اعمال میں اخلاصِ نیّت کی اہمیت

علامہ محمد تبسّم بشیر اویسی  جمعـء 3 دسمبر 2021
 ﷲ تعالیٰ ہر کام میں انسان کی نیّت دیکھتا ہے اور اس کا مطلب ہے ارادہ فوٹو: فائل

ﷲ تعالیٰ ہر کام میں انسان کی نیّت دیکھتا ہے اور اس کا مطلب ہے ارادہ فوٹو: فائل

ﷲ تعالیٰ ہر کام میں انسان کی نیّت دیکھتا ہے اور اس کا مطلب ہے ارادہ۔ ارادہ نیک بھی ہوتا ہے اور بد بھی۔ اسی طرح خُلوص کا مطلب ہے ہم دردی و انسان دوستی۔ اور دوستی درد مندی کی بھی ہوتی ہے اور غرض مندی کی بھی۔ اِس دنیا میں تو کوئی کام بھی ہو خواہ وہ صالح نیّت سے کیا جائے یا فاسد نیّت سے وہ یہاں تو چل ہی جائے گا کیوں کہ یہاں تو ظاہرداری نبھائی جاتی ہے، لیکن آخرت میں چوں کہ نیّت اور دل کے ارادے اور بھید کے مطابق مقبولیت و مردودیت کا دار و مدار ہے اس لیے وہاں پر صرف وہی عمل قبول ہوگا جو صالح نیّت و ارادے سے کیا گیا ہے۔ لہٰذا جو عمل بھی صالح اور نیک نیّت و ارادے سے صرف اﷲ تعالیٰ کی رضا جوئی اور خوش نُودی کے لیے کیا گیا ہو اسی کا نام خُلوص ہے۔

حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے سُنا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے: تمام انسانی اعمال کا دار و مدار صرف نیّت پر ہے اور آدمی کو اس کی نیّت ہی کے مطابق پھل ملتا ہے تو جس شخص نے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف ہجرت کی تو اس کی ہجرت درحقیقت اﷲ تعالیٰ و رسول ﷺ ہی کی طرف ہوئی اور جو کسی دنیاوی غرض کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی خاطر مہاجر بنا تو عنداﷲ بس اسی کی طرف اس کی ہجرت مانی جائے گی۔

اس حدیث شریف کا اصل مقصد درحقیقت یہ واضح کرنا ہے کہ تمام اعمال صالحہ کی قبولیت و مردودیت کا دار و مدار بس نیّت پر ہی ہے اور صرف اسی عمل کی اﷲ تعالیٰ کے ہاں قدر و قیمت بھی ہوگی جو صالح نیّت سے کیا گیا ہوگا اور جو عمل صالح بھی کسی بُری غرض اور فاسد نیّت سے کیا گیا ہوگا وہ عمل قبول نہیں ہوگا بل کہ نیّت کے مطابق فاسد اور مردود ہی ہوگا، اگر چہ ظاہر میں وہ صالح ہی معلوم ہوتا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ عمل کے ساتھ نیّت کا اور ظاہر کے ساتھ باطن کا بھی دیکھنے والا ہے اس کے یہاں ہر عمل کی قیمت عمل کرنے والے کی نیّت کے حساب سے لگائی جائے گی۔

اس کلیے سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونا چاہیے کہ جب دار و مدار نیّت پر ہے تو پھر چوری چکاری اور ڈاکا زنی بھی اگر اس نیّت سے کی جائے کہ اس سے جو مال حاصل ہوگا وہ اس سے غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرے گا تو وہ بھی ثواب کا مستحق ہوگا، یہ بالکل خود فریبی اور خام خیالی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جو کام فی نفسہ مردود ہیں اور بے شک جن کو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے حرام قرار دے دیا ہے، ان میں تو حُسن نیّت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا وہ تو یہ بہ ہر حال اپنی اصلیت میں ہی قبیح اور موجب غضب الہٰی ہیں بل کہ ان کے ساتھ اچھی نیّت وابستہ کرنا اور ان پر ثواب کی اُمید بھی رکھنا ان کے لیے گناہ میں اور زیادتی ہی کا باعث ہے۔

کیوں کہ یہ اﷲ کے دین کے ساتھ مذاق ہوگا۔ دراصل حدیث شریف کا منشاء ہی یہ ہے کہ جو اعمال صالح بھی اگر کسی بُری نیّت سے کیے جائیں گے تو وہ اعمال صالح نہیں رہیں گے بل کہ بُری نیّت کے باعث ان کا انجام بھی بُرا ہی ہوگا۔ مثال کے طور پر کوئی شخص بہت ہی پابندی کے ساتھ پنج وقتہ نماز ادا کرتا ہے اور اگر وہ شخص نماز پنج گانہ پابندی کے ساتھ اس لیے پڑھتا ہے کہ لوگ اس کو دیکھ کر اس کی دین داری اور خدا پرستی اور پرہیزگاری کے بارے میں اس کے متعلق اچھی رائے قائم کریں اور اس کو ایک اچھا دین دار، نمازی اور پرہیزگار خیال کر کے اس کی عزت و عظمت کرنے لگیں تو اس حدیث شریف کی رُو سے یہ اس کی نماز اور پرہیزگاری اﷲ تعالیٰ کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتی اور یا یہ کہ مثال کے طور پر کوئی شخص دارالکفر سے دارالامان کی طرف ہجرت کرتا ہے اور ہجرت کی مصیبتیں بھی برداشت کرتا ہے لیکن اِس ہجرت سے اس کی کوئی اﷲ کی رضا جوئی و خُوش نُودی مطلوب نہ ہو بل کہ کوئی اور دنیاوی غرض اِس میں پوشیدہ ہو، مثال کے طور پر دارالامان میں رہنے والی کسی عورت سے نکاح کی خواہش اس ہجرت کی محرک ہوئی ہے تو یہ ہجرت اﷲ تعالیٰ کی رضا جوئی اور خُوش نُودی کے لیے نہ ہوگی اور نہ ہی اﷲ کے یہاں اس کا کوئی اجر ملے گا بل کہ گناہ ہوگا یہی اس حدیث شریف کا اصل مقصد ہے۔

رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جس کا مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن ایسے تین قسم کے اشخاص کے بارے میں بارگاہِ ایزدی سے جہنّم کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ پہلے ایک ایسے شخص کی پیشی ہوگی جس نے جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور خُوب بہادری کے جوہر دکھائے اور آخر شہید ہوگیا تھا۔ اﷲ تعالیٰ پہلے تو اس کو اپنی عطا کی ہوئی نعمتیں یاد دلائے گا اور وہ اس کو یاد بھی آجائیں گی۔ پھر اس سے دریافت فرمائے گا کہ بتا تُونے کیا اِن نعمتوں کا حق ادا کیا اور کیا عمل کیا ؟ وہ شخص کہے گا: یاالہٰی! میں نے تیری راہ میں جہاد کیا اور تیری رضا طلبی کے لیے جان عزیز تک قربان کر دی۔ حکم ہوگا کہ تُو جھوٹا ہے تُونے تو صرف اس لیے جہاد کیا تھا کہ دنیا میں تو بہادر مشہور ہو اور دنیا میں تیری بہادری کا خوب چرچا ہوگیا۔ پھر اﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ اس کو اوندھے منہ جہنّم میں ڈال دو۔

اس کے بعد ایک عالم دین پیش ہوگا اس سے بھی اﷲ تعالیٰ دریافت کرے گا کہ بتا تُونے دنیا میں کیا اعمال کیے ؟ وہ کہے گا کہ تیرے دین اور تیری کتاب کے علم کو پڑھا اور پڑھایا اور یہ سب تیری رضا کے لیے کیا۔ حکم ہوگا تُو جھوٹا ہے تُونے تو علم قاری صاحب اور مولانا صاحب کہلانے کے لیے پڑھا تھا۔ پھر بہ حکم خداوندی اس کو بھی دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر اس کے بعد ایک اور شخص پیش ہوگا جس کو اﷲ تعالیٰ نے بہت مال و دولت دیا ہوا تھا اس سے بھی یہی سوال کیا جائے گا۔ وہ کہے گا کہ اے اﷲ! میں نے خیر کا کوئی شعبہ ایسا نہیں چھوڑا جس میں تیری رضا جوئی کے لیے اپنا مال نہ خرچ کیا ہو۔ حق تعالیٰ فرمائے گا کہ تُو جھوٹا ہے۔ تُونے صرف اس لیے مال خرچ کیا تھا کہ دنیا میں تجھ کو سخی کہا جائے تو دنیا میں تیری سخاوت کا خوب چرچا ہوگیا پھر اس کو بھی جہنّم میں جانے کا حکم ہوگا۔

قرآن مجید میں بھی اچھی اور بُری نیّت کے بارے میں ارشادات موجود ہیں۔ صدقات و خیرات کرنے والے دونوں قسم کے لوگوں کا ذکر فرمایا گیا ہے اور پھر ان کا انجام بھی فرمایا گیا ہے۔ ایک میں وہ لوگ ہیں جو محض دُنیا کے دکھاوے کے لیے اپنا مال کار خیر میں خرچ کرتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جو محض اﷲ تعالیٰ کی رضا جوئی اور خُوش نُودی کے لیے اپنا مال غریبوں اور مساکین اور حاجت مندوں کی مدد کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ اب ان دونوں قسم کے لوگوں کے اگر چہ ظاہر ی عمل یک ساں تھے اور بہ ظاہر ان میں یک رنگی بھی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بہ ظاہر دیکھنے والا ان دونوں کے درمیان کسی قسم کے فرق کا کوئی حکم بھی نہیں لگا سکتا۔ لیکن اﷲ تعالیٰ کا حکم ہمارے سامنے ہے اور قرآن حکیم ہمیں صاف بتلا رہا ہے کہ ان کی نیّتیں مختلف تھیں۔

اس لیے ان کے نتیجے بھی مختلف ہیں۔ ایک کا عمل سراسر برکت والا اور دوسرے کا بالکل اکارت و رائیگاں۔ مال تو اگرچہ دونوں نے ہی بہ ظاہر یک ساں طور پر خرچ کیا لیکن چوں کہ ایک کی نیّت محض دکھاوے کی تھی اس لیے اس کو لوگوں کے دیکھ لینے یا کچھ وقتی طور پر تعریف و توصیف کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا، کیوں کہ اس کی نیّت ہی اس انفاق سے اس کے سوا کچھ نہیں تھی۔ لیکن دوسرے نے چوں کہ اس اثار و اتفاق سے صرف اﷲ کی رضا جوئی اور اس کا فضل و کر م چاہا تھا اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اس کو اس کی نیّت کے مطابق پھل دیا۔

بس یہی سُنّت اﷲ اور قانون قدرت ہے جس کا اعلان نبی کریم ﷺ نے درج بالا حدیث شریف میں فرمایا ہے۔ یہ دنیا جس میں ہمیں کچھ کرنے کا موقع دیا گیا ہے یہ عالم ظاہر ہے۔ یہاں ہر کام کا فیصلہ ظاہر پر ہی ہوتا ہے اور ظاہری حالت دیکھ کر ہی کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جاتی ہے اور اِسی بنیاد پر اس کے ساتھ معاملات کیے جاتے ہیں۔ لیکن عالم آخرت میں چوں کہ فیصلہ کرنے والا خود اﷲ تعالیٰ علام الغیوب ہوگا وہاں پر اس کا فیصلہ نیّتوں اور دل کے ارادوں کے لحاظ سے ہوگا۔ گویا جس طرح یہاں پر احکام کے بارے میں ظاہری اعمال اصل ہیں اور کسی کی نیّت پر یہاں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح وہاں معاملہ اس کے بر عکس ہوگا اور حق تعالیٰ کا فیصلہ نیّتوں پر ہوگا۔

اخلاص وہ چیز ہے کہ جس کی ہر کام میں اور ہر قدم پر ضرورت ہے اور زندگی کے ہر موقع پر نیک نیّتی اور خلوص ہی کام آتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے دونوں طرح کے انسانوں کے بارے میں صاف فرما دیا ہے کہ وہ شخص جو محض لوگوں کے دکھاوے کے لیے اپنا مال خرچ کرتا ہے وہ حقیقت میں اﷲ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کسی پتھر پر کچھ مٹی جم گئی ہو اور پھر اس پر کچھ سبزہ بھی اُگ آیا ہو اور پھر اس پر زور دار بارش برسے جو اس مٹی کو بہا لے جائے اور وہ جگہ بالکل صاف پتھر رہ جائے۔ تو ایسے ریا کار لوگ اپنی کمائی کا کچھ بھی پھل نہ لے سکیں گے اور ایسے منکر لوگوں کو اﷲ تعالیٰ اپنی ہدایت اور اِس کے پھل سے محروم ہی رکھے گا۔

دوسرے وہ لوگ ہیں جو صرف اﷲ کی رضا جوئی کے لیے اور اپنے نفس کو ایثار و قربانی کا عادی بنانے کے لیے اپنا مال اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، وہ اُس پھلنے والے باغ کی طرح ہے کہ جب اس پر زور دار بارش ہو تو دگنے اور چوگنے پھل لائے۔ صالح نیّت کی برکت سے دنیاوی کام بھی عباد ت بن جائیں گے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم جو عمل بھی کریں اس پر اﷲ تعالیٰ کی مرضی و خوش نُودی اور اس کی پسندیدگی کا خیال رہے۔ خواہ وہ اعمال معروف عبادات میں سے ہوں یا دیگر دنیاوی کام و معاملات ہوں اگر وہ اﷲ تعالیٰ کے حکم اور ہمارے ہادی و راہ نما ﷺ کی سنّت کے مطابق ہوں گے تو یہی کام ہماری عبادت بن جائیں گے۔

اﷲ تعالی ہمیں خلوص نیّت عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔