- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
- ایرانی صدر کا دورہ کراچی، کل صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری
- مثبت معاشی اشاریوں کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان
کورونا ویکسین کی دوسری ڈوز میں تاخیر بہتر ہے، نئی تحقیق
ٹورانٹو: کینیڈا میں کی گئی ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کووِڈ 19 سے بچاؤ کےلیے ایم آر این اے ویکسین کی دوسری ڈوز، مجوزہ مدت کے تین سے چار ہفتوں بعد لگانا زیادہ بہتر رہتا ہے۔
یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ اس اضافی مدت کے دوران جسم میں (پہلی ڈوز لگنے کے بعد) کورونا وائرس کے خلاف پیدا ہونے والی مدافعت (اِمیونیٹی) بتدریج بڑھتی چلی جاتی؛ جس کے بعد دوسری ڈوز لگانے سے یہ مدافعت اور بھی مضبوط ہوجاتی ہے۔
یہ تحقیق کینیڈین حکومت کی ’’کووِڈ 19 اِمیونیٹی ٹاسک فورس‘‘ (سی آئی ٹی ایف) کی فنڈنگ سے، یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر برائن گروناؤ کی سربراہی میں کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت کووِڈ 19 کی دو ایم آر این اے ویکسینز دستیاب ہیں جن میں سے ایک فائزر/ بایو این ٹیک نے جبکہ دوسری موڈرنا نے تیار کی ہے۔
دونوں ویکسینز کا مکمل کورس دو خوراکوں (ڈوزز) پر مشتمل ہوتا ہے۔ امریکی ادارے ’’سی ڈی سی‘‘ کے مطابق، فائزر ویکسین کی پہلی خوراک کے 21 دن بعد، جبکہ موڈرنا ویکسین کی پہلی خوراک کے 28 دن بعد دوسری خوراک لگانی چاہیے۔
اس کے برعکس، آکسفورڈ اکیڈمک کے ریسرچ جرنل ’’کلینیکل انفیکشس ڈزیز‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع شدہ تحقیق میں کینیڈین ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ دونوں ویکسینز کی پہلی خوراک کے 42 سے 49 دن (6 سے 7 ہفتے) بعد دوسری خوراک (سیکنڈ ڈوز) لگائی جائے تو وہ زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
یہ تحقیق انہوں نے طبّی عملے کے 186 افراد پر کی ہے جن میں سے دو تہائی نے فائزر کی، جبکہ باقی ایک تہائی نے موڈرنا کی ایم آر این اے ویکسین لگوائی تھی۔
ان لوگوں نے تجویز کردہ وقفے (21 اور 28 دن) کے بجائے 42 سے 49 دن بعد ان ویکسینز کی دوسری خوراک لگوائی تھی۔
ویکسی نیشن مکمل ہونے کے چند روز بعد جب ان تمام افراد سے خون کے نمونے لے کر تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں کورونا وائرس کا خاتمہ کرنے والی اینٹی باڈیز کی مقدار، مجوزہ وقفے کے بعد ویکسین کی دوسری ڈوز لگوانے والوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ تھی۔
کورونا وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز کی زیادہ مقدار کا مطلب یہ تھا کہ تاخیر سے دوسری ڈوز لگوانے والوں میں کووِڈ 19 کے خلاف پیدا ہونے والی مزاحمت بھی دوسرے لوگوں سے زیادہ تھی۔
قبل ازیں اس نوعیت کی صرف ایک تحقیق برطانیہ میں ’’آکسفورڈ ایسٹرازنیکا‘‘ ویکسین پر ہوئی تھی۔ اس تحقیق میں بھی یہی معلوم ہوا تھا کہ تجویز کردہ وقفے کے بجائے مزید چند ہفتوں بعد دوسری ڈوز لگوانا زیادہ مفید رہتا ہے۔
متنازعہ وقفہ اور بوسٹر ڈوز
کینیڈین ماہرین نے اپنی تحقیق میں کووِڈ 19 ویکسین کی دو خوراکوں کے درمیان حالیہ تجویز کردہ وقفے کو ’’متنازعہ‘‘ قرار دیتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ یہ وقفہ 42 سے 49 دن رکھنا زیادہ مفید ہے کیونکہ اس مدت میں جسمانی مدافعتی نظام کو مناسب وقت مل جاتا ہے کہ وہ خود کو اس وائرس اور بیماری کے خلاف زیادہ مضبوط بنا سکے۔
’’سی ڈی سی‘‘ کے مطابق، کورونا وائرس کے خلاف مکمل ویکسی نیشن کروانے کے کم از کم چھ ماہ بعد بوسٹر ڈوز لگوانی چاہیے۔ لیکن اس تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر پہلی اور دوسری ڈوز کے درمیان وقفہ بڑھا دیا جائے تو ممکنہ طور پر بوسٹر ڈوز کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی۔
البتہ یہ معاملہ تحقیق طلب ہے جس کے بارے میں ماہرین ہی کچھ کہہ سکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔