- کراچی میں مرکزی مویشی منڈی کب اور کہاں سجے گی؟
- پاکستان ویسٹ انڈیز ویمن ٹی ٹوئنٹی سیریز کا پہلا میچ آج کھیلا جائے گا
- اسحاق ڈار کی پی ٹی آئی کو ساتھ کام کرنے کی پیش کش
- ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کی ٹرافی پاکستان پہنچ گئی، اسلام آباد میں رونمائی
- وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ سے میٹا کے وفد کی ملاقات
- برطانیہ کا ایرانی ڈرون انڈسٹری پر نئی پابندیوں کا اعلان
- سزا اور جزا کے بغیر سرکاری محکموں میں اصلاحات ممکن نہیں، وزیر اعظم
- چوتھا ٹی ٹوئنٹی: نیوزی لینڈ کے ہاتھوں پاکستان کو مسلسل دوسری شکست
- حماس کی قید میں موجود اسرائیلی یرغمالی کی نئی ویڈیو جاری
- جامعہ کراچی میں قائم یونیسکو چیئرکے ڈائریکٹر ڈاکٹراقبال چوہدری سبکدوش
- تنزانیہ میں طوفانی بارشیں؛ سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے 155 افراد ہلاک
- ججز کو دھمکی آمیز خطوط؛ سپریم کورٹ کا لارجر بینچ 30 اپریل کو سماعت کریگا
- متحدہ عرب امارات کی مارکیٹ میں پاکستانی گوشت کی طلب بڑھ گئی
- زرمبادلہ کے ذخائر میں گزشتہ ہفتے 9 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی کمی
- فوج سے کوئی اختلاف نہیں، ملک ایجنسیز کے بغیر نہیں چلتے، سربراہ اپوزیشن گرینڈ الائنس
- جوحلف نامہ مجھ پر لاگو وہ تمام ججوں،جرنیلوں پر بھی لاگو ہو گا : واوڈا
- اگر حق نہ دیا تو حکومت گرا کر اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے، علی امین گنڈاپور
- ڈالر کی انٹر بینک قیمت میں اضافہ، اوپن مارکیٹ میں قدر گھٹ گئی
- قومی اسمبلی: خواتین ارکان پر نازیبا جملے کسنے کیخلاف مذمتی قرارداد منظور
- پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکی ’متعصبانہ‘ رپورٹ مسترد کردی
یہ سیارہ پگھلتے ہوئے لوہے سے بنا ہے!
برلن / چلی / سان تیاگو / ٹیکساس: ماہرینِ فلکیات کی ایک عالمی ٹیم نے زمین سے 31 نوری سال دوری پر ایک ایسا سیارہ دریافت کرلیا ہے جس کا بیشتر حصہ لوہے سے بنا ہے جبکہ وہ اتنا گرم ہے کہ وہاں لوہا بھی پگھلنے لگے۔
اس نودریافتہ سیارے کا نام ’’جی جے 367 بی‘‘ (GJ 367b) ہے اور یہ جنوبی آسمان کے ’’ویلا‘‘ نامی جھرمٹ میں ایک ستارے (جی جے 367) سے بہت قریب رہتے ہوئے اس کے گرد چکر لگا رہا ہے۔
فلکیاتی مشاہدات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ سیارے کے جس حصے کا رُخ اس کے مرکزی ستارے کی طرف ہوتا ہے، وہاں پر سطح کا درجہ حرارت تقریباً 1500 ڈگری سینٹی گریڈ ہوجاتا ہے؛ جس کی وجہ سے وہاں موجود لوہا بھی شاید پگھلی ہوئی حالت میں ہو۔ (زمینی ماحول میں لوہا 1538 ڈگری سینٹی گریڈ پر پگھل جاتا ہے۔)
ماہرین کو اس سیارے کے اوّلین شواہد ’’ٹرانزٹنگ ایگزوپلینٹ سروے سٹیلائٹ‘‘ (ٹی ای ایس ایس) سے حاصل شدہ ڈیٹا کے تجزیئے میں ملے۔ ٹی ای ایس ایس، ناسا کا بنایا ہوا سیارچہ ہے جسے بطورِ خاص دوسرے ستاروں کے گرد سیارے ڈھونڈنے کےلیے خلاء میں بھیجا گیا ہے۔
ابتدائی شواہد کے بعد طاقتور زمینی دوربینوں کی مدد سے بھی اس سیارے کے مقام، اپنے مرکزی ستارے سے اس کی قربت، اس کی کیمیائی ترکیب اور درجہ حرارت وغیرہ جیسی دوسری خصوصیات کے بارے میں مزید معلومات جمع کی گئیں اور ان کی اطمینان بخش حد تک تصدیق کی گئی۔
اسی دوران یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ مذکورہ سیارے میں دیگر عناصر کے مقابلے میں لوہے (آئرن) کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ یعنی ہم اسے ’’لوہے کا سیارہ‘‘ بھی قرار دے سکتے ہیں۔
اس تفصیلی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ ’’جی جے 367 بی‘‘ اپنے مرکزی ستارے سے بہت قریب ہے اور یہ صرف 7 گھنٹے 40 منٹ (تقریباً 8 گھنٹے) میں اس کے گرد ایک پورا چکر لگا لیتا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس سیارے کا ’’ایک سال‘‘ صرف آٹھ گھنٹے میں مکمل ہوجاتا ہے۔
سائنسدانوں نے یہ بھی اندازہ لگایا ہے کہ ’’جی جے 367 بی‘‘ کی جسامت ہماری زمین کے مقابلے میں لگ بھگ 25 فیصد کم ہے جبکہ کمیت کے معاملے میں یہ ہماری زمین سے 45 فیصد کم ہے۔
ان معلومات کی بنیاد پر سائنسدانوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ اس سیارے کی کثافت (مادّے کا گاڑھا پن) 8 گرام فی مکعب سینٹی میٹر ہے۔ سیارہ زمین کی کثافت (5.5 گرام فی مکعب سینٹی میٹر) کے مقابلے میں یہ تقریباً 46 فیصد زیادہ ہے۔
اتنے زیادہ لوہے کے ساتھ یہ سیارہ کس طرح وجود میں آیا ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں فی الحال ہمارے پاس صرف مفروضات ہیں جن سے پتا چلتا ہے پتھریلے سیاروں کی تباہی سے ان کے درمیان میں لوہے کا مرکز آزاد ہوسکتا ہے جو بعد میں کسی اور پتھریلے سیارے سے ٹکرا کر اس میں لوہے کی مقدار بڑھانے کی وجہ بن سکتا ہے۔ البتہ، یہ بات ابھی صرف ایک مفروضہ ہے جس کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں ہمارے پاس کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں۔
نوٹ: اس دریافت کی تفصیل ریسرچ جرنل ’’سائنس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔