھی ہڑتال سے نقصان تو سائلین کا ہوگا۔ بے گناہ جیلوں میں پھنس جائیں گے کیونکہ ضمانت کے مقدمات نہیں سنے جائیں گے۔ اب ہر کوئی ڈپٹی کمشنر تو نہیں ہوتا کہ سرنڈر کیے بغیر ضمانت مل جائے۔ لوگ بے گناہ پکڑے جاتے ہیں اور ضمانت ہی ان کے لیے انصاف ہوتا ہے۔ جب ماتحت عدلیہ میں ہڑتال ہوتی ہے تو لوگوں کی ضمانتیں رک جاتی ہیں۔ مقدمات کی سماعت رک جاتی ہے۔ انصاف رک جاتا ہے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ وکلا گردی کے خلاف ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان نے بھی ہڑتال کی ہے۔ لیکن یہ بھی کوئی اچھی روایت نہیں ہے۔ جج صاحبان کی ہڑتال تو بار کی ہڑتال سے بھی بری روایت ہے۔ کسی مہذب ملک اور معاشرہ میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی۔ لیکن مہذب معاشرہ میں ججوں کو تشدد کا نشانہ بھی نہیں بنایا جاتا۔ ججوں کی سر عام تذلیل بھی نہیں کی جاتی۔ عدالتوں کی تالہ بندی بھی نہیں کی جاتی۔ کیا ہم منڈی بہاؤ الدین کو ٹیسٹ کیس بنا سکتے ہیں۔

کیا پاکستان بار کونسل آگے بڑھ کر کوئی کردار ادا کرے گی؟ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے جج بار کے ساتھ بیٹھ کر اس مسئلہ کا کوئی مستقل حل نکال سکتے ہیں۔ ورنہ کب تک ماتحت عدلیہ ڈر ڈر کر صرف نوکری کرتی رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔