جمہوریت اور صحت سسٹم دباؤ میں ہے

ایڈیٹوریل  جمعـء 3 دسمبر 2021
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ وائرس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ وائرس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ وائرس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، کورونا وائرس کی نئی قسم اومی کرون کی بنیاد پر مخصوص ملکوں اور خطوں کو ہدف بناکر سفری پابندیاں عائد کرنا غیر منصفانہ اور غیر موثر ہے۔

یہ انتباہی بیان وقت کی ضرورت ہے، اور اس کی بنیاد در حقیقت کورونا وائرس کی بنیاد بنا ہے، دیگر ترقی پسند ممالک کی طرح کورونا کی روک تھام کے لیے بھی پاکستان نے لاک ڈاؤن، اسمارٹ لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات کی طرح یکبارگی توجہ دی، معاشرتی سطح پر ایک ہیجان پیدا ہوا، عوام میں خوف وہراس کے باعث کاروبار اور معمولات زندگی متاثر ہوئے حکومت اس غیر متوقع صورتحال سے شدید دباؤ میں آئی۔

کیونکہ کورونا وائرس ایک نئی افتاد تھی اس لیے صحت سسٹم کو داخلی طور پر ماسک پہننے، فاصلہ رکھنے اور بھیڑ سے گریز کے تجربات سے عوام کو ضروری معلومات مہیا کرنے کے لیے جس بڑے پیمانے پر تشہیر اور اقدامات کی ضرورت تھی، ہمارا صحت سسٹم اس کا عادی نہ تھا اور سست روی، کرپشن اور طبی سہولتوں کے فقدان کے باعث بھی ابتدائی دنوں میں زبردست ہڑبونگ پیدا ہوئی۔

اسپتالوں میں رش بڑھ گیا، کورونا وائرس کی روک تھام کے اقدامات کے حوالے سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان تنازع نے سیاسی کشیدگی میں اضافہ کیااور باقاعدہ ایک تلخ حریفانہ چپقلش نے کورونا وار کی صورت اختیار کرلی، وائرس کی شدت کے باعث ٹیسٹنگ اور بعد میں ویکیسنیشن کے معاملات سنگین ہوگئے۔

تاہم حکومت نے دانشمندی سے کورونا سے نمٹنے کا موثر میکنزم متعارف کیا، ادارہ جاتی نظام کے قیام کے نتیجہ میں وائرس کے علاج کے لیے عوام کو ویکسینیشن کی اہمیت سے مکمل آگاہی ملی، سینٹر قائم ہوئے، یوں کروڑوں لوگوں نے ویکسینیشن کا ہدف پورا کرلیا، یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں تھی، خطے میں بھارت پر کورونا کی زد پڑی، دنیا میں اسپین، امریکا، برطانیہ، جرمنی، مشرق وسطیٰ وغیرہ شدید متاثر ہوئے، ہلاکتیں ناقابل بیان تھیں، کورونا نے عالمی معیشت کو شدید متاثر کیا۔

بیروزگاری بڑھی، روزگار ٹھپ ہوئے، دیہاڑی دار طبقہ زمیں بوس ہوگیا، ملکی سیاسی صورتحال سیاسی جماعتوں میں تضاد، اختلافات،محاذ آرائی اور بلیم گیم نے عوام کو کورونا پر متفق ہونے میں بڑی مشکلات پیدا کیں، حکومت ایک مکمل جمہوری نظام کو مرکزیت کی طرف لانے کے لیے مکالمہ اور اتفاق رائے کے لیے قائل نہ کرسکی، چنانچہ کورونا سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ عوام اور حکومت ملکی معاشی صورتحال سے کٹ گئی۔

مہنگائی نے عوام کو مشکل میں ڈال دیا، غریبوں کے لیے کورونا اور مہنگائی دو طرفہ تلوار بن گئیں، حکمرانوں نے سیاسی تنازعات کے خاتمہ میں مفاہمت اور سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ ملک کی سیاست ’’کلیش‘‘ کی طرف چلی گئی، سیاسی جماعتوں میں ملکی سلامتی سے متعلق معاملات بھی جلسے جلوسوں کی نذر ہوگئے۔

ملک کو ایک بحران نے یرغمال بنا لیا، یہ معاملات عالمی ادارہ صحت کے انتباہات سے پہلے کے ہیں لیکن اقوام متحدہ کے سربراہ نے عالمی قیادتوں میں قومی سلامتی، یکجہتی اور مفاہمت کی ضرورت کی اہمیت پر اہم اعلامیے جاری کیے، عوام کی صحت کی قدر و قیمت پر حکومتوں کو ضروری ہدایات جاری کیں، آج خدا کا شکر ہے کہ ملک میں کورونا کنٹرول میں ہے لیکن اومیکرون سے عوام خاصے ہراسمنٹ اور بے یقینی محسوس کر رہے ہیں۔

ایک بیان میں انتونیو گوتریس نے کہا کہ جن ملکوں نے نئے وائرس کی اطلاع دی ان کے خلاف پابندیاں لگا کر انھیں سزا نہیں دینی چاہیے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا یہ بھی کہنا تھا کہ وائرس کو پھیلنے سے روکنے کا واحد راستہ مسافروں کی ٹیسٹنگ کے لیے مناسب اور موثر اقدامات کرنا ہے۔ خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت نے جنوبی افریقا سے سامنے آنے والی نئی قسم کو ’اومی کرون‘ کا نام دیا ہے۔

ماہرین کے مطابق پریشانی کی بات یہ ہے کہ نئی قسم میں مجموعی طور پر 50 جینیاتی تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں جب کہ اس کی نسبت کچھ عرصہ قبل دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی کورونا کی ڈیلٹا قسم میں صرف 2 جینیاتی تبدیلیاں پائی گئی تھیں۔

برطانوی طبی ماہرین کے مطابق بھی کورونا کی یہ قسم اب تک سامنے آنے والی تمام اقسام میں سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ رپورٹس کے مطابق خطرناک وائرس کے کیسز کی جنوبی افریقا، یورپ اور اسرائیل میں تصدیق ہو چکی ہے۔ وائرس کا مزید پھیلاؤ روکنے کے لیے عالمی سطح پر ہنگامی اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔

صحت سسٹم کو خطرات سے بچانے کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت رہے گی، دنیا میں وائرسز کے باعث معیشتیں تباہی سے دوچار ہو جاتی ہیں، دنیا میں ایک ناگزیر سیاسی نظام کی ضرورت ناگزیر ہے، ماہرین کہہ چکے ہیں کہ جمہوریتوں کو دباؤ کا سامنا ہے، ان جمہوری سسٹمز کو ہمہ اقسام مسائل نے داخلی طور پر نڈھال کر دیا ہے، دنیا غیر محفوط ہوگئی ہے، عالمی قیادتیں جمہوری نظام کو بچانے کے لیے صحت سسٹم کو جمہوریت سے جوڑے رکھیں، کیونکہ دنیا بھوک، غربت اور بیروزگاری کے باعث فوڈ سیکیورٹی کے سنگین مسائل کا شکار ہو رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے رکن ممالک نے مستقبل میں وباؤں سے نمٹنے اور کووڈ-19 کے دوبارہ جنم نہ لینے کو یقینی بنانے کے لیے نیا بین الاقوامی میثاق تیار کرنے پر اتفاق کرلیا۔ رپورٹ کے مطابق جنیوا میں عالمی ادارہ صحت کا ایک خصوصی اجلاس ہوا جہاں وباؤں سے نمٹنے کے لیے نیا میثاق بنانے پر اتفاق کرلیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ کورونا وائرس کے بحران کے دوران معاشی ابتری اور لاکھوں جانوں کے ضیاع کے باعث مستقبل میں اس طرح کے بحران سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر مضبوط دفاعی حکمت عملی اپنانے کی غرض سے اس طرح کے میثاق کی راہ ہموار ہوئی۔

جنیوا میں خصوصی اجلاس کے دوران عالمی ادارہ صحت کے 194 رکن ممالک نے متفقہ طور پر وبا سے تحفظ، تیاری اور نمٹنے کے لیے نیا میثاق تیار کرنے کے لیے مذاکرات اور ڈرافٹنگ کا عمل شروع کرنے کے لیے قرارداد منظور کی۔ اس عمل کا حتمی نتیجہ عالمی ادارہ صحت کے رکن ممالک کو 2024 میں پیش کیا جائے گا۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ تیدروس ایڈہانوم نے تین روزہ اجلاس سے اختتامی خطاب میں کہا کہ یہ فیصلہ باعث خوشی اور امید ہے جس کی ہم سب کو ضرورت ہے تاہم اب سفر طویل ہے۔

انھوں نے کہا کہ نئے میثاق کے جزیات پر ابھی اختلاف رائے موجود ہے کہ کیا چیز شامل ہونی چاہیے اور کون سی چیزیں شامل نہیں کی جائیںٕ لیکن دوسری طرف دنیا پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اختلافات پر قابو پایا جاسکتا ہے اور مشترکہ اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اومیکرون ویرینٹ کے نام سے سامنے آنے والی نئی قسم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ تمام رکن ممالک سے ایک درخواست ہے کہ اس وبا کا خاتمہ کریں، صرف پچھلے ہفتے میں اس وائرس نے ثابت کیا ہے کہ یہ اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مزید کتنی انسانی جانیں لے گا یہ ہم پر منحصر ہے۔ تیدروس ایڈہانوم نے کہا کہ وبا کا خاتمہ ایک موقع نہیں بلکہ ضرورت کا معاملہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا کے 194 ممالک پر مشتمل عالمی ادارہ صحت کا غیرمعمولی خصوصی اجلاس تھا جو وباؤں پر نئے میثاق کو مدنظر رکھ کر منعقد کیا گیا۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس اقدام کا فیصلہ دنیا کے تقریباً دو برس تک کووڈ-19 کا شکار رہنے کے بعد اومیکرون جیسے نئے ویرینٹ کے سامنے آنے پر کیا گیا، جس کو عالمی ادارے نے دنیا بھر کے لیے خطرے کے طور پر تعبیر کیا ہے۔

رکن ممالک نے عالمی ادارہ صحت کا وبا سے تحفظ، تیاری اور نمٹنے کے لیے میثاق، معاہدہ یا بین الاقوامی عہد نامہ تیار کرنے کے لیے بین الحکومتی مذکراتی تنظیم کی بنیاد رکھنے پر اتفاق کرلیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ادارے کا پہلا اجلاس اگلے برس مارچ سے زیادہ تاخیر نہیں ہوگا جس میں دو مشترکہ چیئرمین اور 4وائس چیئرمین منتخب کیے جائیں گے۔ اس حوالے سے پیش رفت پر مبنی رپورٹ عالمی ادارہ صحت اسمبلی کے 2023 میں منعقد ہونے والے سالانہ اجلاس میں پیش کی جائے گی اور حتمی نتیجہ 2024 میں عالمی ادارہ صحت کی اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں رکھا جائے گا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کو بھی اپنے صحت سسٹم کو لاحق خطرات کے بارے میں عالمی ادارہ صحت جیسے مانیٹرنگ کی اہمیت پر غور وخوض کرنا چاہیے، وہ محض عالمی ادارہ صحت کے اعلامیہ کو وصول کرنے والا آفس کا کردار نہ اپنائے بلکہ وفاقی وزارت صحت وباؤں اور دیگر بیماریوں کے جینیاتی اسباب، ان کے ماخذ اور علاج پر ریسرچ اور ہیلتھ سسٹم کو جدید ترین ریسرچ سے مربوط کرے، حکومت صحت کی تحقیق پر فنڈز میں اضافہ کرنے، ماہرین کی تربیت اور ان کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ پاکستان میں وبائی امراض اور ہیلتھ سسٹم کو لاحق خطرات پر تحقیق کے حوالے ملک میں کس قسم کی بریک تھرو ہو رہی ہے، عالمی ادارہ صحت نے اس ضمن میں اہم گائیڈ لائنز دی ہیں۔

اب بس مشاورت اور وزارت صحت کو تحقیق کے عالمی دائرے میں خود کو فعال رکھنے اور مفید ثابت کرنے کے لیے پیش قدمی کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ ملک کو مستحکم صحت نظام کی آج جتنی ضرورت ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔