بابر اعظم ورژن2.0

سلیم خالق  جمعـء 3 دسمبر 2021
کوئی ہمیشہ کسی کے زیر اثر رہے تو پھرخود کچھ نہیں کر سکتا

کوئی ہمیشہ کسی کے زیر اثر رہے تو پھرخود کچھ نہیں کر سکتا

آسٹریلیاکاکوئی کرکٹ گراؤنڈ تھا، وہاں ’’بھائی‘‘‘ خوشگوار موڈ میں بیٹھے تھے،آف دی ریکارڈ گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا،میں نے ہمت کر کے پوچھ لیا کہ ’’فلاں سابق کرکٹر آپ کو احسان فراموش کہتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ وہ آپ کوکرکٹ میں لے کر آئے مگر نام کمانے کے بعد آپ نے ان کی عزت کرنا چھوڑ دی تھی‘‘

یہ سن کر ’’بھائی‘‘ نے مجھے گھورا اور کہا ’’او تم فلاں کی بات کر رہے ہو ناں، میں ان کی عزت کرتا تھا اور کرتا رہوں گا، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں چھوٹے کا بڑا بننا کسی کو ہضم نہیں ہوتا، وہ چاہتے ہیں کہ بندہ ہمیشہ پیچھے چلتا رہے، خود آگے نکل جائے تو اس کی برائیاں شروع کر دیتے ہیں، مگر میری بات یاد رکھو،آپ صرف کسی کے سپورٹ کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔

اپنا ٹیلنٹ ہونا ضروری ہے، ورنہ بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں کسی نے نوجوان کرکٹر کی بہت مدد کی مگر اسے اسٹار نہ بنا سکا، میں اب بھی اپنے انٹرویوز میں ’’ان‘‘ کا نام لیتا ہوں لیکن سچ بتاؤں قریب آ کر پتا چلا تھا کہ جنھیں ہم کرکٹ کے دیوتا سمجھتے ہیں اصل میں تو وہ خود دولت کے پجاری ہوتے ہیں،وہ اپنے سے آگے کسی کو جاتا برداشت کر ہی نہیں سکتے،پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ حسد کی آگ میں جلتے ہوئے برائیاں شروع کردیتے ہیں،البتہ کوئی ہمیشہ کسی کے زیر اثر رہے تو پھرخود کچھ نہیں کر سکتا، اس میں قوت فیصلہ کی کمی رہے گی، ہمیشہ اہم وقت پر وہ گراؤنڈ کے باہر اشارے کا منتظر ہوگا، چونکہ میرے ساتھ ایسا ہو چکا لہذا میں تو نہیں چاہتا کہ کسی پر دباؤ ڈال کر اپنی تعریفیں کراؤں،ہمیں لوگوں کو اسپیس دینی چاہیے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج میں آپ کو کون سا قصہ سنانے بیٹھ گیا لیکن یہ تلخ حقیقت ہے،مجھے یہ باتیں اس وجہ سے یاد آئیں کہ کسی نے مجھ سے پوچھا ’’یہ بابر اعظم اچانک کیسے اتنا تگڑا کپتان لگنے لگا‘‘ میں

نے ان کو جواب دیا کہ مصباح الحق کی شخصیت کے اثر سے نکل کر ان میں نکھار آیا ہے۔ گوکہ بابرکے بارے میں کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ انھیں ٹیم میں لے کر آیا، وہ باقاعدہ پراسس کے ذریعے آگے بڑھے، البتہ سابق کوچ مکی آرتھر نے ٹیلنٹ بھانپ کر انھیں بہت سپورٹ کیا،جب سرفراز احمد کو قیادت سے ہٹانے کا فیصلہ ہوا تو قیادت کیلیے نگاہیں بابر اعظم پر ٹھہر گئیں، بلاشبہ وہ بیٹنگ میں نام کما چکے تھے مگر کپتانی کا کوئی تجربہ نہ تھا،لہذاکافی عرصے تک مصباح الحق کے زیراثر دکھائی دیے۔

فیصلے ہیڈکوچ کے ہوتے اسٹیمپ بابر سے لگوائی جاتی، مجھے یاد ہے ایک بار میڈیا کانفرنس میں اس حوالے سے میں نے جب بابر سے یہ سوال پوچھا تو اس کی کلپ سوشل میڈیا پر چلنے لگی اور ان کے مداح مجھے برابھلا کہنے لگے کہ ’’یہ کیسا سوال پوچھا تھا‘‘ البتہ حقیقت سب جانتے تھے،کرکٹ سمیت کسی بھی شعبے میں آپ کی کارکردگی جتنی اچھی ہو اتنا ہی اعتماد بڑھتا جاتا ہے، بابرکا بیٹ ساتھ دیتا رہا جس سے بطور کپتان بھی صلاحیتیں نکھر گئیں،مگر مجھے بابر کا اپ گریڈڈ ورژن2.0 اب نظر آ رہا ہے، یہ وہ کرکٹر نہیں جو مصباح بھائی سے پوچھ کر ہر فیصلہ کیا کرتا تھا، اب ابتدائی اسکواڈ کی سلیکشن، پلئینگ الیون کا انتخاب، بیٹنگ آرڈر، بولنگ کس سے کب کرانی ہے، فیلڈنگ کیسی ترتیب دینا ہے، ٹاس جیت کر کیا کرنا چاہیے، ان سب فیصلوں میں بابر اعظم حاوی نظر آتے ہیں۔

میدان میں پہلے ان کی شخصیت اتنی متحرک نہیں لگتی تھی، اب وہ ہر گیند پر ساتھی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں،کسی حقدار کرکٹر کی ٹیم میں شمولیت کیلیے آواز بھی اٹھاتے ہیں، یہ تگڑا بابر اعظم ہے، ایسا ہی کپتان ٹیم کو فتوحات کی راہ پر گامزن کرتا ہے، ہم نے ورلڈکپ میں دیکھا کہ کس طرح پاکستان نے بھارت کو ہرایا اور ناقابل شکست رہتے ہوئے سیمی فائنل میں رسائی حاصل کی،اگر مشکل وقت میں کپتان آپ کے ساتھ کھڑا ہو تو کھلاڑی زیادہ عزت کرتے ہیں،اس کی اپنی کارکردگی بہترین ہو تو وہ ویسے ہی سب کی نظر میں ہیرو ہوتا ہے۔

بابر میں یہ خوبی موجود ہے، ہمیں ثقلین مشتاق کو بھی کریڈٹ دینا چاہیے، انھوں نے کپتان کو فیصلوں کیلیے فری ہینڈ دیا، وہ کھلاڑیوں کو بھی ’’ہمارے دور میں ایسا ہوتا تھا‘‘ والے قصے سنا کر بور نہیں کرتے، سب کو اپنی ذمہ داریوں کا علم ہے، ثقلین بس ان پر عمل درآمد کرانے کی کوشش کرتے ہیں،ٹیم سلیکشن وغیرہ میں زیادہ دخل اندازی انھیں پسند نہیں، شاید یہی وجہ سے کھلاڑی بھی ثیقی بھائی سے بہت خوش ہیں،البتہ ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ثقلین کا تقرر عبوری طور پر ہوا ہے۔

لہذا ان کی کوشش ہوگی کہ کسی کو ناراض نہ کریں، ٹیم کی اچھی رپورٹ ہی انھیں مستقل طور پر ذمہ داری دلا سکتی ہے،امید ہے کہ وہ بعد میں بھی ایسے ہی رہیں گے، کپتان کا عہدہ بڑی محنت کے بعد ملتا ہے، ایسے ہی کسی کھلاڑی پر بورڈ مہربان نہیں ہو جاتا،جب کسی کو عزت ملے تو اسے فری ہینڈ بھی دینا چاہیے،بابر کی زیرقیادت پاکستان ٹیم تیزی سے بہتری کی جانب گامزن ہے،بیٹنگ کے ساتھ وہ بطور کپتان بھی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں،ماضی کا بابر اب نظر نہیں آتا، اب ان کی شخصیت میں بھی نکھار و اعتماد آ گیا ہے۔

البتہ میڈیا مینجمنٹ میں وہ پیچھے نظر آتے ہیں، اس کی وجہ پی سی بی کا میڈیا ڈپارٹمنٹ ہی ہے جس نے کپتان کو اس حوالے سے گروم نہیں کیا،ملکی صحافیوں سے ہمیشہ دور رکھا بلکہ الٹا ڈرایا ہی ہے، امید ہے چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ اس نکتے کو ذہن میں رکھ کر ان کی درست رہنمائی کریں گے،آج کل کے دور میں میڈیا مینجمنٹ بھی ایک آرٹ ہے،پاکستان کو ایک ایسے مضبوط کپتان کی ضرورت ہے جو کسی کے زیر اثر نہ ہو،آپ دیکھتے جائیں اگر بابر کو اسی طرح فرائض نبھانے دیے گئے تو وہ ٹیم کوکہاں سے کہاں لے کر جاتے ہیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔