پاکستان کی جیت ، بنگلہ دیش کی جیت

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  جمعـء 3 دسمبر 2021
advo786@yahoo.com

[email protected]

پاکستانی کرکٹ ٹیم تین T-20 اور دو ٹیسٹ میچ کھیلنے کے سلسلے میں بنگلہ دیش کے دورے پر ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے حسب روایت پریکٹس کے دوران ڈھاکہ کے میرپور اسٹیڈیم میں پاکستان کا پرچم نصب کیا تھا جس پر ایک مخصوص لابی نے طوفان برپا کردیا اور سوشل میڈیا پر بھی پاکستانی پرچم نصب کرنے پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری ہے۔

پریکٹس میچ کے دوران کھلاڑیوں کا مورال بلند کرنے کے لیے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق نے پاکستانی پرچم لہرانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ روایتی طور پر بھی ٹیموں کے قومی پرچم لہرانے کا سلسلہ مروج ہے ، لیکن پریکٹس کے دوران قومی پرچم نصب کرنے کے اس اقدام کو بنگلہ دیش میں موجود خاص ذہنیت کے حامل عناصر نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ حسینہ واجد حکومت نے پاکستان کا پرچم نصب کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔

حکومت کے ایک وزیر مراد حسن نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو پرچم کے ساتھ واپس بھیج دیا جائے ، یہ رویہ ان کے لیے کسی طور قابل قبول نہیں ہے اور یہ کہ پرچم دانستہ طور پر ایک سازش کے تحت لگائے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں بنگلہ دیش کی عدالت میں ایک پٹیشن بھی دائر کی گئی تھی جو عدالت نے خارج کردی ہے۔

بنگلہ دیش کے کرکٹ بورڈ نے اس معاملے پر کسی ردعمل کا اظہار یا تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔ پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کے میڈیا منیجر نے بی بی سی بنگلہ سروس سے بات کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ یہ پریکٹس پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق نے شروع کی تھی اس سے پہلے انڈر سکسٹین اور انڈر نائنٹین کی ٹیموں کی پریکٹس کے دوران بھی پاکستان کا قومی پرچم لگایا گیا تھا ، یہ ایک عام سی بات ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم پانچ سال کے بعد بنگلہ دیش کے دورے پر گئی ہے۔

اتفاق سے اس سال بنگلہ دیش اپنی آزادی کے پچاس سال مکمل ہونے پر آزادی کی گولڈن جوبلی منا رہا ہے اور دوسرا اتفاق یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کی پیدائش کا صد سالہ جشن بھی منایا جا رہا ہے ، اس لیے کچھ مخصوص عزائم و نظریات کے حامل افراد پاکستانی پرچم نصب کرنے کے اس اقدام کو سازش اور ایک سیاسی پیغام دینے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ حسینہ واجد حکومت اور اس میں موجود بھارت کے زیر اثر عناصر پاکستان دشمنی سے متعلق کوئی موقعہ اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

آج نصف صدی گزر جانے کے باوجود بھی یہ حلقے پاکستان پر جنگی جرائم و دیگر الزامات عائد کرکے پاکستان سے بنگلہ دیشی عوام سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔2014 میں بنگلہ دیش میں ہونے والے T-20 ورلڈ کپ میں بھی حسینہ واجد حکومت نے پاکستانی پرچم لہرانے، پاکستانی پرچم اور پاکستانی کھلاڑیوں کی تصاویر والی شرٹس پہننے اور اپنے جسموں پر پاکستانی پرچم بنوانے پر پابندی عائد کردی تھی۔ ایشیا کپ میں پاکستان کے ہاتھوں بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کی بدترین شکست اور T-20 میں کوئی خاص کارکردگی نہ دکھانے پر حسینہ واجد کی حکومت بڑی چراغ پا تھی جس کی وجہ سے اس نے پاکستان کے خلاف یہ اقدام اٹھایا تھا۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے بنگلہ دیش حکومت کے اس اقدام پر نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے وضاحت طلب کرلی تھی۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیشی عوام کو دوسری ٹیموں کو سپورٹ سے روکنے کا عمل درست نہیں ہے۔ کرکٹ شائقین اور مبصرین نے بھی اس پابندی پر سخت ایکشن لینے اور پابندی ختم نہ کرنے کی صورت میں میچز کسی دوسرے ملک منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور اس اقدام کو اسپورٹس مین اسپرٹ کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ کھیل سیاسی اختلافات، تضادات اور کھنچاؤ کی کیفیت کو ختم کرنے اور عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں ان کا اختلافات اور تضادات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ کیپ دلانے کا سہرا بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سر جاتا ہے۔

بنگلہ دیش کے علاوہ دوسری ٹیموں سے مقابلہ میں بنگالی تماشائیوں اور عوام کی ہمدردیاں پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہوتی ہیں وہ پاکستان کے حق میں نعرے بلند کرتے ہیں پاکستانی پرچم لہراتے ہیں وہاں کے عوام اپنی ٹیم کے بعد سب سے زیادہ پوسٹرز، ٹی شرٹس اور پرچم پاکستان اور پاکستانی کھلاڑیوں کے خریدتے ہیں ان کی بھرپور حمایت اور ہمدردیاں پاکستانی ٹیم کے لیے ہوتی ہیں۔ وہ پاکستانی ٹیم کی جیت کو اپنی جیت سمجھتے ہیں۔ بنگلہ دیشی عوام کا یہ جذبہ اور محبت بھارت اور بھارت نواز حسینہ واجد کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

ان دونوں کا پاکستان کے خلاف کینہ پرور رویہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے جس طرح اندرا گاندھی نے سقوط ڈھاکہ پر یہ دعویٰ کیا تھا کہ ’’آج ہم نے دو قومی نظریہ کو جمنا میں ڈبو دیا ہے‘‘ بالکل اسی طرح ان کی پیش رو حسینہ واجد نے ایک کرکٹ میچ میں بنگلہ دیشی ٹیم کے ہاتھوں پاکستان کی شکست کے موقع پر یہ الفاظ ادا کیے تھے کہ ’’آج ہم نے پاکستان سے 1971 کا بدلہ لے لیا ہے‘‘ حسینہ واجد کو پاکستان اور بنگلہ دیشی عوام کی قربت، محبت و یگانگت ایک آنکھ نہیں بھاتی، جب بنگلہ دیش میں اختتامی میچ میں پاکستان کا قومی ترانہ بجتا اور بنگلہ دیشی تماشائی پاکستانی پرچم فضا میں لہراتے ہیں تو یہ منظر ان کے لیے روح فرسا ہوتا ہے وہ تو کھیل کو انتقام اور جنگ کے مترادف سمجھتی ہیں جب پاکستانی ٹیم کی پوزیشن مستحکم اور فتح یقینی ہوتی دیکھتی ہیں تو اپنے منصب و مرتبے کا لحاظ کیے بغیر اسٹیڈیم سے اٹھ کر چلی جاتی ہیں انھیں کم ازکم کھیلوں میں بغض، عناد اور دشمنی کی فضا پیدا نہیں کرنی چاہیے۔ دونوں طرف کے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی جیت بنگلہ دیش کی جیت ہے اور بنگلہ دیش کی جیت پاکستان کی جیت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔