دواؤں کی قیمتیں اور ڈاکٹروں کی فیسیں بے لگام

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 3 دسمبر 2021
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

پانچ سال قبل میرے والد صاحب قبلہ کو بینائی کا مسئلہ درپیش تھا۔ مَیں انھیں ایک ماہرِ امراضِ چشم کے پاس لے گیا۔ یہ ڈاکٹر صاحب میرے واقف ہیں۔ اُن کا اپنا آنکھوں کا اسپتال ہے۔ انھوں نے والد صاحب کی آنکھوں کا معائنہ کیا اور مجھے کہا: ’’ چوہدری صاحب کی بائیں آنکھ خراب ہو رہی ہے ، سفید موتیا اُتر رہا ہے ، آپریشن فوراً کروائیں ‘‘۔ اباجی کا خیال تھا کہ ٹیکسلا کے قدیم اسپتال سے آپریشن کروانا چاہیے۔

ابا جی قبلہ کو اس اسپتال کی مہارت پر بہت اعتبار تھا کہ یہ اسپتال تقریباً ایک صدی قبل انگریزوں نے خاص آنکھوں کے امراض کی شفایابی کے لیے تعمیر کیا تھا۔ پچھلی ایک صدی کے دوران اس اسپتال نے آنکھوں کی محیرالعقول سرجریاں کی ہیں۔ والد صاحب کو مَیں وہاں لے تو گیا لیکن وہاں کے طویل اور سست رَو پروسیجر نے مجھے تھکا سا دیا۔

تنگ آ کر مَیں نے والد صاحب سے کہا: ابا جی، کیوں نہ پرائیویٹ اسپتال سے آنکھ کا آپریشن کروا لیں؟ وہ خاموش رہے ؛ چنانچہ  دوسرے روز مَیں انھیں اُسی نجی اسپتال لے گیا جس کے ڈاکٹر صاحب نے اولین طور پرآپریشن کروانے کا مشورہ دیا تھا ۔یہ سرجری لیزر ٹیکنالوجی سے ہُوئی۔ اس پر 25ہزار روپے اخراجات آئے۔ تقریباً نصف گھنٹے کے بعد اسپتال سے لے کر مَیں ابا جی کو گھر آ گیا۔ آپریشن الحمد للہ کامیاب رہا۔

دو سال قبل میری اہلیہ محترمہ کی آنکھوں میں بھی کچھ مسائل پیدا ہوگئے تھے۔ شکائت کرتی تھیں کہ دھندلاہٹ سی نظر آتی رہتی ہے۔ انھیں اُسی اسپتال لے گیا جہاں والد صاحب کی آنکھ کی سرجری کروائی تھی۔ اس بار بھی ہمیں آنکھ کے آپریشن کا مشورہ دیا گیا۔ ایک دوپہر میں اہلیہ کو اسپتال مذکور لے گیا۔

ڈاکٹر صاحب نے معائنے کے 400روپے لیے ( ابا جی کی آنکھ کا معائنہ کرنے کے200روپے لیے گئے تھے)، آنکھوں میں زرد رنگ کی دوائی دو بار ڈالی اور پھر دو گھنٹے کے انتظار کے بعد سرجری کر ڈالی ۔ یہ آپریشن بھی لیزر ٹیکنالوجی سے کیا گیا تھا ۔ اس پر چند منٹ ہی لگے ۔ اور اہلیہ کی آنکھ کے آپریشن پر 31ہزار روپے چارج کیے گئے۔ اگلے دو ہفتوں کے دوران دوبار چیکنگ ہُوئی اور ہر بار تین ، تین سو روپے چارج کیے گئے ۔ اللہ کا شکر ہے یہ آپریشن بھی کامیاب رہا ۔

اب میری باری تھی۔ ابھی چند دن پہلے غروبِ آفتاب کے بعد گاڑی ڈرائیو کرتے ہُوئے مَیں بازار سے گھر کی جانب آ رہا تھا۔ دفعتاً ایسا محسوس ہونے لگا جیسے نظر فوکس نہیں ہو رہی۔ سامنے سے آنے والی ٹریفک کی لائٹیں معمول سے زیادہ آنکھوں میں چندھیاہٹ پیدا کرتی محسوس ہو رہی تھیں۔ آنکھوں پر ہاتھوں کا چھجہ سا بنا کر گھر پہنچا۔ تشویش میں مبتلا دوسرے روز اسپتال مذکور پہنچا۔ ڈاکٹر صاحب سے گزارش کی کہ میری آنکھوں کا معائنہ تو کیجیے ۔ شائد نظر مزید کمزور ہو گئی ہے ۔

معائنہ کرنے سے قبل انھوں نے پہلے800روپے فیس  چارج کی۔ پھر دو بار نظر چیک کی۔ میری آنکھوں میں پندرہ پندرہ منٹ کے وقفے سے پیلے رنگ کا محلول بھی ڈالا۔ یوں لگا جیسے نظر دھندلا گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے شکائت کی توکہنے لگے : کوئی تشویش کی بات نہیں ہے، دوائی ڈالنے سے آنکھ کی پتلی پھیل جاتی ہے ، چند گھنٹے بعد خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔ نصف گھنٹے کے انتظار کے بعد ڈاکٹر صاحب ، جو میرے والد صاحب اور اہلیہ محترمہ کی آنکھوں کے آپریشن کر چکے ہیں ، نے مجھے کہا: ’’ جناب کی ایک آنکھ کا آپریشن ضروری ہو چکا ہے ، آپ میرے اسسٹنٹ سے رابطہ کریں ، وہ سارا پروسیجر بتا دے گا۔‘‘

ڈاکٹر صاحب مذکور کے دفتر سے متصل دروازے کے پاس بیٹھے اسسٹنٹ صاحب کے پاس پہنچا تو انھوں نے میرے ہاتھ میں پکڑی فائل کو ایک نظر دیکھا اور پھر میرے سامنے دو صفحات کا ایک پمفلٹ پھیلا دیا اور فرمایا:’’ ہم تین طرح کے آپریشن کرتے ہیں ۔‘‘ اسپتال میں بھیڑ بڑھ رہی تھی ؛ چنانچہ مَیں نے اسسٹنٹ کی بات کاٹتے ہُوئے عرض کیا: مختصر بتادیجئے آپریشن پر کتنے اخراجات اُٹھیں گے ؟ مشین کی طرح وہ بولا: ’’65ہزار روپے۔ لیزر سے سرجری ہوگی۔ چند منٹ کے آپریشن کے بعد آپ گھر چلے جائیں گے، انشاء اللہ‘‘ ۔65ہزار روپے کا سُن کر مجھے پریشانی نے آ گھیرا۔ میری نظر مزید دھند لا سی گئی تھی۔

مَیں نے اسسٹنٹ سے کہا: ’’ ابھی صرف دو سال پہلے اِسی اسپتال سے اور اِسی ڈاکٹر صاحب سے مَیں نے اپنی اہلیہ محترمہ کی آنکھ کا آپریشن کروایا تھا اور اُس وقت تو31ہزار روپے کا بِل بنا تھا اور اب65ہزار روپے ؟ اتنا فرق …یار؟‘‘۔ میرے لہجے میں غصے کی تھر تھراہٹ تھی۔ اسے اسسٹنٹ مذکور نے شائد بھانپ بھی لیا تھا ۔ کہنے لگا: ’’ عمران خان صاحب کی حکومت میں مہنگائی کا مسلسل اوپر اُٹھتا ہُوا گراف آپ نے نہیں دیکھا ؟ آپ کو معلوم نہیں ہے کہ ڈالر کہاں تک چلا گیا ہے ؟ ہمارا سامان تو ڈالروں میں آتا ہے ۔ لینز بھی ڈالروں میں خریدتے ہیں ۔ آپ کی مرضی ہے، آپریشن نہ کروائیں۔‘‘ اُس کے لہجے میں بیزاری اور تلخی دَر آئی تھی ۔

میرے پیچھے لائن میں کئی دیگر مریض کھڑے ہو چکے تھے۔ اُن کی پریشانی دیکھ کر مَیں سامنے رکھی نیلی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ جب رَش کم ہُوا تو میں نے ڈاکٹر صاحب کے اسسٹنٹ سے کہا: ’’ جناب ، کچھ رعائت کی سبیل نہیں نکل سکتی ؟۔‘‘ اُس نے مسکراتے ہُوئے مجھے دیکھا اور پھر کہنے لگا:’’ ہاں بزرگو، گنجائش نکل سکتی ہے۔

ہمارے ہاں صدقہ و خیرات کے فنڈز سے بھی کچھ مریضوں کا سستا آپریشن ہوتا ہے، اس کے لیے مگر آپ کو چند کاغذات پُر کرنا ہوں گے اور حلفیہ بیان دینا ہوگا۔‘‘ اسسٹنٹ صاحب کے ساتھ کھڑی ایک شائستہ مزاج نرس ہماری گفتگو توجہ سے سُن رہی تھی ۔ آخر وہ جھجکتے ہُوئے بولی :’’ بزرگو، آپ تو ہم لوگوں کا انٹرویو کرنے لگے ہیں ،جن مریضوں کا ہم سستے میں آپریشن کرتے ہیں ، انھیں کچھ ہفتے انتظار بھی کرنا پڑتا ہے ‘‘۔

مَیں کاؤنٹر کے سامنے کھڑا تھا۔ رعائت کی سبیل نکلنے کا سُن کر مَیں مزید آگے کھسک گیا اور نرس و اسسٹنٹ سے مخاطب ہو کر مَیں نے کہا: ’’ جب میرے ملک کے حکمران غیر ممالک سے صدقہ و خیرات لینے میں کوئی قباحت اور جھجک محسوس نہیں کرتے تو مجھے یہ سہولت لیتے ہُوئے جھجک کیوں ہوگی ؟ میرے ملک کے حکمران تو مبینہ طور پر ایک عرب ملک سے صدقہ و خیرات کے چاول کی بوریاں تک لے آتے ہیں۔

صدقہ و خیرات اور عطیات کے نام پر کورونا کی عالمی امداد وصول کی گئی ہے اور شنید ہے کہ اس میں بھی 40ارب روپے کا گھپلہ کر دیا گیا ہے تو عطیات ، خیرات و صدقات اور ڈونیشنز پر چلنے والے اس مملکتِ خداداد کے ایک شہری ہونے کے ناتے مجھے آپ کے اسپتال سے عطیات کی اساس پر سہولت لینے میں کیا شرم ہے ؟ آپ لوگوں نے صرف دو سال کے اندر اندر ایک آپریشن کے چارجز میں 100فیصد سے زائد اضافہ کر دیا ہے لیکن آپ کو شرم نہیں آ رہی ۔‘‘اسپتالوں میں اور وہ بھی نجی اسپتالوں میں بھلا مریض کی ایسی گفتگو کون سُنتا ہے؟؛ چنانچہ ڈاکٹر کے اسسٹنٹ نے اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہُوئے مجھے دھیرے سے کہا: بزرگو، آپ تھوڑی دیر بعد آ سکتے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔